ڈاکٹر عامرعبداللہ
امام الاولین والآخرین، سید الانبیاء و المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کے لیے ایک ایسے دور میں مبعوث فرمایا گیا، جب انسانیت کی قدریں بدل چکی تھیں، لوگوں میں اچھائی اور برائی کی تمیز مٹتی جارہی تھی۔ قوم کائنات کی سب سے اٹل حقیقت یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے یکسر بیگانہ و لاتعلق ہوچکی تھی۔ اخلاقی اقدار، ضمیر کی آزادی، عدل و انصاف، اخوت و مساوات وغیرہ نہ صرف مفقود تھے، بلکہ اُنہیں حاصل کرنے کا کوئی شعور بھی بیدار نہ تھا۔
ضرورت تھی ایسے نظامِ زندگی کی جس میں لوگوں کے معاملاتِ باہمی میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہو، جو مالک و مملوک اور آجر و اجیر کے تعلقات کو نظم و ضبط کا پابند بنا سکے، یہاں تک کہ حقدار کو اپنا حق لینے کے لیے کسی کی خوشامد نہ کرنی پڑے، ضرورت تھی ایسے معاشرے کی جس میں عزت و شرافت کا معیار، دولت کے بجائے اخلاقی اقدار اور کردار کی بلندی ہو۔
ایسے دور میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر احسان عظیم کرتے ہوئے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا کہ دعوت دیجیے اس انسانیت کو جو جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے اور اپنے آپ کو ایسے عذاب میں مبتلا کررہا ہے جو اس کی دنیا و آخرت کو بگاڑ کر خسارے کی طرف لے جارہے ہیں۔ یہ ایسی بھلائی کی طرف دعوت تھی جو انسان کو انسان کی بندگی سے نجات دلائے، جو انسانی برادری کے قیام اور اس کی تاسیس میں ممد ومعاون ہو، جس کا رنگ، نسل اور نسبتی تفاخر میں کوئی دخل نہ ہو، جس میں انسان کی فضیلت اور عزوشرف کا معیار صرف تقویٰ ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت سے قبل کی چالیس سالہ زندگی سے مکہ کا ہر شخص واقف تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ کسی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی، نہ کوئی ایسی صحبت ملی کہ جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ علوم حاصل ہوتے جس کے چشمے یکایک نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ مبارک سے جاری ہوئے، مشرکوں کے لیے حیران کن تھا آپ شرک سے دور رہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چالیس سالہ زندگی کو دیکھ کر قریش کو اس قدر علم تو ضرور ہوچکا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت جھوٹ، فریب، بدعہدی اور اس قبیل کی تمام گراوٹوں سے پاک ہے، اسی لیے تو بڑے چھوٹے سب ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو صادق و امین کہہ کر پکارتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی بذاتِ خود ایک عظیم معجزہ ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی پیغمبر یا بانی مذہب ایسا نہیں ہے کہ جس کی اخلاقی زندگی کا ہر ہر پہلو ہمارے سامنے اس طرح بے نقاب ہو کہ گویا وہ خود ہمارے سامنے موجود ہے۔ صرف معلم اعظم اور محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ہی وہ خاص انفرادیت رکھتی ہے کہ اس کا ایک ایک پہلو دنیا میں محفوظ اور اپنی اصل میں سب کے سامنے ہے۔
مشہور دانشور باسورتھ اسمتھ نے لکھا ہے کہ سیرت محمدیؐ پورے دن کی روشنی ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو روزِ روشن کی طرح نمایاں ہے۔ (سیرتِ محمدؐ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود یہ حکم تھا کہ میرے ہر قول اور عمل کو ایک سے دوسرے تک پہنچاؤ، محرمانِ راز کو اجازت تھی کہ جو مجھے خلوت میں کرتے دیکھو اس کو جلوت میں برملا بیان کردو، جو حجرے میں کہتے سنو اُس کو چھتوں پر چڑھ کر پکارو، فرمایا! حاضر، غائب تک میری بات پہنچادیا کرے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باطنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن و جمال سے بھی خوب نوازا تھا، یہی نہیں بلکہ سیدنا آدمؑ سے سیدنا عیسیٰ ابن مریمؑ تک تمام انبیاء و رُسل کی تمام تر ظاہری و باطنی خوبیاں اکیلے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جمع تھیں۔ کہنے والوں نے کہا ہے کہ حسن یوسفؑ سے متاثر ہو کر زلیخا کی سہیلیوں نے اپنی اُنگلیاں کاٹ ڈالیں، لیکن سیدنا یوسفؑ کے چہرے سے نگاہیں ہٹا نہ سکیں، لیکن میرے مصطفیؐ کو جنہوں نے دیکھا، پہلے ایمان لائے پھر گلے بھی کٹوا ڈالے، لیکن آپؐ کے دامنِ اقدس کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔
سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ آفتاب و مہتاب جیسا تھا۔ (صحیح مسلم) روح الامین حضرت جبرائیلؑ نے فرمایا کہ میں تمام مشارق و مغارب میں پھرا ، لیکن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کوئی شخص حسین و جمیل نہیں دیکھا۔ دربارِ نبوت کے عظیم نعت خواں سیدنا حسان بن ثابتؓ نے بجا فرمایا ہے :(ترجمہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سا حسین کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سا جمیل کسی ماں نے نہیں جنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر عیب سے اس طرح پاک صاف پیدا کیے گئے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خالق سے کہتے چلے گئے کہ مجھے ایسا بناتا جا اور وہ بناتا چلا گیا۔
عام طور پر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت بیان کرتے ہوئے محض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا تذکرہ کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ نعتیہ شاعری میں بھی اندازِ تبسم، ابروئے چشم اور گیسوئوں ہی کو موضوع داد سخن بنایا گیا ہے، گویا دوسرے لفظوں میں سارا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُس حیثیت کا کیا جارہا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن عبداللہ کی ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو امن و آشتی کا جو چلن دیا، اپنے عمل سے انسانی حقوق کا جو چارٹر عطا کیا اور اپنی 23 سالہ نبوت کی زندگی میں جو اُسوئہ حسنہ چھوڑا، اکثر اُسے اس طرح بیان نہیں کیا جاتا کہ وہ موجودہ حالات میں ہمارے لیے انقلاب آفریں ثابت ہو، یہی وجہ ہے کہ اس قدر عظیم الشان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم اُمتی ہونے کے باوجود ہم مختلف اور عجیب قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہیں، تمدن، وضع قطع اور معاشرتی رکھ رکھاؤ سے ہم کسی بھی طرح محمدی معلوم نہیں ہوتے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ محض عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعوے کرلینے سے ہمارا ایمان کامل نہیں ہوتا کہ اطاعت و تابعداری کے بغیر محبت معتبر نہیں کہلائے گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری زندگی اسلام کے غلبے و فروغ کی کوششوں سے لبریز ہے یہی وہ مقصد اولین تھا کہ جس کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا ’’اللہ وہ ذات ہے کہ جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ،تا کہ یہ اُسے تمام ادیان پر ظاہر و غالب کردے‘‘۔ (القرآن)