الحاق مشروط ، مہاراجہ کے سر پر تلوار تھی ،مجبور کیا گیا، ہے حق ہمارا اٹانومی

مینڈھر//نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاکہ ہم ہندوستان کا حصہ ہیں لیکن ہمارا چھیناہواحق واپس دیاجائے ۔انہوںنے آصفہ قتل کیس میں کرائم برانچ سے تحقیقات کے حکومتی فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے جموں و کشمیر پولیس سب سے بہتر ہے اور اگر تحقیقات کسی اور سے کروانی ہے توپھر پولیس کس لئے ہے ۔اپنے دورہ ٔ پونچھ کے دوران منکوٹ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہاکہ افسوس ناک بات ہے کہ برصغیر  نے تقسیم کے بعد سے اب تک 70سال میں امن و چین نہیں دیکھا ۔ان کاکہناتھا’’آج 70 سال بعد بھی ہم ہندوستان کا حصہ ہیں، ہم نے کبھی نہیں کہا کہ ہم پاکستان کا حصہ ہیں‘‘۔ڈاکٹر فاروق نے نئی دہلی سے مخاطب ہو کر کہا’’،  ہمارا آئینی حق ہمیں واپس کیا جائے جو حق تم نے ہم سے چھینا ہے ،آپ نے ہماری اندرونی خود مختاری کو کھوکھلا بنادیا ‘‘۔این سی صدرکاکہناتھاکہ ریاست کا مرکز کے ساتھ الحاق شیر کشمیر نے نہیں بلکہ مہاراجہ نے کیا، اس وقت مہاراجہ نے کہا تھا کہ انہیں وقت دو تاکہ وہ سوچیں کہ پاکستان کے ساتھ رہنا ہے یا ہندوستان کے ساتھ یا کشمیر آزاد ہوناچاہئے ۔ڈاکٹر فاروق نے کہاکہ مہاراجہ ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے تھے اور نہ پاکستان کے ساتھ بلکہ وہ ایک الگ ریاست بنانا چاہتے تھے ۔ا ن کاکہناتھاکہ اس وقت کہا گیا کہ جب تک مہاراجہ کشمیر الحاق نہیں کریں گے ،فوج نہیں بھیج سکتے لیکن تلوار مہاراجہ کے سر پر تھی اورہماری مجبوری تھی کہ ہمیں الحاق کرنا پڑا لیکن اس کے بعد دفعہ 370 آیا جو شیر کشمیر کی دین ہے۔ڈاکٹر فاروق نے کہاکہ اس دفعہ میں یہ شامل ہوا کہ ہم اندورنی معاملات میںآزاد ہیں مگر اس کے بعد جو حکومتیں آئی انہوں نے ہمارے ہی وزیروں کو خریدا اور کرسی کی لالچ میں370کو کھوکھلا بنادیا گیااور آج کشمیر کی یہ حالت ہے کہ 16 اور 17سال کے بچے بھی گولی سے نہیں ڈرتے اوراپنے بزرگ والدین کو کہتے ہیں کہ جو وہ نہیں کرسکے وہ ہم کریںگے ۔انہوںنے کہاکہ اگر دہلی نے انصاف کیاہوتا تو آج جموں و کشمیر کا یہ حال نہیںہوتا، جب تک دہلی یہاں کے انسان کی عزت کو بحال نہیں کرے گی یہاں امن بحال نہیں ہو گا ۔ان کاکہناتھا’’کب تک لوگوں کو مروائو گے ،کیاآپکے دلوں میں انصاف نہیں ‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس دن کا انتظار کررہے ہیں کہ کب گاڑیاں لیکر اُس پار جائیںگے ۔جموں کے ساتھ امتیاز کے الزامات اور آصفہ قتل کیس کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کرنے کے مطالبات پر احتجاج کے رد عمل میں ڈاکٹر فاروق نے کہاکہ افسوس کی بات ہے کہ جموں میں وکلاء ہندوستان کا جھنڈا لے کرنعرے مار رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ جموں کو الگ کیا جائے جبکہ کٹھوعہ میں ایک آٹھ سالہ معصوم بچی کو مندر میں ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیاگیا،کی انکوائری بھی سی بی آئی سے کروانے کی مانگ کررہے ہیں ۔ڈاکٹر فاروق کاکہناتھاکہ ہماری پولیس بہتر ہے ،یہ ہندو مسلمان کا سوال نہیں ہے ،یہ میری بیٹی کا سوال ہے اور آپُ کی بیٹی کا بھی،جموں کشمیر کی پولیس کس لئے ہے ،آپ کورٹ میں کیس لڑو کیونکہ پولیس نے چالان پیش کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں کبھی الگ نہیں ہو سکتا اور جموں کشمیر اور لداخ ہمیشہ ایک رہیں گے۔این سی رہنما کاکہناتھا’’جموں کو آپ کے باپ کا باپ بھی الگ نہیں کر سکتا‘‘۔قبل ازیں انہوںنے اچھاد علاقہ میں ایک دفتر کا افتتاح کیا اور مقامی لوگوںسے خطاب بھی کیا ۔اس کے بعد وہ سابق ایم ایل سی چوہدری رحیم داد کے گھر پہنچے اور ان کے بیٹے کی شادی میں شرکت کی۔موصوف نے بعد میں نیشنل کانفرنس دفتر مینڈھر کا دورہ کیا اور پھر وہاںسے بالاکوٹ کے علاقہ دھارگلون دیوتا گائوں پہنچے جہاں حال ہی میں گولہ باری سے ایک ہی کنبہ کے پانچ لوگ مارے گئے جبکہ دو بچیاں شدید زخمی ہوئیں ۔اس موقعہ پر ڈاکٹر فاروق نے غمزدہ کنبے کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے دعائے مغفرت کی۔دریں اثناء ڈاکٹر فاروق نے منکوٹ میں پارٹی کے سابق بلاک صدر خادم چوہدری کے اہل خانہ کے گھر پہنچ کر مرحوم کی وفات پر تعزیت پیش کی ۔ان کے ہمراہ این سی جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، صوبائی صدر دویندر سنگھ رانا،سابق ایم ایل اے اعجاز جان اور سابق ایم ایل اے بملالتھرا،رحیم داد،چوہدری ولی داد بھی تھے ۔