اعلیٰ تعلیمی شعبہ اصلاحات کا محتاج

  یہ اب ہمارے دور کی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہم ایک ایسے دور کی طرف جا رہے ہیں جس پر علمی معیشت کا غلبہ ہو گا اور یہ کہ ہمارا سب سے بڑا اثاثہ انسانی سرمایہ ہوگا ، جو ہنر ، مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کا مجموعہ ہوگا۔ موجودہ دور میں دنیا بھر کی تعلیمی قیادت نے بار باراس طرح کے نظریہ پر زور دیا ہے اور پوری دنیا میں اس وقت تعلیم دان اس بات پر متفق ہے کہ اگر انسانی سرمایہ کو ہمیں صحیح سمت میں بروئے کار لانا ہے جو اُن کی صلاحیت سازی ،ہنر مندی اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہوگا کیونکہ موجودہ دور اور آنے والے وقت میں پوری دنیا میں صرف اُنہی معیشتوں کا دبدبہ ہوگا جو تعلیمی اعتبار سے کامل ہوں اور جہاں ہر فرد معاشرے کا کارآمد انسان ہو جس کا تصور حقیقی تعلیم کے بغیر ناممکن ہے۔
 اسی پس منظر میں ہم عا لم گیر سطح پر تعلیم کی فراہمی کے طریقہ کار میں انقلابی تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں۔ نصابی مواد سے لے کر کیمپس کو انڈسٹری سے جوڑنے تک تبدیلیوں کا ایک ایسا سیلاب رواں ہے جس کو ہم قطعی نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس سے اپنے آپ کو لاتعلق رکھ سکتے ہیں۔
 جس طرح سے نئے کورسز متعارف کروائے گئے ہیں اور مارکیٹ سے باقاعدہ تجاویز لیکر ان کورسز کو مسلسل اپ گریڈ کیاجارہا ہے ،اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ ہم تعلیم کی ایک نئی دنیا میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ تبدیلی صرف ٹیکنالوجی کی طرف سے دی گئی رفتار اور رسائی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ تعلیم کے بارے میں رویے میں بھی ہے۔اب ہمیں بیک وقت دو محاذوں پر کام کرنا پڑ رہا ہے ۔ایک تو سریع الرفتاری سے وقوع پذیر ہورہی تبدیلیوں سے اپنے آپ کو مسلسل ہم آہنگ کرتے رہنا ہے ،دوم تعلیم کے معیار کو بھی مسلسل بہتر بنانے میں بھی کوئی سمجھوتہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
 اب تعلیم کمرہ جماعت میں نظریاتی اور فلسفیانہ مواد کے تبادلے تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں علم کے عملی اور نتیجہ خیز استعمال میں منتقل ہو گئی ہے۔ آج کی معیشت اور آج کی یونیورسٹیاں ایک دوسرے سے مربوط ہوچکی ہیں اور دونوں کا علیحدہ طور تصور کرنا محال بن چکا ہے کیونکہ معیشت اعلیٰ تعلیمی اداروں کو چلاتی ہے اور اعلیٰ تعلیمی ادارے معیشت کو چلانے کیلئے اعلیٰ معیار کا انسانی سرمایہ فراہم کرنے کے مکلف بن چکے ہیں۔
اب ان دونوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ علیحدگی کی تو دور کی بات ہے ،ہم ایک کے بغیر دوسرے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ اب ہمیں ہر طالب علم کو تکنیکی اور سماجی مہارتوں کے ساتھ کاروباری سوچ کی ترقی کیلئے قابل بنانا ہے۔یہ وقت کی ضرورت ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں کے سربراہان کو اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو مارکیٹ ، صنعت اور ٹیکنالوجی کے عالمی حقائق کے مطابق رکھنا چاہئے تاکہ وہ محض ڈگری ہولڈروں کی ہی ایک فوج تیار نہ کریں جس کے نتیجہ میں پھر بیروزگاروں کی ایک فوج تیار ہوجاتی ہے بلکہ وہ معاشرے کو ایسا انسانی سرمایہ فراہم کریں جو کسی بھی بے کار نہ ہوں اور جو اپنی تعلیمی صلاحیتوں سے نہ صرف اپنا مستقبل روشن بنائیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کی بہتر ی اور ترقی و خوشحالی کیلئے بھی بروئے کار لائیں۔
اگر اس طرح کا تعلیمی نظام وجود میں آتا ہے تو کسی بھی معاشرے کو ترقی سے کوئی روک نہیں سکتا ہے لیکن اگر وہی فرسودہ نظام تعلیم ہی رائج رہا تو ایسی صورت میں منزل تباہی کے کچھ نہیں ہوسکتی ہے تاہم امید کی جانی چاہئے کہ ہمارے دانش گاہوں کے سربراہان بدلتے وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دانش کدوں کو بھی ان تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے رہیں گے جس کے نتیجہ میں یقینی طور پر ایک اعلیٰ معیاری انسانی سرمایہ میسر رہے گا اور یہی سرمایہ پھر ہماری معیشت کا پہیہ چلانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔