مولانا نعمان نعیم
الحمد للہ،اب ہم ماہ ِرمضان کے آخری عشرے میں داخل ہورہے ہیں۔یہ وہ عشرہ ہے جس کی طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش کا حکم ہے۔یوں تو پورا رمضان ہی عبادت، ذکرو اذکار، تلاوت قرآن، فرائض و نوافل کی پابندی، صدقہ و خیرات اور نیکی و احسان کا مہینہ ہے۔ مگر اس کے آخری عشرے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، کیوںکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری عشرے میں باقی ایام کی نسبت عبادت کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔خود بھی جاگتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے،جس سال نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحلت فرمائی، اُس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان میں بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے عوض شوال کے مہینے میں اعتکاف فرمایا۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس قدر محبوب تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ایک دن کااعتکاف کرے گا،اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کوآڑ بنادے گا۔جن کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہوگی۔ ‘‘اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص رمضان میں دس روز کا اعتکاف کرے تو اس کا یہ عمل دو حج اور دو عمروں جیسا ہوگا۔ ‘‘
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف (اعتکاف کرنے والے) کے بارے میں فرمایا کہ اعتکاف کرنے والا چونکہ (اعتکاف کے زمانے میں) گناہوں سے رُکا رہتا ہے، اس لیے اس کے حق میں تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔‘‘یعنی اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی وجہ سے رُکا ہوا تو گناہوں سے ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان کا معاملہ اس کے ساتھ یہ ہے کہ اس کے حق میں وہ تمام نیکیاں بھی لکھ دی جاتی ہیں جو اس دوران وہ مسجد سے باہر ہونے کی صورت میں کرتا، یعنی یہ بات تو نہیں لکھی جاتی کہ وہ مسجد سے باہر ہوتا تو یہ بدی یا برائی کرتا، لیکن یہ لکھا جاتا ہے کہ وہ مسجد سے باہر ہوتا تو یہ نیکی کرتا۔
مثال کے طور پر نماز جنازہ کی ادائیگی، بیمار پرسی، اسلام کی تعلیم اور دین کی اشاعت وغیرہ۔ایک اور مقام پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص رمضان میں دس روز کا اعتکاف کرتا ہے تو اسے دو مقبول حج اور عمرے کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔‘‘رمضان کے آخری عشرے میں جو اعتکاف کیا جاتا ہے، وہ سنتِ مؤکدہ کفایہ ہے، یعنی مسلمانوں کو بحیثیت اجتماعی اس سنت کا اہتمام کرنا چاہیے، کیوںکہ احادیث میں اس کی انتہائی تاکید کی گئی ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصال تک اس پر مداومت رہی، اس لیے اگر مسلمان اس سنت کو اجتماعی طور پر چھوڑ دیں گے، تو سب گناہ گار ہوں گے اور اگر بستی کے کچھ افراد بھی اس سنت کا اہتمام کر لیں تو چوںکہ یہ سنت کفایہ ہے، اس لیے چند افراد کا اعتکاف سب کی طرف سے کافی ہے۔ یہ عمل انتہائی خرابی کا باعث ہو گا کہ مسلمان بحیثیت مجموعی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پسندیدہ عمل سے بے اعتنائی برتیں۔
رمضان المبارک کے اخیر عشرے کا یہ اعتکاف سنت مؤکدہ علیٰ الکفایہ ہے یعنی ایک بستی یا محلے میں کوئی ایک شخص بھی اعتکاف کرے تو تمام اہلِ محلہ کی طرف سے سنت ادا ہوجائے گی، لیکن اگر سارے محلے میں سے کسی ایک نے بھی اعتکاف نہ کیا تو سارےمحلے والوں پر ترک سنت کا گناہ ہوگا ۔
اعتکاف کا لغوی معنی ہے ٹھہرنا اور رُکنا۔اصطلاح شریعت میں کوئی شخص اللہ کا قرب حاصل کرنے،اس کی عبادت، ذکر و اذکار کرنے کی نیت سے مسجد میں ایک خاص مدت کے لیے قیام کرے تو اسے اعتکاف کہتے ہیں۔
اعتکاف کی قسمیں:اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔1۔ اعتکاف واجب۔ 2۔ اعتکاف سنت۔3 ۔ اعتکاف مستحب۔
اعتکاف واجب :اگر کسی شخص نے یہ منت مانی کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو میں ایک دن یا دو دن کا اعتکاف کروں گا اور پھر وہ کام ہوگیا تو اس شخص پر واجب ہے کہ وہ اعتکاف کرے، یا د رہے کہ اعتکاف واجب کے لیے روزہ شرط ہے، بغیر روزہ کے اعتکاف واجب صحیح نہیں ہے۔ (درمختار)
اعتکاف سنت مؤکدہ :۔یہ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں کیا جاتا ہے یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبنے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہوجائے اور تیسویں رمضان کو سورج ڈوبنے کے بعد یا انتیسویں رمضان کو چاند ظاہر ہونے کے بعد مسجد سے نکلے،یاد رہے کہ اعتکاف کی یہ قسم سنت مؤکدہ کفایہ ہے، یعنی اگر تمام اہل محلہ اسے چھوڑدیں گے تو سب آخرت میں مؤاخذہ میں گرفتارہوں گے اور اگر ایک آدمی نے بھی اعتکاف کرلیا تو سب آخرت کے مؤاخذے سے بری ہوجائیں گے۔ اس اعتکاف میں بھی روزہ شرط ہے، مگر وہی رمضان کے روزے کافی ہیں۔ (درمختار)
اعتکاف مستحب :اعتکاف مستحب یہ ہے کہ جب کبھی بھی دن یا رات میں مسجد کے اندر داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرے جتنی دیر مسجد میں رہے گا، اعتکاف کا ثواب پائے گا۔نیت کے لیے صرف دل میں اتنا خیال کرلینا اور منہ سے کہہ لینا کافی ہے کہ میں نے اللہ کے لیے اعتکافِ مسجد کی نیت کی۔ (فتاویٰ عالمگیری)
٭اعتکاف کرنے والوں کے لیے بلاعذر مسجدسے نکلنا منع ہے، اگر نکلے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا، چاہے قصداً نکلے یا بھول کر۔اس طرح عورت نے بھی جس گھر میں اعتکاف کیا ہے،اس کا بھی اس گھر سے نکلنا منع ہے۔ اگر عورت اس مکان سے باہر نکل گئی تو خواہ قصداً نکلی ہو یا بھول کر اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔(درمختار)
٭ مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف کرے اور عورت اپنے گھر میں اس جگہ اعتکاف کرے جو جگہ اس نے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کی ہو۔ (درمختار)
٭ اعتکاف کرنے والا دن رات مسجد میں ہی رہے گا، وہیں کھائے، پیئے، سوئے مگر احتیاط رکھے کہ کھانے پینے سے مسجد کا تقدس پامال نہ ہو۔ وہاں گندگی نہ پھیلائے۔ معتکف کے علاوہ کسی اور کے لیے مسجد میں کھانے،پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہے،اس لیے اگر کوئی شخص مسجد میں کھانا، پینا اور سونا چاہے تو اسے چاہیے کہ مستحب اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں داخل ہو، پھر اس کے لیے کھانے،پینے اور سونے کی اجازت ہے۔(درمختار)
اعتکاف کرنے والے کو چاہیے کہ اپنا زیادہ تروقت نفلی نمازوں،تلاوت قرآن مجید، علم دین کی تحصیل وغیرہ میں گزارے، دنیوی اور فضول باتوں سے احتراز کرے۔ باوضو ہونے کا ہتمام کرے اور بکثرت دورد شریف کا ورد کرے۔