’’اس راہ پہ ہمیں بھی چلناہے‘‘

دفتر سے گھر آتے ہی ماں سمیر کے سامنے شکایتوں کا پلندہ کھول دیتی تھی۔ کچن اچھی طرح طرح نہیں رکھا، گھر کی صفائی ٹھیک طرف سے نہیں ہوتی ہے۔ جب سے نوکر بھاگ گیا ہے برتن بھی اچھی طرح سے صاف نہیں ہوتے۔ کپڑے اچھی طرح سے نہیںدُھلتے۔ یہ دُلہن اپنے خاوند کا بھی ٹھیک سے خیال نہیں رکھتی۔ دفتر سے تھکا ہارا آتا ہے تو ایک گھونٹ چائے کی بھی ٹھیک سے نہیں ملتی اُسے۔ اپنا بیڈ رُوم بھی ٹھیک سے نہیں سنوارتی۔
خاوند کے دفتر جاتے ہی جھٹ سے اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ گھر کے انسانوں کے بیچ بیٹھنے سے جی کتراتا ہے بُہو کا۔
ہاں ایک بات ضرور ہے کہ سمیر کے آنے سے چند منٹ پہلے ہی کچن میں آکے ہاتھ پیر مارنے لگتی ہے تاکہ خاوند کو پتہ چلے کہ بیوی بہت کام کرتی ہے۔ 
اُدھر سمیر کے کمرے میں آتے ہی بیوی دن بھر کی شکائیتوں کا پلندہ خاوند کے سامنے کھول دیتی ہے۔ ساس اُسے گھر کا فرد ہی نہیں سمجھتی۔ ہر کام اور ہر بات اُس سے چُھپا چُھپا کے کی جاتی ہے۔ جو کوئی بھی مہمان گھر آئے اُس کے سامنے بہو کی شکائیتوں کی پوری داستان کھول دی جاتی ہے۔
سمیر کے والد ظہیرالدین خاموش تماشائی بن کے دیکھتے رہتے تھے۔ کسی بھی معاملے میں کوئی دخل نہیں دیتے تھے۔ اُن کی عدم مداخلت اور خاموشی سے لگتا تھا کہ وہ بھی بہو کے طور طریق سے مطمئن نہیں تھے۔ گو سمیر اپنے والد کے اس رویئے سے نالاں تھا مگر کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ والد صاحب بحیثیت جج مسائل سلجھاسکتے تھے۔ اُنہیں فریق نہیں بننا چاہئے تھا۔ وہ تو پہلے ہی سے اس دائمی مسئلے کے پیچ و خم سے واقف تھے اسلئے وہ چاہتے تو کم از کم کچھ وقت کیلئے اس معاملے کو ٹال سکتے تھے۔
دراصل یہ مسئلہ سمیر کی شادی کے چند مہینوں بعد ہی نمودار ہوگیا اور گھر کے سب افراد معہ سمیر کے جانتے ہوئے بھی انجان تھے۔ اس مسئلے کو حسبِ دستور اور حسبِ روایت تو وقوع پذیر ہونا ہی تھا مگر اس تیزی اور جلدی سے وارد ہونے سے سب حیران و پریشان تھے۔
سمیر اور نایاب کی شادی کے چند مہینوں کے بعد ہی ساس اور بہو کے بیچ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ اَن بَن ہونے لگی اور دونوں کے ایک دوسرے پہ الزامات دن دوگنی اور رات چوگنی ترتی کرنے لگے۔ ماں کے ساس بنتے ہی سوچ کا پیمانہ بدل جاتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ بُہو کی باتیں اور حرکتیں ہر ساس کو عام طور پر بُری لگنے لگتی ہیں۔ خاص طور پر پہ خاندان کی بزرگ عورتیں اور محلے والی خواتین تو ایسے موقع کی تاڑ میں رہتی ہیں اور موقع ملتے ہی آگ پہ تیل چھڑکنا شروع کردیتی ہیں۔ وہ بہو کو اُکسانے میں بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ جہاں موقع ملا بہو کے کان بھرنا شروع کردیتی ہیں۔ بُہو چونکہ نئی نئی آئی ہوتی ہے اور اُسے گھر کے معاملات اور افراد کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا، فوراً ہر بات پہ یقین کرلیتی ہے۔
دراصل ان عورتوں کی اس گھر سے یا یہاں کے لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں ہوتی بلکہ اس طرح کا طور طریق عورت کی فطرت میں شامل ہے۔ نئی بہو یا اُس کی ساس کے قریب ہونے کیلئے ان کے پاس کوئی اور آسان طریقہ نہیں ہوتا۔
گھر میں اگر دوسری خواتین ہوں جیسے نند، بھابھی وغیرہ تو گھر میں فساد یا رخنہ ڈالنا اور بھی آسان ہوجاتا ہے۔
اتفاق سے سمیر گھر میں اکلوتا لڑکا تھا۔ اس کے کوئی بھائی یا بہن نہیں تھے۔ حالانکہ ایسے حالات میں یہاں ساس بہو کا جھگڑا تو اول ہونا ہی نہیں چاہئے تھا اور اگر خدا نخواستہ اس روایت کو قائم رکھنے کیلئے یہ ہونا ضروری تھا تو کم از کم کچھ سالوں بعد وقوع پذیر ہونا چاہئےتھا۔ مگر اب زمانہ بڑی تیزی سے بدل رہاہے اس لئے یہ معاملہ بھی اس گھر میں وقت کا انتظار نہیں کرسکا۔ دونوں ساس اور بہو شادی کے چند مہینوں بعد ہی کمر کس کے ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہوگئیں۔ 
شروع شروع میں سمیر نے اسے معمولی اور عام سا مسئلہ سمجھ کے نظرانداز کردیا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اُسے حالات کے بگڑنے کا احساس ہونے لگا کیونکہ نایاب نے اُسے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اب اس گھر میں نہیں رہ سکتی اور سمیر کو الگ رہنے کیلئے انتظامات کرنے ہونگے۔
اب سمیر نے بھی سوچ لیا کہ الگ رہنے میں ہی عافیت ہے۔ اس لئے اُس نے الگ رہنے کی ٹھان لی اور اُسے صرف وقت کا انتظار تھا۔ اس فیصلے کو حتمی شکل دینے سے پہلے اُس نے طے کرلیا کہ ماں باپ کو دبے الفاظ میں اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا جائے ورنہ اگر اچانک یہ قدم اُٹھایا گیا تو ماں باپ کو دُکھ ہوگا۔
آخر سمیر نے ماں باپ کو بتا ہی دیا کہ وہ اب الگ رہے گا تاکہ روز روز کی چک چک سے چھٹکارا مل سکے۔ باپ تو خاموش رہا لیکن ماں کا بُرا حال ہوگیا۔ اُس کے آنسو رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ سمیر نے لاکھ دلاسہ دیا مگر بے سود۔
سمیر نے گھر میں جرمن شیفرڈ نسل کے دو نر کُتے پال رکھے تھے جو اب جوان ہوچکے تھے۔ چونکہ گھر شہر سے دور ایک بڑے احاطے پر مشتمل تھا اس لئے رکھوالی کے لئے بھی کتوں کا ہونا ضروری تھا۔ کتوں کی دیکھ بال سمیر اور اُس کے والد ظہیر صاحب کیا کرتے تھے۔ کتے بھی گھر میں سمیر اور اُس کے باپ سے مانوس تھے۔ وہ باپ بیٹا کتوں کو خود کھانا کھلاتے، گھماتے اور نہلاتے وغیرہ تھے۔
اب جبکہ سمیر نے گھر سے دور دوسرے گھر میں رہنے کا فیصلہ کرلیا تو وہاں بھی اُسے رکھوالی کیلئے کُتے کی ضرورت تھی اس لئے اُس نے باپ سے پوچھ کے فیصلہ کرلیا کہ ایک کتے ’’جیکی‘‘ کو وہ اپنے ساتھ لے جائے گا اور دوسرے کُتے ’’ٹامی‘‘ کو والدین کے گھر ہی چھوڑ دیگا۔ باپ چاہتا تو انکار کردیتا مگر یہ سوچتے ہوئے کہ سمیر کو بھی نئے گھر میں رکھوالی کی ضرورت ہے اُس نے بیٹے کی بات پر حامی بھر لی۔ اسلئے گھر کے سامان کے ساتھ بے چارے ’’جیکی‘‘ اور ’’ٹامی‘‘ بھی بٹ گئے۔
سمیر کے الگ رہنے سے ظہیر الدین کو خرچے وغیرہ کی فکر نہیں تھی کیونکہ گھر میں اُن کی پنشن کے علاوہ میوہ باغ کی آمدن اور دس دوکانوں کا کرایہ بھی ملتا تھا۔ جہاں تک سمیر کا تعلق تھا وہ محکمہ جنگلات میں رینج آفیسر کے عہدے پر کام کرتا تھا، اس لئے خرچے کے لئے پیوسوں کی کوئی کمی نہیں تھی تاہم ظہیر صاحب نے پانچ دوکانوں کا کرایہ بھی سمیر کو دینے کا فیصلہ کرلیا۔ 
اب سمیر الگ رہنے سے قدرے پُرسکون تھا کیونکہ گھر میں کسی حد تک امن تھا۔ بیوی بھی اپنے گھر میں خوش تھی کیونکہ اُس کے لئے یہاں سب کچھ اپنا تھا۔ کسی کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔
عام طور پر ساس بُہو کے جھگڑے میں بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ساس بُہو پہ بار بار باور کرانا چاہتی ہے کہ نئے گھر میں اُس کا کچھ بھی نہیں اور سب کچھ ساس اور سُسر کا ہے اور دوسری جانب بہو اس احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہے کہ گھر کے وارث کی بیوی ہونے کے باوجود وہ غیر ہے۔ اُس کا کچھ بھی نہیں۔ اس لئے وہ من ہی من میں اس بات کے لئے کوشاں رہتی ہے کہ اُسے اپنا گھر بنانا پڑے گا، جہاں وہ کہہ سکے کہ یہ میرا ہے۔ دراصل یہ انسانی فطرت ہے کہ اُسے ہر اُس چیز یا شے کے مالکانہ حقوق ملنے یا حاصل کرنے کے اختیار ملنے کی تمنا رہتی ہے جو اُس کی دسترس میں آئے۔ بیچاری بہو سب کچھ جانتے ہوئے بھی خواہشات کے اس نرغے میں پھنس جاتی ہے۔ مگریہ بھی سوچنے سے پہلے ہی ساس، جوکہ اپنے دور میں ان مرحلوں سے گذر چکی ہوتی ہے، بہو کی طنابیں کسنا شروع کردیتی ہے۔ عام طور پر ایسے حربے تو کچھ ساس کے رُتبے میں فطری طور شامل ہوتے ہیں اور کچھ لوگ مرچ مصالحہ لگا کے ساس کے کان بھرنا شروع کردیتے ہیں۔
یہاں بُہو کے کان بھرنے والوں کی کمی نہیں تھی۔ اُسے بھی بتادیا جاتا ہے کہ جہاں جارہی ہو مالک بن کے رہنا۔ سسرال کی ہر چیز پہ تمہارا پورا پورا حق ہے۔ کسی سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جاتے ہی گھر کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لینا اور اگر اس میں کسی نے رخنہ ڈالنے کی کوشش کی تو اپنا الگ سے گھر بنانے کی کوشش کرنا۔
ایسے ہی اسباب بنے۔ جب نایاب نے اپنے خاوند کو الگ رہنے پر مجبور کردیا اور سمیر عام لڑکوں کی طرح بنا سوچے سمجھے خود غرض بن کے الگ ہوگیا اور اب خوش تھا۔ ویسے بھی مرد کو شادی کے بعد بیوی کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔ سمیر ماں باپ کے بارے میں مطمئن تھا کیونکہ وہ آسودہ حال تھے۔ لڑکے کی خواہش ہوتی ہے کہ بیوی خوش رہنی چاہئے۔ اُسے لگتا ہے ماں باپ کو صرف پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ نادان یہ سمجھ نہیں پاتا کہ بڑھاپے میں ماں باپ کو پیسے کی نہیں بلکہ بچوں کے ساتھ اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔
خیر اب سمیر الگ ہوچکا تھا مگر نکلتے وقت وہ کتوں کی جوڑی میں سے ایک جیکی کو اپنے ساتھ لے آگیا تھا اور دوسرے ٹامی کو والدین کے پاس چھوڑ آیا تھا۔ مگر اب وہ پریشان تھا کیونکہ نئے گھر میں جیکی نے کھانے پینے کی بھوک ہڑتال کردی تھی اور اُسے پتہ چلا کہ والدین کے گھر میں ٹامی نے بھی کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔
اب نئے گھر میں نایاب خوش تھی۔ سمیر پُرسکون تھا مگر کُتا جیکی پریشان تھا۔ کھانے کو منہ نہیں لگا رہا تھا بس صرف بھونکے جارہا تھا۔ شائد اپنے ساتھی ٹامی کو ڈھونڈ رہا تھا۔
اُدھر ظہیر صاحب کے گھر میں بھی ٹامی پریشان تھا۔ کھانا نہیں کھا رہا تھا اور صرف بھونک رہا تھا اور وہ بھی شائد اپنے ساتھی جیکی کو ڈھونڈ رہا تھا۔ مگر یہاں ظہیر صاحب اور اُن کی بیوی یعنی سمیر کی ماں بھی بے حد پریشان تھے۔ 
عجیب اتفاق تھا بے زبان جانور چند سالوں کے ساتھ کے بعد ایک دوسرے سے الگ رہ کر پریشان تھے جبکہ اُن کا آپس میں کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔ سوائے نسل اور جنس کےجیکی اور ٹامی میں کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ اس سب کے باوجود وہ الگ ہوکے ایک دوسرے کی کمی کو بُری طرح محسوس کررہے تھے۔
مگر صد حیف سمیر ،جسے ماں نے نو ماہ کوکھ میں رکھا پھر ماں باپ نےپال پوس کے بڑا کیا، پڑھایا لکھایا اور ذوق و شوق سے اُس کی شادی کی، شادی ہوتے ہی ماں باپ کے پیار کو یکسر بُھول گیا۔ اُس نئے ماں باپ کو چھوڑ کے بیوی کی خوشی کو ترجیح دی۔ اپنے سکون کے حصول کی خاطر ماں باپ کا سکون چھین لیا۔ ہونا تو یوں چاہتے تھا کہ وہ بیوی کو اپنے ماں باپ کے رشتے کی اہمیت سمجھاتا اور اُسے ساس و سُسر کے ساتھ رہنے کے طور طریق سمجھاتا مگر اُس نے آنکھیں موند کے بیوی کی باتوں پر یقین کیا اور مسائل کو ٹھنڈے دل سے سلجھانے کی کوشش نہیں کی۔ بیوی کے ساتھ صرف الگ سے رہنا ہی اس مسئلے کا حل نہیں تھا۔ ماں باپ بزرگ تھے، آبِ حیات تو پی کے نہیں آئے تھے۔ اُن کی خوشی کے لئے اگر کچھ قربانی بھی دینی پڑتی تو کونسی بڑی بات تھی۔
کچھ دن بعد جب سمیر گھر آیا تو نایاب نے بتایا کہ جیکی زنجیر توڑ کر بھاگ گیا ہے۔ خدا جانے کہاں چلا گیا۔ نوکر راجو کو بھی ڈھونڈھنے کیلئے بھیجا تھا مگر اُس کا کوئی سُراغ نہیں ملا۔
سمیر کو فکر لاحق ہوگئی کہ کہیں ودسرے کتوں سے اُس کا جھگڑا نہ ہوجائے۔ آوارہ کتے تو مل کر اُسے مار ہی ڈالیں گے۔ ویسے کوئی پکڑ کے لے بھی تو نہیں جاسکتا۔ اُسے اچانک خیال آیا کہ پولیس تھانے میں شکایت کرنے سے پہلے ابا جان کو اطلاع دے کے پوچھا جائے۔
سمیر کی حیرانگی کی انتہائی نہیں رہی جب فون پہ ظہیر الدین صاحب نے اُسے بتایا کی جیکی گھر پہنچ گیا ہے۔ گھر پہنچتے ہی دونوں جیکی اور ٹومی نے کئی دن بعد جی بھر کے کھانا کھایا۔
سمیر سوچنے لگا کی جانور بھی چند سالوں کے ساتھ کے بعد الگ سے رہ نہیں پائے اور گھر سے دور نہیں رہ سکے اور ایک وہ ہے جو نیا ساتھی ملنے پہ ماں باپ کا پیار تک بھول گیا۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ بیوی کی بات ماننے سے پہلے اُسے سمجھا بُجھا کے ماںباپ کی اہمیت کا احساس دلایا ہوتا۔ ماں باپ ساری زندگی تو ساتھ نہیں دیتے پھر ہمیں اُن سے چھٹکارا پانے میں جلدی کیوں ہوتی ہے۔ کل کو ہمیں بھی تو بزرگ ہوجانا ہے۔
 
���
مین روڑ،راولپورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛7889463170