محمد اسجد قاسمی ندوی
اللہ رب العزت کی صفاتِ عالیہ میں ایک بہت نمایاں صفت اللہ کی شانِ رحمت ہے، اسمائے حسنیٰ میں ’’الرحمٰن‘‘ اور ’’الرحیم‘‘ دونوں اسی صفت کے ترجمان ہیں، اور ان میں اللہ کی رحمت کی کثرت، عموم، تسلسل اور دوام سب کی طرف اشارہ موجود ہے۔ قرآن مجید میں سیکڑوں مقامات پر اللہ نے اپنی صفتِ رحمت کا ذکر کیا اور حوالہ دیا ہے، تمام قرآنی سورتوں کے آغاز میں جو آیت تلاوت کی جاتی ہے اور تمام اہم کاموں کا آغاز جن مبارک کلمات سے کیے جانے کا حکم ہے وہ ’’ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ ہے، جس میں اللہ کے ’’رحمٰن‘‘ (سب پر مہربان) اور ’’رحیم‘‘ (بہت مہربان) ہونے کی صراحت ہے، قرآن میں مستقل ایک سورت ’’سورۃ الرحمٰن‘‘ کے نام سے موسوم ہے، جسے قرآن کی زینت قرار دیا گیا ہے، اس کا آغاز بھی صفتِ ’’رحمٰن‘‘ کے ذکر سے ہوا ہے، اور پوری سورت میں ابتدا ءسے انتہاء تک اسی صفت کے ثمرات اور نمونوں کا بیان ہے، اس کے علاوہ بہت سے مقامات پر گناہ گاروں، گناہوں اور جہنم کی سزاؤں کے ذکر کے بعد اللہ نے اپنے ’’ غفور‘‘ اور ’’رحیم‘‘ ہونے کی صراحت فرمائی ہے، اور کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف رحمت کی نسبت کی ہے اور کئی جگہ اپنی رحمت کی وسعت کو بیان فرمایا ہے، اس حوالے سے ارشاد ہے:’’تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کا معاملہ لازم کرلیا ہے۔‘‘(سورۃالانعام:۵۴)
قرآن ِ کریم اور احادیثِ نبویؐ میں اللہ کی شانِ رحمت کا تذکرہ مختلف پیرایوں میں بڑی کثرت سے ملتا ہے
(ترجمہ)’’تمہارا رب بڑی وسیع رحمت کا مالک ہے۔‘‘ (سورۃالانعام:۱۴۷)ایک مقام پر فرمایا گیا:(ترجمہ)’’ میری رحمت ہر چیز کو محیط ہے۔‘‘(سورۃ الاعراف:۱۵۶) نیز فرمایا گیا: (ترجمہ)’’تمہارا رب بہت بخشنے والا بڑی رحمت والا ہے۔‘‘(سورۃالکہف:۵۸) فرشتوں کا یہ قول بھی قرآن میں نقل ہوا ہے:’’اے ہمارے رب! آپ کی رحمت اور علم ہرچیز پر بھاری ہے۔‘‘(سورۃالغافر:۷)
رسول اللہ ؐکی احادیث میں اللہ کی شانِ رحمت کا تذکرہ مختلف پیرایوں میں بڑی کثرت سے ملتا ہے، ایک حدیث میں آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ نے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے:’’میری رحمت میرے غضب پر غالب رہتی ہے۔‘‘ ’’میری رحمت میرے غضب پر مقدم رہتی ہے۔‘‘(صحیح مسلم: التوبۃ:باب فی سعۃ رحمۃ اللہ:۶۹۶۹)
مختلف احادیث میں یہ صراحت ملتی ہے کہ اللہ نے اپنی رحمت کے سو حصے فرمائے، اس میں ۹۹؍ حصے اپنے پاس عالمِ آخرت کے لیے روک لیے، اورایک حصہ دنیا میں بھیج دیا، انسانوں، جنوں، حیوانات میں باہم جو محبت، تعلق اور اُنس پایا جاتا ہے، وہ اسی ایک حصۂ رحمت کا اثر ہے۔(ایضاً:۶۹۷۲ و۶۹۷۴)
اللہ کی اسی شانِ رحمت کا مظہر ہے کہ اس نے اپنے احکام سے بغاوت کرنے والوں اور گناہوں میں مبتلا افراد کو توبہ و استغفار اور اپنی طرف رجوع کا حکم دیتے ہوئے انہیں ناامیدی سے نکالا ہے اور اپنی رحمت کی امیدوں کی ڈور انہیں تھمادی ہے، چنانچہ فرمایا:’’اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقین جانو اللہ سارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، یقیناً وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے، بس تم اپنے رب سے لو لگالو۔‘‘(سورۃالزمر: ۵۳-۵۴)’’تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہوجاؤ۔‘‘(سورۂ یوسف:۸۷)
واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی رحمت بہانے ڈھونڈتی ہے، اور بسا اوقات بندوں کی بہت معمولی نیکیاں بلکہ دل سے احساسِ ندامت، آنکھوں کے چند قطرے، اور معافی کے بول اللہ کی رحمت کو جوش دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اور ان ہی پر اللہ کی طرف سے تما م گناہوں کی مغفرت اور جنت و رحمت کا فیصلہ ہوجاتا ہے، احادیث میں جگہ جگہ ذکر آیا ہے کہ ایک بدکار عورت کو صرف پیاسے کتے کو پانی پلانے کے عمل پر اللہ کی طرف سے مغفرت عطا فرمادی گئی،اسی لیے آپ ﷺنے ہدایت فرما دی ہے:’’تم کبھی کسی نیک کام کو ہرگز حقیر اور معمولی نہ سمجھو۔‘‘(ابوداؤد، اللباس، باب ما جاء فی اسبال الازار: ۴۰۸۴)
کسی نیکی کو معمولی سمجھنا اور اُسے چھوڑدینا بے حد خطرناک بات ہے، بہت ممکن ہے کہ اسی نیکی کی وجہ سے اللہ کی رحمت متوجہ ہوجائے اور بیڑا پار ہوجائے، نیکیوں کو معمولی قرار دے کر اسے چھوڑنے کا خیال ڈالنا شیطان کی مکارانہ تدبیر ہے، اس دام میں پھنسنا بڑی نادانی ہے۔
ایک بزرگ جوبڑے محدث بھی تھے،جنہوں نے ساری عمر حدیث کی خدمت میں گزاری، جب ان کا انتقال ہوگیا تو کسی نے خواب میں ان کی زیارت کی، اور ان سے پوچھا کہ حضرت! اللہ تعالیٰ نے کیسا معاملہ فرمایا؟ جواب میں انہوں نے فرمایاکہ بڑا عجیب معاملہ ہوا، وہ یہ کہ ہم نے تو ساری عمر علم دین اور حدیث کی خدمت میں گزار دی، اور درس و تدریس اور تصنیف اور وعظ و خطابت میں گزاری، تو ہمارا خیال یہ تھا کہ ان اعمال پر اجر ملے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے کچھ اور ہی معاملہ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ ہمیں تمہارا ایک عمل بہت پسند آیا، وہ یہ کہ ایک دن تم حدیث شریف لکھ رہے تھے، جب تم نے اپنا قلم دوات میں ڈبو کرنکالا تو اس وقت ایک پیاسی مکھی آکر اس قلم کی نوک پر بیٹھ گئی، اور سیاہی چوسنے لگی، تمہیں اس مکھی پر تر س آگیا، تم نے سوچا کہ یہ مکھی اللہ کی مخلوق ہے، اور پیاسی ہے، یہ سیاہی پی لے تو پھر میں قلم سے کام کروں، چنانچہ اتنی دیر کے لیے تم نے اپنا قلم روک لیا اور اس وقت تک قلم سے کچھ نہیں لکھا ،جب تک وہ مکھی اس قلم پر بیٹھ کر سیاہی چوستی رہی، یہ عمل تم نے خالص میری رضامندی کی خاطر کیا، اس لیے اس عمل کی بدولت ہم نے تمہاری مغفرت فرمادی، اور جنت الفردوس عطا کردی۔
دیکھئے! ہم تو یہ سوچ کے بیٹھے ہیں کہ وعظ کرنا، فتویٰ دینا، تہجد پڑھنا، تصنیف کرنا وغیرہ یہ بڑے بڑے اعمال ہیں، لیکن وہاں ایک پیاسی مکھی کو سیاہی پلانے کا عمل قبول کیا جارہا ہے، اور دوسرے بڑے اعمال کا کوئی تذکرہ نہیں ۔
حالانکہ اگر غور کیا جائے تو جتنی دیر قلم روک کر رکھا، اگر اس وقت قلم نہ روکتے تو حدیث شریف ہی کا کوئی لفظ لکھتے، لیکن اللہ کی مخلوق پر شفقت کی بدولت اللہ نے مغفرت فرمادی، اگر وہ اس عمل کو معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتے تو یہ فضیلت حاصل نہ ہوتی۔
لہٰذا کچھ پتا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کون سا عمل مقبول ہوجائے، وہاں قیمت عمل کے حجم، سائز اور گنتی کی نہیں ہے، بلکہ وہاں عمل کے وزن کی قیمت ہے، اور یہ وزن اخلاص سے پیدا ہوتا ہے، اگر آپ نے بہت سے اعمال کیے، لیکن ان میں اخلاص نہیں تھا تو گنتی کے اعتبار سے تو وہ اعمال زیادہ تھے، لیکن فائدہ کچھ نہیں، دوسری طرف اگر عمل چھوٹا سا ہو، لیکن اس میں اخلاص ہو تو وہ عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑا بن جاتا ہے، لہٰذا جس وقت دل میں کسی نیکی کا ارادہ پیدا ہورہا ہے تو اس وقت دل میں اخلاص بھی موجود ہے، اگر اس وقت وہ عمل کرلو گے تو اُمید ہے کہ وہ ان شاء اللہ مقبول ہوجائے گا۔‘‘(اصلاحی خطبات،ج:۶،ص: ۲۱۴-۲۱۵)
احادیث میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک تاجر اللہ کے دربار میں حاضر ہوگا، اس کے اعمال نامے میں نیکیاں بالکل نہیں ہوں گی، مگر اس کے پاس ایک خاص عمل ہوگا کہ وہ کاروبار میں دوسروں کے لیے آسانیاں فراہم کرتا رہا، دوسروں کو قرض دیتا رہا، پھر تنگ دستوں کا قرض معاف کرتا رہا اور خوش حال لوگوں کے لیے بھی نرمی کا معاملہ کرتا رہا، جب اللہ کے سامنے اس کے اس عمل کا ذکر ہوگا تو اللہ کی رحمت جوش میں آئے گی اور اللہ اس کی مغفرت فرمادے گا۔ (بخاری، الاستقراض، حسن التقاضی:۲۳۹۱)(جاری)۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔