اشتہار سے اسٹیج تک مبالغہ ہی مبالغہ!

گستاخی معاف! ذاتی طور پرمجھے کسی سے کوئی اختلاف نہیں، کوئی دشمنی نہیں لیکن آج جس طرح سب کچھ ریڈی میڈ ہوتا جارہا ہے اور اصلی میں ڈالڈا کی ملاوٹ کرکے آسان طریقہ نکالا جارہا ہے۔ پرچار و پرسار کا جو انداز اختیار کیا جارہا ہے، اُس کا اثر رفتہ رفتہ مذہبی پیشواؤں میں بھی داخل ہورہا ہے۔ بعض علماء و خطباء اور مقررین بھی وہ راستہ اختیار کرنے لگے، مبالغہ آرائی کو پروان چڑھانے لگے ،جوشیلے اندازمیں اختلافات و روایات میں ڈوبنے لگے اور مبالغے کی بنیاد پر ایسی ایسی روایات پیش کرنے لگے کہ بس! تقریروں کو ایک فن تک محدود کر دیا ہے۔ بزرگان دین سے منسوب کرکے اس انداز سے واقعات اور مثالیں پیش کی جانے لگیں کہ عوام یہ سمجھتی ہے کہ فلاں بزرگ اتنے پہنچے ہوئے ہیں ،ان کا مقام ومرتبہ اتنا بلند ہے۔ حالانکہ سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچو تو دل و دماغ یہ کہتاہے کہ کوئی بزرگ اللہ کا ولی، کوئی بھی ایسا کام کرہی نہیں سکتا جو شریعت کے خلاف ہو کیونکہ شریعت کے خلاف کام کرنے والا اللہ کا ولی ہو ہی نہیں سکتا۔ دھڑلے سے بیان کردیا جاتا ہے کہ حضرت صابر علاؤ الدین کلیریؒ پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑے پہنے ہوئے بستی کی ایک مسجد میں گئے تو لوگوں نے ان کی حالت دیکھ کر مسجد سے باہر کردیا توانہیں جلال آگیا۔ جب لوگ سجدے میں گئے تو انہوں نے کہاکہ اے مسجد تو بھی رکوع و سجدہ کرلے، اتنا کہنا ہی تھا کہ مسجد زمیں بوس ہو گئی اور سب لوگ دب کر مرگئے ۔اُنہیں کایہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ اُن کی شادی کی پہلی رات ہے، آپ عبادت میں مصروف تھے ، بیوی نے کہا کہ آپ میری طرف بھی کچھ توجہ دیں تو انہوں نے مڑکر بیوی کی طرف دیکھا تو آگ جلی اور بیوی جل کر راکھ ہوگئی۔ ذرا غور کیجئےکیا یہ شان بزرگی بیان کی جارہی ہے یا اللہ کے ولی کی توہین کی جارہی ہے۔میرا ماننا ہے کہ جس قوال نے گایا، جس شاعر نے منقبت کے طور پر پڑھا اور جس مولوی نے یہ بیان کیا، سبھی جھوٹے ہیں۔ایسے جھو ٹے اور من گھڑت بات کہنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو اور حضرت صابر علاؤ الدین کلیری ؒ پر اللہ کی لاکھوں رحمتیں نازل ہوں۔ ایک اللہ کا ولی کوئی ایسا کام کرہی نہیں سکتا کہ جس سے نمازی ہلاک ہوجائیں۔
اجر و ثواب سے متعلق مبالغہ :  اکثر و بیشتر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں کام کرنے سے عمر میں زیادتی ہوتی ہے لیکن جب کوئی مر جاتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ ہر انسان کی موت کا وقت متعین ہے۔ بس ہمیں معلوم نہیں کہ موت ہمیں کب اپنی گرفت میں لے لے اور کب ہماری روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جائے کیونکہ بچہ جب رحم مادر میں ہوتا ہے تبھی اس کی زندگی کی عمر متعین کردی جاتی ہے۔ اب بتائیے عمر کی زیادتی اور موت کا وقت مقرر، دونوں باتوں میں مبالغہ اور تضاد ہوا کہ نہیں؟ 
حضرت مریم ؑکی روح قبض کرنے کے لئے ملک الموت جب آئے تو حضرت عیسیٰ ؑ جنگل میں پھل لینے گئے ہوئے تھے، حضرت مریم  ؑنے کہا کہ اے ملک الموت تھوڑا ٹھہر جاؤ، میرا بیٹا جنگل میںگیا ہے، اُسے آجانے دو پھر روح قبض کرلینا، تو ملک الموت نے کہا کہ میں تیرے بیٹے کا انتظار نہیں کر سکتا ،قبض روح میں ابھی جتنا وقت باقی ہے اتنے وقت میں تجھ سے بات ہورہی ہے، وقت پورا ہوگا ،میںتمہاری روح قبض کرلوں گا، چنانچہ ایسا ہی ہو۔ حضرت عیسٰی ؑ جنگل سے پھل لے کر چلے کہ روزہ دارماں افطار کرلے گی۔ عیسیٰ  ؑ جب گھر میں داخل ہوئے تو دیکھتے ہیں کہ ماں کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی ہے۔ اس سے تو یہی ثابت ہوتاہے کہ موت کا وقت مقرر ہے اور جب موت کا وقت مقرر ہے تو پھر زندگی و عمر میں کمی زیادتی ہوہی نہیں سکتی ،پھر بھی کوئی اس بات کو دہراتا رہے تو وہ مبالغہ آرائی کررہا ہے اور لوگوں کو شک و شبہ میں مبتلا کرہا ہے۔
 جلسے کے اشتہار :  آج کل جلسوں کے اشتہارات دیکھے جائیں توبھر پور کوشش کی جاتی ہے کہ اشتہار سے ہی لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات پختہ ہوجائے کہ جلسے کا انعقاد زبردست پیمانے کا ہے ۔ مقررین کے نام کے آگے پیچھےایسے ایسےالقاب لگائے جاتے ہیں جیسے کسی منڈی میں القاب بھی فروخت ہو رہے ہیں اور وہیں سے خرید کر لائے گئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سارے علماء کرام ایسے نہیں لیکن علماء و مقررین اور شعراء کی بڑی تعداد ایسی ہے جو جلسوں میں تقریر کرنے کے لئے اور بارگاہِ نبوی ؐمیں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے اپنا ریٹ مقرر کئے ہوئے ہیں اور جب اسٹیج پر ایک شاعر مائیک پر آتا ہے تو اسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ یہ اسٹیج دینی جلسے کا ہے یا مشاعرے کا ،دنیا بھر کی بات کہنے کے بعد نعت پاک کا ایک شعر کہے گا تو اپنا ٹائم پاس کرے گا۔ دائیں ،بائیں اور بیچ والے سامعن اگر سبحان اللہ نہیں کہہ رہے ہیں توسبحان اللہ کہلوانے کے لئے ایسی بات کہے گا کہ پوچھئے مت۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہ نکالا جائے کہ راقم الحروف سبحان اللہ کہنے کے خلاف ہے، نہیں نہیں ہرگز نہیں !بلکہ راقم الحروف تو دعا گو ہے کہ یا اللہ ہمیں بغیر پیسہ لئے ہوئے ہمیشہ سبحان اللہ کا ورد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اشتہاروں میں اکثر و بیشتر یہ چیز بھی نظر سے گزر تی ہے کہ کسی کے نام سے پہلے شبیہ غوث اعظمؒ، آل رسولؐ، اولاد علیؓ وغیرہ وغیرہ لکھا ہوتا ہے تو کیا کسی نے غوث اعظم ؒکو دیکھا ہے؟ جب نہیں دیکھا ہے تو جو آج سے پچیس، پچاس، سو، ڈیڑھ سو سال پہلے پیدا ہوئے، انہیں آخر کس بنیاد پر شبیہ غوث اعظمؒ لکھا جاتاہے، یہ مبالغہ ہے کہ نہیں؟ ہوسکتا ہے کہ کوئی حضرت امام علی اکبرؓ کا حوالہ دے کر اس مضمون کو تنقید کا نشانہ بنائے، اس لئے راقم الحروف خود ذکر کردینا مناسب سمجھتا ہے کہ ہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اور نواسۂ رسول امام حسین و شہزادہ امام حضرت علی اکبرؓ کو نہیں دیکھا مگر بے شمار علماء و مشائخ اور محدثین و مصنفین نے ذکر کیا ہے کہ حضرت امام علی اکبر ؓرسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔
تقریروں میں بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ غوث اعظم  ؒنے فرمایا ہے کہ میں جب تک اپنے ایک ایک مرید کو جنت میں داخل نہیں کرالوں گا ،تب تک میں خود جنت میں نہیں جاؤں گا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی صحابی رسولؐ نے یہ بات کہی ہے؟ کسی تابعی نے یہ بات نہیں کہی، کسی امام نے یہ بات نہیں کہی پھر غوث اعظم ؒنے کیسے یہ بات کہی۔ حقیقت یہ ہے کہ غوث اعظم  ؒکا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے۔ اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے غوث اعظم سیدنا عبد القادر جیلانی  ؒ پر۔ حقیقت ہے کہ مذکورہ بات غوث اعظم  ؒنے کہی ہی نہیں ہے بلکہ کسی نے ان کی طرف منسوب کردیا ہے۔ راقم الحروف کا عقیدہ ہے کہ شفاعت کرانے کا حق و اختیار اللہ ربّ العالمین نے صرف سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا ہے اور کسی کو نہیں۔ بروزِ حشر لوگ تمام نبیوں کی بارگاہ میں پہنچیں گے مگر سب نفسی نفسی کے عالم میں ہوں گے ،یہاں تک کہ حضرت مریم  ؑکی نیکی تولی جائے گی تو عیسیٰ علیہ السلام چھپ جائیں گے اور جب عیسیٰ ؑ کی نیکی تولی جائے گی تو حضرت مریم ؑ چھپ جائیں گی ، وہاں کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا، کام آنے والی مقدس ہستی صرف رسول پاکؐ کی ہیں۔
مقررین کا حال :   شاعر کا حال تو بیان کیا جاچکا مگر مقررین بھی پیچھے نہیں ہیں اب تو یہ بھی داد مانگا کرتے ہیں اور بعض مقررین تو یہ چاہتے ہیں کہ ایکدم نعروں کی تکرار ہوتی رہے اور ہم جوشیلے اندازمیں اپنا فن دکھاتے رہیں، اب تو مقررین کے طرزِ عمل سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ اور حق و صداقت کے لئے نہیں بلکہ اپنی داد و دہش، نام و نمود اور شہرت کے لئے نعرہ لگواتے ہیں اور دوران تقریر کسی دوسرے مقرر کی آمد ہوتی ہے تو یہ بھی خیال نہیں کیا جاتاہے کہ اس وقت اللہ کی کبریائی اور بڑائی بیان کی جارہی ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ذکر ہورہاہے۔ قرآن کی آیتیں پڑھی جارہی ہیں یا درود شریف پڑھا جارہا ہے، بس جیسے ہی آنے والے دوسرے مقرر کا چہرہ نظر آیا کہ سب کچھ بند ،اورنعرہ لگنا شروع۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود علماء کرام بیان کرتے ہیں کہ دینی مسائل کا بیان ہورہاہے تو دوران اذان بھی اسے جاری رکھا جاسکتا ہے تو اسی دوران کسی عالم یا مقرر کی آمد پر دینی مسائل کے بیان کا سلسلہ بند کرکے اس کا استقبال کیسے کیا جاسکتا ہے؟ 
 مبالغے پر مبالغہ :  حد ہو گئی مختلف وظائف اور مختلف نوافل طریقوں کو ایسے بیان کیا جاتا ہے کہ یہ کام کرلو ایک سال تک کے گناہ معاف، فلاں وظیفہ پڑھ لو تو سارے گناہ معاف، بالکل اسی طرح جیسے انگریزی میں بہت سے باتیں شاٹ کٹ میں کہہ دی جاتی ہیں یا لکھ دی جاتی ہیں۔ صاف اور واضح طورپر یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کا سامان بہت مہنگا ہے اور جنت کو پریشانیوں سے گھیرا گیا ہے، اس لئے شاٹ کٹ اعمال سے جنت نہیں ملنے والی ہے۔ لاک ڈاؤن کے چلتے جلسوں کے انعقاد میں کمی آگئی ورنہ جلسوں کے رنگ روپ کا تو یہ حال ہوچکا تھا کہ جلسوں کی اصلاح کے لئے بھی جلسہ کی ضرورت تھی۔ راقم الحروف کے دیار میں بھی ایک جلسہ ہوا تھا جس میں الہ آباد سے ایک مولانا تشریف لائے تھے، اپنی تقریر میں کہا کہ اورنگ زیب ؒ ایک بار یہ کہہ کر نکلے کہ میں ہر مزار پر حاضری دوںگا اور سلام عرض کروں گا، جس مزار سے سلام کے جواب کی آواز نہیں آئے گی اس مزار کو توڑنے کا حکم دیدوں گا، اس طرح وہ مختلف مزارات پر گئے اور سلام کیا جہاں جہاں سے باآواز بلند سلام کا جواب ملا ،اُسے رہنے دیا باقی مزار منہدم کرا دیا بالآخر وہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے آستانے پر بھی پہنچے تو سلام کیا اور بلند آواز سے سلام کا جواب ملا، ساتھ ہی قبر میں تھوڑی سی درار ہوئی پھر ہاتھ باہر نکلا تو اورنگزیب نے مصافحہ کیا۔ راقم الحروف نے اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا کہ یہ من گھڑت بات ہے۔ جلسے کے اختتام پر اس مولوی سے بھی کہا کہ آپ نے کرامت نہیں بیان کی ہے بلکہ سراسر جھوٹا واقعہ بیان کرکے خواجہ غریب نواز ؒ کی توہین کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے تو راقم الحروف نے کہا کہ جس کتاب میں آپ نے پڑھا ہے اس کتاب کا مصنف جھوٹا ہے بلکہ آج اورنگزیب عالمگیر پر جو مندروں کو ڈھانے کا الزام لگایا جارہاہے، اس کے ذمہ دار آپ ہی جیسے لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت خواجہ غریب نواز و اورنگزیب ؒ کی قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین۔ راقم الحروف ( جاوید اختر بھارتی) کا تعلق خود اہلسنت والجماعت سے ہے ،میں خود بزرگان دین کے آستانوں پر حاضری دیتا ہوں ، فاتحہ پڑھتا ہوں، ان کا واسطہ دے کر اللہ سے دعائیں کرتا ہوں مگر میں کبھی بھی صاحب مزار سے مدد طلب نہیں کرتا اور صاحبِ مزار سے مدد طلب کرنے کا قائل بھی نہیں ہوں ۔میرے نزدیک پیر، ولی، امام سب قابل احترام ہیں، میں سب کی عزت کرتا ہوں اور انشاء اللہ کرتا رہوں گا مگر مصطفیٰ ؐکے بعد ، عزت، عقیدت، احترام و محبت سب سے پہلے اور سب سے زیادہ پیارے آقا خاتم الانبیاء محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ 
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وظیفہ بتایا ہے کہ جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے گا، اسے جنت میں جانے سے صرف موت روک سکتی ہے یعنی جو اس کی پابندی کرے گا وہ مرنے کے بعد سیدھے جنت میں داخل ہوگا تو یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ نبی پاک ؐنے صرف آیۃ الکرسی کے پڑھنے پر جنت کی بشارت نہیں دی ہے بلکہ فرض نماز کے بعد پڑھنے کا طریقہ بتایا ہے تو پہلے نماز کی پابندی کرنی ہوگی، نماز کے لیے پاک و صاف رہنا ہوگا، کوئی بھی موسم ہو تو بندہ جب غسل اور وضو کرے گا، پاک و صاف رہے گا، باجماعت نماز کی پابندی کرے گا اور ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے گا تو اُسے فرمان نبی ؐکے مطابق جنت ملنی ہی ملنی ہے۔ اس لئے کہ میرے آقا  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان غلط ہوہی نہیں سکتا ۔
موبائل:8299579972