طارق شبنم
شا طِر
رات گئے قادر زمیندار نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ کھاد کی بوریاں لے کر میوہ باغ میں راتوںرات کھاد ڈال کر آئو ۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے درجن بھر نوکروں نے اند ھیرے میں گودام سے کھاد کی بوریاں اٹھا کر باغ میں ڈال دیں اور واپس آگئے۔
انسان دوستی کی شبنم سے عاری شاطر دماغ قادر زیادہ سے زیادہ پیدوار حاصل کرنے کے لئے نہایت ہی رازداری سے اپنے کھیتوں اور باغوں میں کھادوں اور ادویات کے ساتھ ساتھ نئے نئے تجربات کرتا تھا اور ہر گز نہیں چاہتا تھا کہ گائوں کے دوسرے زمینداروں کی پیداوار میںاضافہ ہو جائے۔
صبح جب قادر دل و دماغ پر تکبر و غرور کے بلند و بالا پہاڑ لے کر میوہ باغ کی طرف گیا تو گائوںکے زمیندار مذاق ہی مذاق میں اس کی پھبتیاں اُ ڑانے لگے۔اپنے باغ میں قدم رکھتے ہی ہر طرف چاولوں کی پرت بچھی ہوئی دیکھ کر وہ ششدر ہو کر رہ گیا ، اس کی آنکھوں میں جیسے کوئی دیا سلائیاں رگڑ رگڑ کر جلا رہا ہو ۔
بدلتے اِرادے
دونوں دوست الگ الگ حیثیت کے مالک تھے۔شہزاد ایک سر مایہ دار تھا جب کہ دلشاد مالی طور پس ماندہ تھا۔دوستی کی لاج رکھتے ہوئے ایک دن شہزاد نے دلشاد کو ایک لاکھ روپے دیتے ہوئے کوئی تجارت کرنے کا مشورہ دیا۔لیکن دلشاد نے اس پیش کش کو ٹھکرادیا اور وہاں سے چل دیا ۔چند قدم چل کردفعتاًاس کے دل میں کچھ خیال آیا اور اس کے قدم خودبخود ُرک گئے۔ وہ الٹے پائوں لوٹ کر شہزاد کے پاس پہنچ گیا۔اس کے چہرے پر پُر اسرار لکیریں اُبھر اُبھر کر ڈوبی جارہی تھی۔
’’ شہزاد۔۔۔۔۔۔ تمہارا مشورہ صحیح ہے ۔۔۔۔۔۔یہ رقم مجھے دے دوتاکہ میں کوئی تجارت شروع کرلوں۔‘‘
شہزاد نے اپنے دوست کے چہرے کی لکیروں کا جائیزہ لینے کے بعد روکھے سے لہجے میں کہا۔
’’نہیں دلشاد ۔۔۔۔۔۔ اب میں تمہیں کوئی رقم نہیں دونگا‘‘۔
’’کیوں۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’کیوں کہ جس نے تمہیں رقم لینے پر آمادہ کرلیا وہی مجھے رقم دینے سے روک رہا ہے۔‘‘
آواگون
ساری رات کھلی آنکھوں اضطراب و پریشانی میں گزار کر پو پھٹے ہی وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں نکلا تو گھر سے باہر قدم رکھتے ہی اس کی نظر اپنے لاڈلے پر پڑی جو اپنے دوستوں کے ساتھ گھر کی طرف آرہا تھا۔اس کی جان میں جان آگئی ،وہ اُلٹے پائوں واپس گھر میں داخل ہو ا اوریہ خوش خبری اپنی بیوی کو سنائی جو بیٹے کے غم میں نڈھال ہو چکی تھی ۔اس کے دوست جب چائے وغیرہ نوش کرکے واپس چلے گئے تو اس نے بیٹے سے قدرے سخت لہجے میں پوچھا۔
’’کہاں تھا تو رات بھر؟۔۔۔۔۔۔ہماری نیند حرام کردی‘‘۔
باپ کی بات کا اس پر کچھ اثر نہ ہوا اور نہ ہی اس نے اس کی بات کا کوئی جواب دیا۔
’’ میں کہتا ہوں اپنی آوارہ حرکتوں سے باز آجا ورنہ ۔۔۔۔۔۔‘‘ َ
’’ورنہ کیا کرلے گا ۔۔۔۔۔۔‘‘
اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی بیٹا گرجااور غصے سے لال ہو کر اپنی مٹھیاں بھینپتے ہوئے دروازے پر زور دار گھونسہ رسید کرتے ہوئے باہر چلا گیا۔ وہ اور اس کی بیوی بے بسی سے ایک دوسرے کا منُہ تکتے رہے۔۔۔۔۔۔شام کو دونوں اپنی نا فرمان اولاد کی شکایت لے کرمحلے کے بزرگ پیر صاحب کے پاس پہنچ گئے اور رو رو کر اسے اپنا دکھڑا سناکر دعا تعویز کی استدعا کی۔
پیر صاحب نے ایک سرد آہ بھری اورقلم دان سے قلم نکال کر لکیریںمارتے ہوئے گویا ہوا ۔
’’ تیری جوانی میں تیرے والدین بھی ایسی ہی شکایتیں لے کر میرے پاس آتے تھے۔۔۔۔۔۔‘‘۔
رابطہ: اجس بانڈی پورہ
فون نمبر9906526432