الیکٹرسٹی ریگولیٹری ایکٹ پر عملدرآمد کہاں ؟ بجلی کے جھٹکوں سے سینکڑوں غریب گھروں کے چراغ گُل،معاوضہ کچھ بھی نہیں

کسی نے ہاتھوں کی قربانی دی ،کوئی ٹانگوں سے محروم تو کوئی زندگی بھر کیلئے زندہ لاش بن گیا

اشفاق سعید

سرینگر//حفاظتی سازسامان کی قلت،تنخواہوں کی عدم فراہمی اور مستقلی کے منتظرمحکمہ بجلی کے 7ہزار سے زائد ڈیلی ویجر اپنی جانوں کوخطرے میں ڈال کربجلی بحال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے، لیکن اپنے فرائض انجام دینے کے دوران آج تک درجنوںعارضی ملازمین اپنی جان گنوا بیٹھے۔ کوئی کرنٹ لگنے سے تو کوئی کھمبے سے گر کر لقمہ اجل بن گیا۔کئی سارے عارضی ملازمین ایسے بھی ہیں جو زندہ تو بچ گئے ،لیکن زندہ لاش بن کر زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کسی نے ہاتھوں کی قربانی دی تو کسی نے ٹانگوں کی اور کئی سارے افراد کی ہڈیاںٹوٹ گئیں ۔ایسے ملازمین تنخواہوں کی عدم فراہمی،نوکریوں میں مستقلی اور ڈیوٹی کیلئے ضروری ساز و سامان کی عدم موجود گی سے پریشان ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ ان عارضی ملازمین کو ایسے تکنیکی کام کرنے پر مامور کیا جاتا ہے جس کیلئے باضابطہ تربیت یافتہ ہونا لازمی ہے۔

 

 

 

ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس وقت محکمہ میں 13ہزار ملازمین سے 7ہزار 4سو30ملازمین عارضی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں جنہیں نہ وقت پر تنخواہ ملتی ہے ،نہ انکا لائف انشورنس کیا گیا ہے اور نہ کام کے دوران سیفٹی کٹ فراہم کئے گئے ہیں۔ یہ ملازمین اپنی زندگیوں کو دائو پر لگا کر خوش اسلوبی سے اپنا کام انجام دے رہے ہیں حالانکہ الیکٹرسٹی ریگولیٹری ایکٹ میں یہ بات صاف طور پر کہی گئی ہے کہ ڈیلی ویجروں اور نیڈبیسڈ اہلکاروں کا تعین محکمہ میں غیر تکنیکی نوعیت کے کاموں کیلئے کیا جاسکتا ہے ، لوگوں کے گھروں کو روشن کرنے کیلئے نہیں۔لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ غیر تکنیکی ہونے کے باوجود تکنیکی کام کرتے ہیں اور ایسے غیر تربیتی عارضی ملازمین وادی کے ہر علاقے میں حادثات کے شکار ہورہے ہیں۔گذشتہ 10 برسوں کے دوران 400سے زائد ملازمین ابھی تک اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ 700سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں،کئی ایک اپاہچ بن گئے اور کئی زندگی بھر کیلئے ناکارہ ہوگئے ہیں۔

 

 

 

ان میں زیادہ تر عارضی ملازمین ہیں جن میں ڈیلی ویجر اور نیڈ بیسڈ اہلکار شامل ہیں۔ فیلڈ عملے کی تربیت کیلئے جموں وکشمیرحکومت نے کئی سال قبل سرینگر اور جموں کیلئے دو الگ الک نیشنل پاورٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کیلئے ایک مفصل پروجیکٹ رپورٹ مرکز کو بھیجی تھی، لیکن فنڈس نہ ملنے کے نتیجے میں کسی بھی جگہ پر یہ ادارے قائم نہیں کئے جا سکے۔ بغلیہار چندر کوٹ میں تربیتی انسٹی ٹیوٹ قائم بھی کیا گیا تھا، اور اسکے لئے پرنسپل کی تقرری بھی کی گئی تھی لیکن اسکے بعد یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔جس کے نتیجے میں بغیر تربیت عارضی اور مستقبل ملازمین کام کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔محکمہ پی ڈی ڈی حکام نے بتایا کہ جموں وکشمیر میں عارضی ملازمین کو تر بیت دینے کیلئے ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی کمی ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ نے جموں و کشمیر کے دونوں ڈویژنوں میں انسٹی ٹیوٹ کیلئے مرکزی وزارت بجلی کو ایک تفصیلی تجویز ارسال کی ہے لیکن اس کا جواب ابھی تک نہیں ملا ہے۔الیکٹرک ریگولیٹری کمیشن کی سفارشات میں واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ محکمہ بجلی کے ملازمین کی حفاظت کیلئے انہیں درکار آلات دینا ہر ایک کارپوریشن اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ حفاظتی سازوسامان میںحفاظتی دستانے،زندگی بچانے کے کٹس،شارٹ سرکٹ سے بچائو کے کٹس،خطرے کی نشانی کے آلات،حفاظتی جوتے، روشنی والے ہلمٹ اور چہرے کی حفاظت کیلئے شیلڈس، کٹر اورپلاس شامل ہیں۔سٹیٹ الیکٹرل ایمپلائز یونین کے صدر محمد شفیع بٹ نے کہا کہ سرکار نے دعویٰ کیا تھا کہ دوران ڈیوٹی جو بھی ملازم جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اس کے اہل خانہ کو 25لاکھ تک مالی امداد مختلف سکیموں کے تحت فراہم کی جائے گی، لیکن یہ دعویٰ صرف کاغذات تک ہی محدودرہا جبکہ متاثرہ ملازمین کے اہل خانہ کو چند ٹکے دے کر ان کا منہ بند کیا جاتا ہے جو کہ سرا سر ناانصافی ہے ۔شفیع نے کہا کہ 2019 سے ایسے لقمہ اجل بن چکے اہلکاروں کے اہل خانہ کو ابھی تک حکام کی جانب سے بیسک تنخواہ فراہم نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ایسے افراد کی طرف محکمہ کا کوئی دھیان جاتا ہے ۔ ملازمین کی ایک اور انجمن کے سربراہ محمد مقبول نجار نے بتایا کہ حد یہ ہے کہ جو بھی عارضی ملازم اپنی ڈیوٹی کے دوران جاں بحق ہوتا ہے، اس کی جگہ کوئی دوسرا تعینات نہیں کیا جا سکا ہے اورفلیڈ میں کام کررہے ملازمین خطروں سے کھیل رہے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں نجار نے کہا 25لاکھ کے معاوضے کی باتیں زبانی ہو رہی ہیں، عملی طور اس پر کوئی بھی عملدآمد نہیں کیا جا رہا ہے اور اب تک قریب ۱یک ہزار ملازمین لقمہ اجل جبکہ ہزاروں اپاہچ بن چکے ہیں اورہر سال ملازم حادثات کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ان کا کہناتھا ’زیادہ تر حادثات انسانی غفلت شعاری کے سبب پیش آتے ہیں ۔محکمہ بجلی کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق ضرورت کے مطابق محکمہ فیلڈ عملے کیلئے حفاظتی کٹس حاصل کرتا ہے اور ایسا نہیں کہ کام کے دوران ملازمین کو یہ سہولیت نہیں ملتی ۔انہوں نے کہا کہ اب ایسے ملازمین کیلئے کئی ایک سکیمیں بھی شروع کی گئی ہیں جن کے تحت ان کو معاوضہ فراہم کیا جا رہا ہے ۔