الیکشن یا ریفرینڈم ؟

پارلیمانی انتخابات
1967
1971
1977
1984
1996
1998
1999
2004
2009
2014
2017
رائے دہی  ( فیصد )
37.25
58.88
69.12
73.51
40.94
30.60
11.93
18.57
25.55
25.86
7.14
1990کے بعد جب کشمیر میں انتخابات مرحلہ وار طریقے پر کرائے گئے تو ہر بار اس کا آغاز وسطی کشمیر یا شمالی کشمیر سے کیا گیا۔ جس کے اثرات بعد میں مزاحمتی تحریک کے گڑھ جنوبی کشمیر میں دیکھے جاتے تھے۔ 1917کے ضمنی پارلیمانی انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن آف انڈیا ء کی طرف سے 9 ؍اپریل کو سرینگر پارلیمانی حلقہ اور 12اپریل کو اسلام آباد پارلیمانی حلقہ کے لئے تاریخیں مقررہ کی گئیں تاکہ ماضی کے تجربہ سے استفادہ کیا جاسکے۔ الیکشن نوٹیفیکیشن کے بعد اگرچہ چند ایک معلوم ونامعلوم امیدوار میدان میں اُترے، تا ہم اس بار انتخابی مہم میں سرے سے ہی کوئی جوش و خروش نہ تھا ۔ انتخابی ریلیاں اور جلسے و جلوس نہ ہونے کے برابر تھے۔ ہر طرف خاموشی کا ماحول چھا یا ہوا تھا ، جس کی بنیادی وجہ 2016کی5ماہ پر محیط مزاحمتی تحریک تھی جس میں  100افراد شہید ہوئے اور سینکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں کی بینائی متاثر ہوئی ۔ 2016ء کی پُر تشدد حالات و واقعات پر نوجوان طبقے میں غم و غصہ کی لہرپائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ 2017ئمیں یہی نہتے نوجوان عسکریت پسندوں اور فورسز کے درمیان ہورہی جھڑپوں کے دوران بھی پتھراؤں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ وسطی کشمیر کی ضمنی پارلیمانی انتخابات سے فقط 12روز قبل 28مارچ 2017کو دربگ چاڑورہ میں عسکریت پسندوں اور فورسز کے درمیان جب معرکہ آرائی کا آغاز ہوا تو عسکریت پسندوں کو بچانے کے لئے علاقے کے چاروں اطراف سے نوجوان جائے واردات کی طرف چل پڑے اور بعد میں اس معرکہ آرائی کے دوران ایک عسکریت پسند اور تین شہری 24سالہ زاہد رشید گنائی چاڈورہ 18سالہ عامر فیاض واتھورہ چاڈورہ اور 24سالہ اشفاق احمد وانی رنگریٹ شہید ہوگئے ۔ اس واقعہ کے بعد چاڈورہ علاقے میں عوام کے غم و غصہ میں مزید اضافہ ہوا ۔ 
9اپریل کو جب پروگرام کے مطابق سرینگر ، گاندربل اور بڈگام اضلاع میں فورسز کی چھتر چھایہ میں پولنگ کا آغاز ہوا تو بہت ساری جگہوں پر ووٹ ڈالنے کے بجائے نوجوانوں نے فورسز کے ساتھ مزاحمت کی ۔ جس کے نتیجے میں 8افراد 15اسالہ  فیضان احمد ڈار ڈھلون پکھر پورہ ، 22سالہ عباس جہانگیر ڈھلون پکھرپورہ ،22سالہ شبیر احمد بٹ دولت پورہ ،25سالہ نثار احمد میر رٹھسونہ بیروہ ، عقیل احمد وانی مجرو بیروہ ، 18سالہ عادل فاروق شیخ یاری گنڈ کا وسہ ،20سالہ عامر احمد راتھر ڈاڈہ وانپورہ اور عمر فاروق گنائی بارسو گاندربل جابحق ہوئے ۔ اس کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں فورسز اھلکاروں سمیت لوگ زخمی ہوئے ۔ پولنگ اسٹیشنوں پر موجود عملہ ووٹروں کا انتظار کرتے رہے تاہم اکاد کاووٹران نے ہی حق رائے دہی کا استعمال کیا ۔ بیشتر علاقوں کا منظر دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں پولنگ نہیں بلکہ ماتم ہے ۔ جہاں کہیں اکاد کا ووٹ ڈالے بھی گئے وہاں رائے دہندگان کو اپنے چہرے کو چھپا کر پولنگ بوتھوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا ۔ خون آشام الیکشن عمل کے اختتام پر سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف الیکٹورل آفیسر شانت منونے اعداد شمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ سرینگر بڈگام پارلیمانی حلقہ میں 1559پولنگ مراکز پر کل1261395ووٹوں میں سے90050ووٹ ڈالے گئے۔ سرینگر ضلع میں مجموعی شرح رائے3.84 ،  بڈگام میں 8.82جبکہ گاندربل میں14.71فیصد رہی اور اس طرح مائیگرنٹ ووٹوں سمیت اس پارلیمانی حلقہ میں رائے دہی کی کل مجموعی شرح7.14فیصد رہی جو پچھلے انتخابات کے مقابلے میں 25فیصد کم ہے ۔ 9اپریل کی پُر تشدد پولنگ کی وجہ سے ضلع بڈگام کے 38انتخابی حلقوں میں 13اپریل کو دوبارہ پولنگ کرائی گئی۔ اگرچہ اس روز سخت سیکورٹی انتظامات بھی کئے گئے تھے اور فورسز کی20اضافی کمپنیوں کے علاوہ الیکشن کی نگرانی کیلئے 2خصوصی سپر انٹنڈنٹ آف پولیس کو بھی تعینات کیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود ان38حلقوں میں 35169ووٹوں میں سے فقط709ووٹ ہی ڈالے گئے جو صرف2فیصد ریکارڑ کی گئی۔
    گذشتہ 5دہا ئیوں پر محیط الیکشن عمل کے اعداد و شمار پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رائے دہی شرح 1884 تک بڑھتی رہی۔ 1967میں جب اس پارلیمانی حلقہ میں انتخابات کا عمل شروع ہوا تو رائے دہی کی شرح37.25فیصد رہی۔ جبکہ1971میں 58.88فیصد1977میں 69.12فیصد ،1984میں 73.51فیصد تھی ۔ 1991میں یہاں عسکری تحریک کی وجہ سے الیکشن کا انعقاد ممکن نہ ہوسکا ۔ اس کے بعد رائے دہی کی مجموعی شرح گھٹتی رہی ۔ چنانچہ1996کے الیکشن میں جو انتخابات کرائے گئے اس میں فورسز کا عمل دخل کا فی رہا جسکی وجہ سے1996 کے انتخابات میں رائے دہی کی شرح 40.94ریکارڑ کی گئی ۔بعد میں 1998میں یہ شرح30.60فیصد ، 1999میں 11.93فیصد  ، 2004میں 18.57فیصد 2009میں 25.55فیصد ریکارڑ کی گئی ۔ اگر گذشتہ تین برس کے الیکشن کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جائے تو اس بار کی شرح دہندگی نہایت ہی کم ہے ۔ چنانچہ2014کے پارلیمانی انتخابات کی مجموعی رائے دہی26.00فیصدتھی جس میں ضلع سرینگر 11.46فیصد ، گاندربل45.61%فیصد اور بڈگام میں 39.50فیصد تھی۔2014کے اسمبلی انتخابات میں مجموعی رائے دہی 49.00فیصد تھی۔ جس میں ضلع سرینگر کا حصہ27.85فیصد ، گاندربل 67.62فیصد اور بڈگام کا حصہ73.19فیصد رہا۔ 
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اعداد وشمار خود بولتے ہیں وہ کسی تبصر ے یا تشریح کے محتاج نہیں ہوتے ۔ گذشتہ5 دہائیوں کے انتخابی اعداد و شمار اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اگرچہ 1967سے 1984تک وسطی کشمیر کے پارلیمانی انتخابی حلقہ میں مجموعی رائے دہی میں اضافی ہوتا گیاتا ہم1987کے اسمبلی انتخابات میں جب مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں نے انتخابی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تو بدقسمتی سے یہاں پر ریکارڈ توڑھاندھ لیاں کی گئی ۔ مسلم متحدہ محاذ کے امیدواروں کو نا کامیاب قرار دیکر انھیں گرفتار کیا گیا۔ چنانچہ وسطی کشمیر کے امیراکدل سرینگر کے اسمبلی انتخابات کے مسلم متحدہ محاذ کے امیدوار محمد یوسف شاہ بعد میں سید صلاح الدین بن گئے جو آج بھی وادی کی سب سے بڑی عسکری تنظیم حزب المجاھدین کے سربراہ کی حیثیت سے عسکری محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ نویں کے اول میں جب عسکری دور شروع ہوا تو انتخابات کا عمل بھی متاثر ہوا۔ جسکی وجہ سے 1991میں پارلیمانی انتخابات عمل میں نہیں لائے جاسکے۔ گذشتہ تین دہائیوں میں گٹھتی ہوئی شرح رائے دہی اس حقیقت کی ترجمان ہے کہ کشمیر یوں کو بھارتی الیکشن کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔1917ئکے ضمنی انتخابات نے ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے اس بیان کو غلط ثابت کر دیا جس میں اس نے کہا تھا’’رواں جدوجہد کے ساتھ صرف 5فیصد لوگ ہیں جو منصوبہ بند سازش کے تحت امن و قانون کو بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘ بلکہ آج یہ عملی طور ثابت ہوا کہ مزاحمتی تحریک کے ساتھ 93فیصد جُڑ ے ہوئے ہیں ۔ آج کے الیکشن بائیکاٹ نے الیکشن آف انڈیا کو جنوبی کشمیر کے ضمنی انتخابات کو ملتوی کرانے پر مجبور کر دیا ۔ کشمیر کے حریت پسند عوام نے آج عالمی اداروں کو یہ پیغام سنا دیا کہ ہم الیکشن نہیں بلکہ ریفرینڈم یا رائے شماری چاہتے ہیں ۔