اسکول کا گھنٹہ اور میقات زندگی

اسکول کے پہلے تجربات میں سے گھنٹہ بجنا سب سے انوکھا اور سب سے نرالا تجربہ ہوا کرتا تھا۔ آج سے تیس پینتیس سال پہلے کی تعلیمی و تدریسی روایت میں بچے کبھی کبھی خود باہر نکل کر میقات کا گھنٹہ بجانے میں پہل کرتے تھے۔ اگرچہ استاد اس ذمہ داری کو کلاس لیڈر، جسے عرف عام میں مانیٹر (عریف) کہتے تھے، کے حوالے کرتا تھا، لیکن استاد کی غیر موجودگی میں بچے گھنٹے کو بجانے کے لئے کبھی کبھی چھینا جھپٹی بھی کیا کرتے تھے۔ بچوں کا ایک خاص حلقہ ایسا بھی ہوا کرتا تھا جو گھنٹے کی آواز سے محظوظ ہوتا تھا۔ کئی بچوں کو یہ آواز متوحش کرتی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ اسکول میں دیا ہوا گھر میں کرنے کا کام (ہوم ورک) یا تو نامکمل ہوتا تھا یا سرے سے کیا ہی نہیں ہوتا تھا! ایسی صورت میں ایسے بچے استاد کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے اور گھنٹے کی آواز ان کو نہایت گراں گزرتی تھی۔
تاہم دس بجے صبح بجنے والے گھنٹے سے پورے دن بجنے والے گھنٹوں کی ابتداء ہوتی تھی۔ اس طرح اس گھنٹے سے اس بات کا اعلان ہوتا تھا کہ دن کے چھ سات گھنٹے بچوں کو بڑے پابند طریقے سے گزارنا ہوں گے۔ ان گھنٹوں میں برتی جانے والی ذرا سی کوتاہی کا براہ راست اثر نہ صرف پورے سال کی کارکردگی پر پڑتا تھا بلکہ کسی قسم کی تضیع اوقات کا خمیازہ پوری زندگی بھگتنا پڑتا تھا۔ غرض صبح کو بجنے والا گھنٹہ بچے کو چوکنا کرتا تھا اور اس کے ذہن کو ہر مصروفیت سے کاٹ کر پڑھائی کی جانب مبذول کراتا تھا۔
چار بجے سہ پہر بجنے والا گھنٹہ اس اعتبار سے منفرد ہوتا تھا کہ اس سے علی الصبح بجنے والے گھنٹے سے لگنے والی پابندیوں کا وقتی طور پر خاتمہ ہوتا تھا۔ اپنے وقت کا صحیح استعمال نہ کرنے والے بچے اس کو ضرور آزادی کا اعلان سمجھتے تھے۔ کسل مندوں کا یہ گروہ خود کو سمیٹ لیتا تھا اور اگلی صبح تک ’’غم مدرسہ ‘‘سے بیگانہ ہوجاتا تھا۔تاہم حساس بچے اس کو صرف ایک وقفہ تصور کرتے تھے۔ ایسے بچوں کو یہ اگلے دن کے لئے نقارہ معلوم ہوتا تھا۔
اسکول میں مسلسل اور متواتر بجنے والے اس گھنٹے کا اطلاق اگر زندگی کے عظیم تر اور وسیع تر مدرسے پر کیا جائے تو یہاں بھی اسی طرح کے گھنٹے بجتے رہتے ہیں۔ دراصل خوشی اور غم کے مواقع پر انسان کے منہ سے نکلنے والی آواز بھی گھنٹے کی آواز ہی کا اثر رکھتی ہے، کیونکہ نہ خوشی پائیدار ہوتی ہے اور نہ ہی غم ابدی ہوتا ہے۔ دونوں تجربات انسان کے اوقات کو کچھ اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ انسان کو ایک قسم کی فطری میقات (Time Table) میسر ہوتی ہے۔ اگر انسان خوشی کے وقفے (Period) کو ناپائیدار جان کر اپنے آپ کو اترانے سے باز رکھے تو وہ مسرت کی صورت میں آنے والے اس امتحان (آزمائش) میں کامیاب ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر انسان غم کے وقفے (Period) کو بے ثبات سمجھ کر اپنے صبر کے جام کو چھلکنے سے باز رکھے تو وہ اس امتحان میں بھی سرخرو ہوجائے گا۔ شکر اور صبر کا یہ ملا جلا رویہ انسان کی زندگی میں ضرور حسن پیدا کرے گا۔
تاہم انسان کے اندر ایسا رویہ صرف اس صورت میں پیدا ہوگا جب اس کو اس بات کا یقین ہو کہ ہر قسم کے تجربے کی ابتداء کے ساتھ ہی اس کا اختتام جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں عربی کا ایک مقولہ ہے کہ ’’کل ماھو آتی فھو قریب: یعنی ہر یقینی طور پر نے والی چیز یا واقعہ قریب ہی ہوتا ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں پیش آنے والے سبھی واقعات کو نزدیک ہی سمجھنا چاہئے۔ اس ضمن میں مستقبل قریب یا مستقبل بعید کی اصطلاحات کے استعمال سے ان حقائق پر کچھ زیادہ اثر نہیں پڑتا جو مستقبل میں رونما ہونے والی ہوتی ہیں۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو واقعات مسلسل مستقبل کے دائرے سے خارج ہو ہو کر حال کو چھوتے ہوئے ماضی کا قصہ پارینہ بن جاتے ہیں وہ انسان کو اپنے مستقبل پر ہر دم نظر رکھنے پر ابھارتے رہتے ہیں۔ ہر آن تبدیل ہونے والے زندگی کے حقائق کے تئیں علامہ اقبال نے فرمایا ہے:؎
تو  اسے  پیمانہ  امروز و فردا  سے  نہ  ناپ
  جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
یعنی با ہوش و حواس اور حاضر دماغ انسان زندگی کو کبھی بھی آج اور کل کے پیرائے میں نہیں دیکھتا، بلکہ ایسا انسان وقت کو ایک اکائی تصور کرتا ہے۔ اس کے لئے وقت پانی کے اس ریلے کی مانند ہوتا ہے جو ہر شئے کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ البتہ ایسا شخص بہتا تو ضرور اسی وقت کے ساتھ ہے، لیکن اپنے اس وقت کو اس ترتیب کے ساتھ استعمال کرتا ہے کہ وہ کچھ ایسے نقش چھوڑ جاتا ہے جو آنے والوں کے لئے سنگ ہائے میل کا کام دیتے ہیں۔ آنے والے لوگ ایسے انسان کے چھوڑے ہوئے اثرات کو اپنے لئے نقوش راہ بنالیتے ہیں اور زندگی میں کار ہائے نمایاں انجام دیتے ہیں۔
زندگی کو اس انداز میں سمجھنے والے لوگ اپنی مہلت حیات کو بڑی ہی سنجیدگی سے لیتے ہیں، کیونکہ وہ وقت کے کسی وقفے کو غیر اہم سمجھ کر گنوانے کی غلطی نہیں کرتے۔ ان کے ذہن میں یہ بات مستحضر رہتی ہے کہ:
  یک لحظہ غافل گشتم   و صد سالہ راہم دور شد
یعنی انسان اگر ایک لمحے کے لئے بھی غافل ہوجائے، تو ایسا کرنا اسے سو سال پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کو سنجیدہ لینے والا انسان لمحوں کا خیال رکھتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ساعتیں اپنا خیال خود رکھتی ہیں۔ اس خیال کو انگریزی کے اس مقولے میں بیان کیا گیا ہے:
  Take care of your seconds, for your minutes
   will take care of themselves!
بحیثیت مسلمان ہمیں نماز کے متعلق ’’کتابا موقوتا‘‘کا سبق یہ یاد دہانی کراتا رہتا ہے کہ ہمیں زندگی میں ہر دن کی میقات (Time Table) اس طرح ترتیب دینا چاہئے کہ ایک طرف ہمارے پاس ہر ضروری کام کے لئے وقت میسر رہے اور دوسری طرف پوری زندگی ایک ترتیب اور ڈھنگ کے ساتھ بسر ہوسکے۔ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں سکھایا ہے کہ ایک مسلمان کے در دست وقت پر نہ صرف اس کے ملاقی اور مہمان کا حق ہے بلکہ اس پر اس کا اپنا بھی حق ہے۔ اس کا  مطلب یہ ہے کہ اس کو ایک بھر پور زندگی گزارنا چاہئے۔ ایک مسلمان کو اپنے اوقات میں ترتیب و تنظیم پیدا کرنے کے لئے اس حدیث سے کافی و شافی راہنمائی ملتی ہے جس میں اس سنگین صورتحال کا ذکر کیا گیا ہے جس سے انسان خدا کی جناب میں دوچار ہوگا۔ انسان کو رب کے حضور میں ایک قدم اٹھانے تک کی اجازت نہیں ہوگی جب تک نہ وہ پانچ سوالوں کا جواب دے گا۔ اگرچہ پانچوں سوالات زندگی کو ایک ڈھنگ سے گزارنا سکھاتے ہیں، لیکن دو سوالوں کا تعلق براہ راست اوقات زندگی کو ترتیب دینے سے ہے۔ یہ دو سوال یہ ہیں کہ انسان نے پوری زندگی کو کیسے صرف کیا اور اس میں سے جوانی کی مدت کو کس انداز میں خرچ کیا؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دونوں سوالات کا تعلق زندگی سے ہے تو جوانی کی مدت کا ذکر الگ سے کیوں کیا گیا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جوانی ایک ایسی مدت کا نام ہے جس میں انسان اپنے قوی (توانائیوں) کے ذریعے نہ صرف اپنے لئے کچھ خاص کر گزرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ کسی بھی کام کو انجام دینے کا حوصلہ اور عزم رکھتا ہے، بلکہ اسی مدت میں انسان معاشرے کی خاطر بھی کوئی خاص کردار ادا کرسکتا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ یہی خاص مدت انسان کسی خاص کام کرنے کی تگ و دو میں صرف کرسکتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان پیدا ہوتے ہی کوئی خاص کام کرنے یا کوئی خاص پیشہ اختیار کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس حقیقت کی طرف قرآن اس طرح اشارہ کرتا ہے کہ انسان کو اس صورت میں پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ اس وقت کچھ نہیں جانتا۔ البتہ اس کو کان، آنکھ اور دل کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ ان اجزاء سے انسان وہ صلاحیتں حاصل کرتا ہے جن کا استعمال اسے اپنی خاص مدت عمر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح انسان اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی تمہید اپنی مادر مہربان کی گود سے اترنے کے ساتھ ہی شروع کرتا ہے۔ واضح رہے لفظی اعتبار سے بھی جب ماں اسے گود سے اتار کر مہد (Cradle) کے حوالے کرتی ہے تو اس وقت اس کا پہلا وقفہ (Period) مکمل ہوتا ہے۔ اسی مہد (کشمیری، Manzul) میں بچہ اپنے ہاتھ پاؤں ہلاکر اپنی دنیا کو تلاش کرنا شروع کرتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد انسان کا یہ وقفہ بھی ختم ہوجاتا ہے اور وہ اپنے گھر کی دہلیز پر اتر کر اپنی دنیا کو ذرا وسیع ہوتے ہوئے گھورنا شروع کرتا ہے۔ ذرا دیر بعد اسے اپنے والدین گھر سے "نکال" کر مکتب (اسکول) کی جانب روانہ کرکے انسان کے اس وقفے کے خاتمے کا بھی اعلان کرتے ہیں۔ اس وقت ننھے بچے کی چیخ و پکار اس ’’چیخ‘‘ جیسی ہی ہوتی ہے جو وہ تولد ہوتے ہی نکالتا ہے۔ اس کے بعد اس کے تعلیمی اور تربیتی سفر کے دوران مختلف وقفے آتے اور جاتے رہتے ہیں!
اس طرح جب انسان دنیا کو ایک تعلیم گاہ (اسکول) یا تجربہ گاہ (لیبارٹری) کے طور پر لیتا ہے تو وہ ہر سطح پر علم کے ساتھ اپنے تعلق کو بنائے رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی سطح پر علم کے ساتھ مناسبت رکھنے والا شخص اپنے "آگے بھیجے ہوئے عمل اور اس عمل کے ذریعے اپنے پیچھے چھوڑے ہوئے اثرات" پر غوروفکر کرتا ہی رہتا ہے۔ ایک  باعمل مسلم کے لئے زندگی کے ہر وقفے کی اہمیت سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کیونکہ قرآن نے اس کے لئے "قدمت لغد" اور "قدمت و اخرت" کی صورت میں اس باپت کافی راہنمائی فراہم کررکھی ہے۔
اب وہی شخص شجر علم کی حتی الوسع آبیاری کرسکتا ہے جس نے نہ صرف اسلام کے نظریہ ’’طہارت اور تزکیہ‘‘ کو سمجھا ہو بلکہ اسی نظریے کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش بھی کی ہو۔ ایسا کرنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ حقیقی علم خدائے برحق کی پاک و منزہ ذات سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس کی تحصیل پاک ابدان اور پاک اذہان ہی سے ممکن ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل چہارگانہ (تلاوت آیات، تزکیہ، تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت)، جس کو قرآن میں چار مقامات پر واضح کیا گیا ہے، میں ’’تزکیہ یعنی پاکیزگی ‘‘کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔
ظاہر ہے کہ تعلیم و تربیت کے یہ چاروں دائرے حیات انسانی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو حسن بخشنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان فطرت کی اس وسیع و عریض تربیت گاہ میں مسلسل بجنے والے ان گھنٹوں کی آواز کی طرف کان دھرے جو اس کو چوکنا کرنے کے لئے ہی بجتے ہیں:؎
غافل  تجھے گھڑیال  یہ  دیتا  ہے  منادی
  گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادی
(رابطہ ۔9858471965)