ہندوستان اور پاکستان میں چل رہے اس ٹکراؤ میں سب سے زوردار دھماکہ۔۔۔ ایٹم بم کا نہیں، کسی میزائل یا راکٹ کا نہیں، ایف 16 کا نہیں، ایک ہزار کلو وزنی بم کا نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے بمبار میڈیا کا پے درپے بلاسٹ ہے ۔ہندوستانی سرکار امن پسند ہونے کا عندیہ دے رہی ہے اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی جنگ سے بچنے اور بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی پیشکش کی ہے ، ابھی نندن کو واپس اپنے ملک بھیجنے کا فیصلہ کر کے انہوں نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ بھی امن چاہتے ہیں لیکن دونوں ملکوں کے میڈیا کمانڈرفوجی وردی پہنے اپنے اپنے سٹوڈیوز میں بیٹھے بٹھائے فضا کو آتشیں بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ اینکرز جنگ لڑنے لگے ہیں ،اگر ان کو جنگ وجدل کا اتنا ہی شوق ہے تو فوج میں بھرتی ہو جاتے، فوج میں این ڈی اے کا ایگزام دیتے اور پھر جا کر سرحدوں پر جان جوکھم میں ڈالے لڑتے، تب مزہ تھا۔ دو ملکوں کے ٹکراؤ اور تناؤ کو یہ میڈیا والے کسی اور ہی رنگ میں اور زبان میں دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ ہر چینل پر فوجیوں کو یلغار بولنے کی صلاح دی جارہی ہے ، لوگوں کو اُکسا یا جارہاہے ۔ الیکٹرانک میڈیا ہو ،سوشل میڈیا ہو یا پھر پرنٹ میڈیا ہر کوئی نتائج وعواقب کو نظر انداز کر کے طبل جنگ بجایا جارہاہے ۔ اگر سرحدوں پر یہ لوگ خود یا ان کے افرادِخانہ ، ودست رشتہ دار زخمی ہویا مر جائے تو پھر یہ بخوبی سمجھ پاتے کہ سرحد پر بسنے والے لوگوں کا دردکیا ہے، جن کے پاس نہ وسائل ہیں نہ محفوظ بنکرس ،نہ نقلِ مکانی کا کوئی ذریعہ ۔اگر کچھ ہے تو صرف سروں پر منڈلاتی موت کا ہمہ وقت سایہ، مگر بجائے ا س کے کہ یہ جنگ کے شعلوں کو بجھاتے ، ان سب کو بس جنگ چاہیے۔ ایسے ہی میڈیا کماندانوںکے لیے اردو زبان کے نو جوان شاعر ثمریاب ثمر ؔ چوہان نے کچھ یوں کہا ہے ؎
بکاؤمیڈیاکے نام
کوئی سرحد پہ لڑتا ہے
کسی کے بھاؤ بڑھتے ہیں
کسی کا گھر اُجڑتا ہے
کسی کا لعل چھنتا ہے
کسی کی مانگ جب سندور سے محروم ہوتی ہے
تو پھر ماتم پسرتا ہے!
کسی کے صندلی ہاتھوں سے
مہندی روٹھ جاتی ہے
جواں بہنیں کہیں بھائی کے غم میں
ٹوٹ جاتی ہیں
کہیں پر سوختہ آنکھیں لہو
روتی ہیں اس ڈھب سے!
کہ ان کے حال پر چشم فلک کو رونا آتا ہے
کہیں معصوم کلیاں، پھول سے چہرے
خزاں کی نذر ہوتے ہیں
بہار آنے سے پہلے ہی!
کہیں مہجوریاں انسان کی تقدیر بنتی ہیں!
کہیں محرومیاں گردن کی خود زنجیر بنتی ہیں
کہیں پتھر کلیجے اپنے لٹ جانے پہ
روتے ہیں!
کبھی سوچا ہے اے ٹی وی پہ سج کے بھونکنے والو!!!!!
کہ جنگوں کے نتائج کس قدر
سنگین ہوتے ہیں!!
مجھے اتنا بتاؤ کیا تمہارا بھائی، بیٹا، بھی
وہیں پر ہے؟
جہاں پر تم نے سلگائی ہوئی ہے
آگ نفرت کی
تمہارا بھائی بیٹا بھی ہے کوئی فوج میں بولو؟
نہیں ہے تو ذرا اک رات کی خاطر
انھیں سرحد پہ بھیجو نا!
تمہیں معلوم ہوجائے گا فوجی کیسے رہتے ہیں!
کہ کیسے گھر اجڑتے ہیں!
کہ کیسے لعل کھوتے ہیں!
کبھی سوچا ہے اے ٹی وی پہ سج کے بھونکنے والو!!!
کہ جنگوں کے نتائج کس قدر
سنگین ہوتے ہیں۔۔۔!!!!!۔
ہندوستان اور پاکستان کا میڈیاپچھلے بیس برسوں میں جس اُلٹی سمت میں چل رہا ہے، وہی سمت آج بھی عروج پر ہے۔ لنن نے کہیں کہا تھا کہ ’’جنگ بری چیز ہے لیکن بری طرح سے منافع بخش بھی ہے۔‘‘ دونوں ممالک کے میڈیا کے لیے یقینا کچھ ایسا ہی ہے۔ ریٹنگز ان دنوں میں آسمان کو چھورہی ہیں۔ ٹی وی اور ٹاک شوز سے متنفر ومتعصب لوگ بھیگی بلی کی طرح سکرین کے سامنے بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کشیدگی کے دوران میڈیا کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔ اب یہ ایک صحافی اور اینکر اوررپورٹر پر منحصرہے کہ پروفیشنل تقاضوں کو پورا کرتا ہے یا انہیں قربان کر دیتا ہے۔ سنجیدہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کشیدگی بڑھانا میڈیا اور صحا فیوں کا کاروباری مفاد بن جائے۔شاید یہی مفاد ہے کہ جواکثر صحافیوں کو’ ’جنگی نامہ نگار‘‘ (corespondent war)بننے پر زیادہ مجبور کرتا ہے۔ یہ کاروباری مفاد میڈیا مالکان کا بھی ہوتا ہے لیکن عام سامعین، ناظرین اور قارئین کے لیے جنگی ماحول، تشویش، ناامیدی، سنسنی پھیلانے اور افراتفری میں اضافے کا ہی سبب بنتے ہیں۔
دونوں ممالک کے میڈیا نے ان تلخیوں اور تنازعات کے درمیان نفرتیں بڑھائی ہیںاور میڈیا اس لکیر کو بھول گیا ہے جو قوم پرستی کو انسانیت سے علیحدہ کرتی ہے۔یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان اصلاً میڈیا کے یرغمال بنے ہوئے ہیں، ان دونوں ممالک کے میڈیا کے لیے جنگ اسی وقت شروع ہو جاتی ہے جب کہیں کوئی حملہ ہوتا ہے۔اگر صحافی اور اینکر ایک ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی للکار لگا رہے ہوں ،تو اس میں صحافت کا تو جنازہ نکل جاتا ہے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ احساس ذمہ داری سے لیس میڈیا کی موجودگی میں اب جنگ نہیں ہوگی لیکن دونوں جانب میڈیا تو اس کا پورا انتظام کرنے کے چکر میں دکھائی دے رہا ہے۔ جنگ کی تباہی دکھانے کے بجائے وہ حریف ملک کے دانت کھٹے کرنے کے شوق میں مبتلا ہیں۔بہتر تو یہ ہوتا کہ میڈیا میں جنگی رپورٹروں کے بجائے امن رپورٹر زیادہ تعداد میں ہوتے لیکن آج کل تو امن کے داعی بیک فُٹ پر دکھائی دیتے ہیں۔ جنگی جنون سے سرشار میڈیا ان کو جگہ اور وقت دینے کا متمنی نہیں ہے۔
برصغیر ہندو پاک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے لوگوں نے اور میڈیا نے اصلی اور مکمل جنگ نہیں دیکھی آج تک ہندوستان میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں وہ محدود تھیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی کو ہندوستان کی عظیم جنگ کہا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ دہلی سے 75 کلومیٹر کے فاصلے پر میرٹھ میں شروع ہوئی اور دہلی پہنچ کر ختم ہو گئی۔ یہ پوری جنگ دہلی کے مضافات میں لڑی گئی تھی اور پنجاب ، سندھ ، ممبئی ، کولکتہ اور ڈھاکہ کے لوگوں کو جنگ کی خبر اس وقت ہوئی جب ملبہ تک سمیٹا جا چکا تھا۔ اگر 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کا تجزیہ کیاجائے تو یہ جنگیں، جنگیں کم اور جھڑپیں زیادہ محسوس ہوں گی ۔ 1965ء کی جنگ چھ ستمبر کو شروع ہوئی اور 23 ؍ ستمبر کو ختم ہو گئی۔ہندوستان اور پاکستان 17؍ دن کی اس جنگ کو جنگ کہتے ہیں۔ یہ دونوں ملک ہر سال اس جنگ کی سالگرہ مناتے ہیں ۔65ء کی جنگ میں چار ہزار پاکستانی اور تین ہزار ہندوستانی ہلاک ہوئے تھے ۔یہ جنگ بھی صرف کشمیر ، پنجاب اور راجستھان کے بارڈر تک محدود رہی تھی ۔ ہندوستان اور پاکستان کے دور دراز علاقوں کے عوام کو صرف ریڈیو پر جنگ کی اطلاع ملی جب کہ 1971 ء کی جنگ تین دسمبر کو شروع ہوئی اور 16؍دسمبر کو ختم ہو گئی۔ اس جنگ میں 9 ؍ہزار پاکستانی مارے گئے اور 26؍ ہزار ہندوستانی اور بنگالی ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک کی سرکاریں میڈیا اور عوام ٹھنڈے دل کے ساتھ 13 ؍اور17 ؍دنوں کی ان جنگوں کو یورپ کی چار سالہ اور چھ سالہ لمبی جنگوں اور اُن تین ہزار ، چار ہزار ، 9 ؍ہزار اور 26؍ ہزار لاشوں کو یورپ کی ساڑھے چار کروڑ لاشوں کے سامنے رکھ کر دیکھیں اور پھر اپنے آپ سے یہ پوچھیں کہ’’ جنگ کیا ہوتی ہے ‘‘ ان کے جسم کا ایک ایک خلیہ ان کو جنگ کی ماہیٔت بتائے گا ۔ یہ دونوں ملک جنگ نتائج سے ناواقف محض ہیں ،یہ جانتے ہی نہیں ’’جنگ کیا ہوتی ہے ؟‘‘ چنانچہ یہ ہر سال چھ ماہ بعد ایٹم بم نکال کر دھوپ میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ ہندوستان ہر دہشت گرد انہ حملے کے بعد پاکستان کو جنگ کی دھمکی دیتا ہے اور پاکستان جواب میں کہتا ہے ہم نے یہ ایٹم بم شب برات پر چلانے کیلئے نہیں بنائے یعنی کھلے عام جنگ کی دھمکی ہندوستان کو پاکستان کی طرف سے بھی دی جاتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے وہ جنونی میڈیا اینکرس اور وہ جنونی عوام ایک بار صرف ایک بار آنکھیں بند کر کے اور تصور میں اپنے آپ کو سرحدوں پر محسوس کر کے یہ سوچیں کہ اگر خدا نخواستہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کوئی بڑی جنگ چھڑ جائے، تو کیایہ اپنی پانچ دس کروڑ لاشیں دیکھ پائیں گے؟ یہ عوام کو دوا اور خوراک کے بغیر بلکتا دیکھ پائیں گے؟ یہ زندگی کو ایک بار بجلی ،پانی، ٹیلی فون ، سڑک ، ہسپتال اور ا سکول کے بغیر دیکھ پائیں گے؟ یہ تابکاری کے زیر اثر پچاس سال تک معذور بچے پیدا ہوتے ہوئے دیکھ پائیں گے؟ یہ ایک دن انٹر نیٹ بند ہونے پر واویلا کرے والی قومیں ہیں،یہ جنگ کے بھاری بھرکم نقصانات کو سہنے والی قومیں نہیں ہیں۔کشمیر میں جہاں آئے دن انٹرنیٹ سروس بند ہوتی ہے تو شہر یوں کو کتنی کوفت ہوتی ہے؟ تجربہ کے طور پران جنگی جنون والوں کو سرحدوں پر صرف ایک ہفتے کے لئے بھیج دیا جائے اور تمام بنیادی سہولتوں کو بند کر دیا جائے، سرحد ی آبادی اور فوجیوں کے ساتھ رہنے کو کہا جائے تو پھر اس جنگی جنون کے غبارے سے ہوا نکلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یہ تب جنگ کی سوغات کو سمجھیں گے اور پھر اس کے بعد جاپان اور یورپ کے لوگوں کی طرح جنگ کا نام نہیں لیں گے۔ یہ اس وقت یورپ کی طرح اپنی سرحدیں کھولیں گے اور بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں گے۔ مورخ اس وقت چین ہی چین لکھے گا ، تب تک الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیاپر بے چین لوگوں کو چین نہیں آئے گا اور یہ لوگ جنگ جنگ کرتے رہیں گے۔
(ختم شد)
رابطہ 9622080799