اعجاز اسدؔ۔ دورِ جدید کاپُرجوش شاعر میری بات

بشیر اطہر

دنیا میں کسے آگ لگانی نہیں آتی
افسوس مگر سب کو بجھانی نہیں آتی
تا حد نظر دشت ہے کیوں بیٹھے ہوئے ہو
لگتا ہے تمہیں خاک اُڑانی نہیں آتی
اوپر کے یہ شعر وادی کے معروف نوجوان شاعر اعجاز اسد کے ہیں۔اعجاز اسد ارشعر وشاعری کے افق پر چمکنے اور دمکنے والے ستارہ ہیں۔ آپ کا کلام انسان کے دل میں جگہ بنا لیتا ہے ۔اعجاز اسد اردو زبان کے جدید ،پُرجوش،معتبر ،پُر اعتماد اور ذہین شاعرہیں ،جنہوںنے اپنی شاعری میں جدیدتخیلات کو سجا کر ایسے سجایا ہے جیسے رنگین نگینوں سے انگوٹھی سجتی ہے ،یعنی آپ کی شاعری میں جدت،اعلیٰ تخیُّل اور ایک خاص لب ولہجہ پایا جاتا ہے۔ کلام میں شیریں بیانی اور ندرت کے باوصف آپ کے اشعار دل کو چھو لیتے ہیں۔ آپ انسان کی لالچ دیکھ کر ان سے اسی طرح مخاطب ہورہے ہیں جس طرح برصغیر ہند وپاک کے فلسفی شاعر علامہ اقبالؒ مخاطب ہورہے تھے آپ فرماتے ہیں کہ
تاحد دشت ہے کیوں بیٹھے ہوئے ہو
لگتا ہے تمہیں خاک اُڑانی نہیں آتی ہے
اعجاز اسد کا شعری مجموعہ ’’برف زار‘‘ ان کی تخلیقی صلاحیت کے بارے میں جانکاری فراہم کرتا ہے، آپ کا یہ شعری مجموعہ 2018میں منظر عام پر آیا ہے،جس کی اردو ادب کے شیدائیوں نے کافی سراہنا کی ہے۔ اعجاز اسد کافی مصروفیات میں رہنے کے باوجود بھی اردو زبان وادب کی آبیاری کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھتے ہیں، آپ کی شاعری میں ایسادرد ہے جس سے انسان کا دل چھلنی ہوجاتا ہے اور خون کے آنسو روتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ
غریبی ہاتھ پر رکھتی ہے کھانے کو
امیروں کا ہی دسترخوان ہوتا ہے
پتے کی بات کہہ سکتا ہے وہ پاگل
کوئی ہشیار بھی انجان ہوتا ہے
اعجاز اسد ایک حساس،سنجیدہ شاعر ہیں ان کی حساسیت اور سنجیدگی ان کے شعروں میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ حق بات یہ ہے کہ ایک حساس انسان ہی اپنے قلم کو جُنِبش دیکر ادب میں رنگ برنگے گُل کھلا رہا ہے، اعجاز اسد اسی راستے کو اپنا کر اور اُسی روش پر چل کر اردو زبان وادب کی آبیاری کررہے ہیں اور آئندہ نسلوں کےلئے ایک ایسا بیش بہا سرمایہ چھوڑ رہے ہیں جو ہمیشہ صدا بہار رہے گا۔اعجاز اسد کی شاعری کا ایک الگ اسلوب اور فرہنگ ہے جس کی وجہ سے ان کی شاعری خوبصورت اور دلچسپ ہوتی ہے۔
میں اک مدت سے لاپتہ ہوں
مجھے خود اپنی ہی جستجو ہے
مرا نہیں ہے اسدؔ یہ چہرہ
تو کون شیشے میں روبرو ہے
اعجاز اسد کی شاعری کی خوبی یہ ہے کہ پڑھنے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہی ہے ۔ آپ نہ صرف ایک رنگارنگ تخلیقی ذہانتوں کے مالک ہیں بلکہ آپ خوبصورت اور خوب سیرت انسان بھی ہیں۔خوش خلقی،خوش طبعی اور خوش لحنی ان کی شخصیت کے اہم اوصاف ہیں۔ان کی شاعری میں گہراسماجی شعور ملتا ہے اور اسی گہرے ادراکی وشعوری بصیرت کو بروئے کار لاکر معانی کی نئی نئی جہتیں روشن کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں ،جس کی بنیاد پر انہیں معاصر اردو ادب کے باشعور شاعروں میں ایک الگ منصب ہے:
لازمی تو نہیں ولی ہو جائے
آدمی کاش آدمی ہو جائے
کیوں نہ بدنام عاشقی ہو جائے
جب لگی دل کی دل لگی ہو جائے
آپ نوجوانی کے عالم سے ہی شاعری کے پُر فضا اُفق پر چھائے ہوئے ہیں اور اپنی شاعری کو اپنا وسیلۂ اظہار بنایا ہے۔آپ نے شاعری میں سیدھی سادی زبان کواستعمال میں لاکر خلوص اور جذبات کا اظہار کیا ہے اگرچہ ان کی شاعری میں استعارات وتشبیہات کا استعمال بھی کیا گیا ہے مگر پھر بھی ان کی شاعری سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی ہےآپ کا فلسفیانہ نظریہ ان کی شاعری کو منفرد بنانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ آپ بحیثیت ڈپٹی کمشنر سرینگر اپنے فرائض منصبی انجام دینے کے ساتھ ساتھ ادب کا کام بھی احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں اور ادبی ایوانوں میں اپنا نام کمایا ہے۔ آپ کی سدا بہار غزلیں مردہ ذہنوں کو حیات بخشنے میں آبِ حیات کا کام دیتی ہیں۔
تجھ پہ گزری ہے کیا خبر ہے مجھے
تیرے جیسا ہی میرا حال تو ہے
میرا حامی جہاں نہیں تو کیا
شکر ہے رب ذو الجلال تو ہے
اعجاز اسد کی شاعری اور ادبی زندگی کو سمجھنے اور اس پر تنقید کرنے کےلئے ایک ادیب کو ان کے پورے کلام کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔اس لئے ان کے کلام ’’برف زار ‘‘کا مطالعہ کریں اور آپ کے انسانیت دوستی سے بھی بہرہ مند ہوجائیں۔
(رابطہ۔7006259067)
[email protected]