کچھ شعرا ء ایسے ہوتے ہیں جو جلد اپنے تمام تر امکانات ظاہر کردیتے ہیں اور پھر حاموش ہوجاتے ہیں۔کچھ ایسے ہوتے ہیں جو عمر بھر ایک ہی رنگ میں شاعری کرتے رہتے ہیں۔ایسے چند شعرا ء ہی ہوتے ہیں جوآخر تک اپنی بازیا فت و بازدید میں سر گرداں رہتے ہیں۔اشرف عادلؔ بھی ریاست جموں و کشمیر کے شعراء کی اسی صف سے ہیں ،جن کا تخلیقی سفر اب بھی جاری رہا۔اپنے تہذیبی پس منظر کی وجہ سے بہت کم عمری میں ہی شعر کہنے لگے۔زبان وبیان پر ابتداء سے قدرت حاصل رہی ہے۔ان کے ہاں نرمی ،لطافت،خوش طبعی اور جمالیاتی احساس و افر ہے۔وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیںد ھیمے دھیمے لہجے میں انتہائی روانی اور سہولیت سے کہہ جاتے ہیں،اظہار پر پوری طرح قادر ہیں۔ ؎
خار بھی مشکل سے اگتے تھے جہاں
اب وہاں خوشبو بسائی جاتی ہے
جس میں عادلؔ سچ کی ہوں پر چھائیاں
ایسی تحریر یں جلائی جاتی ہیں
غرل میں طبع آزمائی بظاہر جس قدر آسان ہے،عمدہ اور پائندہ غزل کہنا اتنا ہی محال ہے۔یہی سبب ہے کہ ہر دور میں غزل گویوں کی وافر تعداد کے باوجود منفرد اور معتبر غزل گو کم کم ہی نظر آتے ہیں۔سامنے کے ردیفوں اور قافیوں میں تازہ کاری اور تاب لاکر فکر پاروں کی تخلیق جوہر آزماہی نہیں جان آزما بھی ہے،اشرف عادل کو اس حقیقت کا احساس ہے،چناچہ کہتے ہیں ؎
یاد تیری میرے فن کی آبرو
پھول ہو جیسے چمن کی آبرو
بے ہنر ہوں بات پھیلائی گئی
شعر میرا ہے سخن کی آبرو
اب متاعِ درد کو عادل سمیٹ
درد سے ہے فکر و فن کی آبرو
اشرف عادلؔ موضوعاتی سطح پر غزل کو ہمہ جہتی اور تنوع نگاری سے ہم کنار کرنے کے روادار ہیں۔انھوں نے اپنے اظہار ات میں کسی طرح کی پابندی عائد نہیں کی، غزلیہ مضامین ہوں یا اپنے ذاتی درد وغم کا ذکر ہویا پھر عصری آشوب واضطراب کا بیان ،عادلؔ نے ہمہ رنگ مضامین و موضوعات کو شعری تلا زمات کے ساتھ برتنے کی فن کارانہ کوشش انجام دی ہیں۔زندگی کے ہرشعبہ میں اغراض کی جس کش مکش نے ایک طبقہ کو ظالم دوسرے کو مظلوم‘ایک کو مختار دوسرے کو مجبور محض بنایا ہے ،اشرف عادلؔکے کلام میں اسی کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے اور یہ آواز اٹھاتے وقت انھوں نے کسی قسم کی رعایت برتنے کو اپنے فنی منصب کے خلاف جانا ہے ۔مظلوم اور ستم رسیدہ کی حما یت کے معاملہ میں وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔اس طرح عادلؔکی غزلیں مقصد کی بلندی کے اعتبار سے یقینا قابل قدر ہیں ۔ ؎
یوں خون سر عام بہا بھی نہیں سکتے
فرہاد ہیں اور تیشہ اٹھا بھی نہیں سکتے
خود دیکھ سکو، روزنِ زندان سے تو دیکھو
اس شہر کی روداد سنا بھی نہیں سکتے
غرضیکہ عادل ؔکی شاعری کے مطالعے کے دوران قاری کو فکر واحساسات کی ایک بو قلموں کائنات ملتی ہے۔انھوں نے اپنے اظہارات کے دوران جذباتیت اور بلند آہنگی کے بجائے خود کامی کے استعاراتی پیرایہ کو اپنانے کی سعی کی ہے۔چناچہ اپنے عصری و آفاقی مسائل و مظاہر کے اظہار کے دوران بھی عادلؔ ،شاعری کا ایک سنجیدہ اور پر کار اسلوب اپنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔یہاں کشمیر میں ۱۹۹۰کے بعد سیاسی وسماجی ماحول ومنظر کے احتسابی نقوش ابھارنے میں عادل ؔکو کس قدر فنی دسترس حاصل ہے۔اس کا اندازہ ان کے درج ذیل اشعار سے کیا جا سکتا ہے ؎
اب ہماری چشم پُر نم میں بصارت بھی نہیں
اور کسی دیوار پر کوئی عبارت بھی نہیں
اس نگر میں ہم سروں کی فصل کٹواتے رہے
جس نگر میں سر اٹھانے کی اجازت بھی نہیں
بقول ڈاکٹر الطاف انجم’’ اشرف عادل نے اپنے اچھوتے اور منفرد انداز میں داخلی کشاکش کو مؤثر پیرایۂ بیان عطا کیا ہے وہیں خارجی سطح پر کشت وخون کی گرم بازاری کے نوحہ کو بھی اپنی تخلیقی بھٹی میں تاپ کر کندن بنایا۔ان کے یہ اشعار دیر تک اور دور تک یاد رکھیں جائیں گے ‘‘۔(تحریر نو ۔۔اپریل ۔۔۲۱۰۷۔۔ص ۔۔۸)
اس طرح اپنے عصری و آفاقی مسائل اور مظاہر حیات کا بیان بھی عادل ؔنے داخلی اور انفرادی طریق کار کے ذریعے کیا ہے۔ ان کی وجودیت
آمیز انفرادیت میں اپنے زمانے کا اضطراب وانتشار بھی سمٹ آتا ہے۔نئے دور کے انسان کو آج جس طرح مشکلوں ،آزمائشوں اور وارداتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس سے اس کا وجود مجروح اور ملول ہو کر رہ گیا ہے۔ان کے یہاں اس پریشاں حال انسانی کردار کی نقش گری مختلف انداز سے کی گئی ہے۔نیز ان کی شاعری میں زندگی کے مصائب میں عزم وحوصلے کے ساتھ زندگی گزارنے کا مستقل میلان ہے
وہ ہجوم غم میں مسکرانے کی سکت رکھتے ہیں اور انسان کے سامنے زندگی گزارنے کا ایک انتہائی مثبت اور معتبر طریق کار پیش کرتے ہیں۔
دوستی یاری آشنائی سنبھال
اس خزینہ کی پائی پائی سنبھال
آپ سے اپنے روٹھ جانا کیا
ایک بندہ ہے تو خدائی سنبھال
اشرف عادلؔنے زندگی سے وابستہ مسائل کو اپنی شاعری میں سنورانے کی کوشش کی ہے۔اس کے لئے روٹی ہی کی جدوجہد سب کچھ نہیں ہے وہ اپنے عہدے کے انتشار اور ابتری کے اسباب پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ عصر حاضر کا آدمی انسانی ،سماجی اور صالحہ قدروں سے دور ہوتا جارہا ہے۔وہ ان اعلی قدروں کو کھوچکاہے، جن کے ساتھ اس نے صدیوں کا سفر طے کیا ہے ۔وہ ایک ایسے سماج میں سانس لے رہا ہے جہاں انسانی جذبوں کی کوئی قدر نہیں اور رشتوں کو نفع نقصان کی نظر سے دیکھتا ہے۔نئی نسل انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اسیر بھی ہے ۔اس کی نظر صرف خارجی مسائل پر ہی نہیں رہتی بلکہ باطنی دردو کرب کو بھی شدت سے محسوس کرتی ہے ۔ بقول اشرف عادلؔ ؎
یہ میرے جذبات کہتے ہیں کچھ
شہر کے حالات کہتے ہیں کچھ
کیسی فیاضی کہاں کی نیکیاں
یہ ترے اوقات کہتے ہیں کچھ
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اشرف عادلؔکی شاعری غور وفکر کا مطالبہ کرتی ہے. ان کی چھوٹی بحر کی غزلوں میں شدت احساس پوری طرح جلو گرہ ہے۔ اپنے موضوعات اور اسالیب کی رنگارنگی سے دبستان جموں و کشمیر میںعادل اشرفؔ اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔
رعناواری سری نگر،،ربطہ نمبر:9697330636
salimsuhail3@gmail