افسانچے

امانت 
شدت کی گرمی تھی ۔ مخمور مہدی کی ذاتی لائبریری میں اُس کی پڑھنے لکھنے کی میز کے ٹھیک اوپر انگریزوں زمانے کا ایک شکست ریخت پنکھا گوں گوں کی آواز کے ساتھ محوِ پرواز تھا ۔ مہدی بڑے انہماک سے اپنی تازہ تصنیف " اپنے پرائے " کے مسودے کی ورق گردانی میں مصروف تھا کہ " اسلام وعلیکم " کی ایک جانی پہچانی آواز نے اسے چونکا دیا ۔اُس نے سر اُٹھا کر دیکھا ۔
" اووو ۔۔۔۔۔۔ واجد وجدانی صاحب ۔ وعلیکم السلام ۔" وہ نو وارِد واجد وجدانی کو فورا" پہچان گئے۔ 
" آیئے ۔۔۔ آیئے ۔۔۔۔۔ مہر و محراب ۔۔۔۔ تشریف رکھئے ۔" مخمور مہدی بڑی گرم جوشی دکھانے لگے ۔
" نہیں نہیں،  مہدی صاحب ۔ زرا  جلدی میں ہوں ۔ بس ایک کام سے آیا ہوں۔" وجدانی عجز و انکساری سے گویا ہوا ۔
" ہاں ہاں ، بتائیے ۔۔۔۔  میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں ؟" مخمور اُن کا ہی انداز اپناتے ہوئے جوابی ہوا ۔
 اب کیا کہوں ۔ دراصل بہت شرمندہ ہوں ۔ آپ کی یہ امانت لوٹانے آیا ہوں ۔" وہ ایک کتاب مخمور مہدی کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے ۔ وہ واقعی شرمندہ نظر آرہے تھے ۔
" اووو ۔۔۔۔ " گنگھور گھٹائیں" ۔" مہدی ایک لمبی سانس لیتے ہوئے بولے اور وجدانی کی طرف دیکھنے لگے۔ " ہوووں ۔۔۔"
" جی یہیں سے لے کر گیا تھا ۔ سوچا تھا ، اپنے ہی پاس رکھوں ۔ آپ بھول بھی گئے ہوں گے ۔ پھر سوچا امانت میں خیانت۔ لاحول ولا قوۃ ۔۔۔۔ ۔" وجدانی کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا ۔
" بھئی وجدانی صاحب ۔ میری یادداشت کمزور نہیں ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ کتاب آپ کے پاس ہے اور یہ میں بھول بھی گیا تھا مگر عرصہ قبل یہ کتاب میں نے " سرسید لائبریری " سے اُڑائی تھی ، وہ اچھی طرح سے یاد ہے ۔ میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں ۔ "
" مطلب ۔۔۔۔۔ " وجدانی بدقت اتنا ہی کہہ سکا ۔
" جی ۔۔۔۔۔ چلئے ۔۔۔۔۔ میں بھی یہ امانت لوٹانے سرسید لائبریری جا رہا ہوں ۔ "
دونوں ہنستے ہوئے لائبریری سے باہر آئے اور سرسید لائبریری کی طرف روانہ ہوئے ۔
 
 
 

تکبیر پڑھئے

چار روز کی بھوکی لکشمی کے کرونا ٹیسٹ کا نتیجہ جب مثبت آیا تو تھرتھر کانپنے لگی، گویا یم دوت نے خود آکر وقت آخری بتادیا ہو۔ لیکن اس سے بڑھ کر دہشت زدگی کی کیفیت نربھاگی پر اس وقت طاری ہوئی جب تینوں بچوں سمیت ہسپتال منتقل کی گئی۔ مارے خفقان کے سرد پسینے چھوٹنے لگے۔ وہ اس لیے کہ اس طرح  گھر سے دور پہلے کبھی نہ رہی تھی۔ بھگوان کے بھروسے کوئی گھر چھوڑتا ہو تو ہو لیکن لکشمی نے کبھی گاؤں کی اگلی گلی نہ دیکھی تھی۔ گاؤں والوں سے سنتے ہیں کہ بھرتار دھندے والا آدمی تھا اور لکشمی سے اس قدر پریم تھا کہ کبھی میکے کا در دوبارہ نہ دکھایا۔ مگر اب لکشمی لُٹ چکی ہے۔ اسکے پاس سوائے بھرتار کی اولاد کے ہر چیز کی بولی لگ چکی ہے۔ نربھاگی ایک ٹوٹی چھت کے نیچے انتظار میں رہتی ہے کہ کب کوئی بھلا مانس نڈھال بچوں پر ترس کھائے تو ماں کے بھی پیٹ میں دانہ جا پہنچے۔ لیکن ہسپتال پہنچتے ہی لکشمی پر قدرت مہربان ہوگئ۔ دن میں تین مرتبہ پیٹ بھر کھانا ملتے ہی وہ لاچارگی کے سارے احساسات یکسر بھول گئی۔آخر غریب کی ضروریات ہی کیا ہوتی ہیں۔ دو وقت کا کھانا اور سر چھپانے کا آسرا اور وہ دونوں اُسے میسر تھیں آئے۔ دوسری طرف اسکا اپنا گھر تھا، فقط نام کا، جہاں آشفتہ حالی اور بھوک کے سوا اور تھا ہی کیا؟ ترپال کی چھت جو برسات میں ٹپکتی تھی۔ پھر ہسپتال میں تو اسے ساری سہولیات میسر تھیں۔ جنہیں بہم پہنچانے والے کے ماتھے پہ نہ جاہ و حشمت کا غرہ تھا نہ دعائوں کے وہ التجائی آثار جو ہر دینے والے میں یکساں پاتی تھی۔ مگر یہ وقت بھی اس پر زیادہ دیر مہرباں نہ رہا۔ چونکہ اب اسکی صحت میں کافی حد تک بہتری آئی تھی لہٰذا اسکی چھٹی کی تاریخ میں محض ایک ہفتہ کی دوری طے پائی ۔ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اسکی فکرمندی بڑھتی گئی۔ جونہی ڈاکٹر جانچ کیلئے آتے تو نیم مردہ پڑی رہتی تاکہ چند دن اور مہلت کے مل سکیں۔ ایک بار تو حد کردی، فکرمندی میں جب کچھ نہ سوجھا تو سر ہی دیوار کے ساتھ دے مارا۔ خون بہتا ہوا اسکے دامن کو داغ دار کر گیا مگر اسکی وہ ہر کوشش لاحاصل ثابت ہوئی جس میں جینے کی کوئی تمنا تھی۔ صحت میں بہتری کے بعد اسے ہسپتال سے رخصتی مل گئی مگر جب وہ جانا نہیں چاہتی تھی تو اسے زبردستی ہسپتال سے نکال دیا گیا۔  ہسپتال سے نکلنے کے فوراً بعد ہی وہ مثبت مریضوں کی تلاش میں نکل پڑی۔
���
ہندوارہ،موبائل نمبر؛7780912382
 
 
 
 
 سرینگر کشمیر ،موبائل نمبر؛9622900678