تعلیمی شعبہ چونکہ ہر سماج میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتاہے، لہٰذا اس میں موجود خوبیوں اور خامیوں کو سماجی سطح پر زیر بحث ضرور لایا جانا چاہئے۔ فی الوقت ریاست میں نجی تعلیمی شعبہ کا ایک اہم رول ہے اور لاکھوں بچے اس کے توسط سے تعلیم حاصل کر کے زندگی کے ابتدائی مراحل کی تربیت میں مصروف ہیں، لہٰذا سماج کی مثبت ترقی میں اس کے رول کو نظر انداز نہیں جاسکتا، تاہم متعدد معاملات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔پرائیوٹ سکولوں کی طرف سے فراہم کی جانی والی ٹرانسپورٹ سہولیات میں بہتری لانے کےلئے محکمہ تعلیم نے اگر چہ نجی سکولوں کے منتظمین کو واضح ہدایات دے رکھی ہیں اور اس حوالے سے ایک سرکاری ہدایت نامہ بھی موجود ہے، لیکن اسکے باوجود کئی سکولوں کی جانب سے ان ہدایات کو نظر انداز کرنے کے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اگر چہ اسکولوں کی مختلف انجمنیں بھی اپنے اراکین کو اُن ہدایات، جو اصل میں عدلیہ کے احکامات کے مطابق مرتب کی گئی ہیں، پر عمل درآمد کیلئے زور ڈالتی رہتی ہیں،لیکن اسکے باوجود روزانہ سڑکوں پر ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، جب طلبہ کو لانے لے جانے والی کئی گاڑیاں طوفانی رفتار کے ساتھ چلتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں ۔ خاص کر جن گاڑیوں میںچھوٹی کلاسوں کے بچے سوار ہوتے ہیں انہیں تیز رفتاری کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھ کر دیکھنے والوں کا دل دہل جاتا ہے ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ سبھی کو اس میں شمار کیا جاسکتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ متعدد ڈرائیور اکثر تیز رفتاری کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں، حالانکہ بیشتر ریاستوں میں اسکولی گاڑیوں پر رفتار قابو کرنے والے آلات(Speed Governer)نصب کرنے کی ہدایات موجود ہیں، جنکے تحت کوئی بھی ایسی گاڑی چالیس کلو میٹر سے زیادہ رفتار پر چلنے کی اہل نہیں ہوسکتی ، مگر یہاں ایسا کچھ نظر نہیںآتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی لاپرواہ طبعیت کے حامل ڈرائیور اپنی رفتار پر قابو نہیں رکھتے،جس کی وجہ سے بچوں کو ہمیشہ خطرات کا سامنا رہتا ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کئی اسکول گاڑیوں میں سیٹنگ سہولیات کے مطابق طلبہ کو سوار نہیں کرتے۔ خاص کر چھوٹی گاڑیوں میں منظور شدہ نشستوں سے زیادہ مقدار میں سواریاں بٹھائی جاتی ہیں، حالانکہ ریاستی حکومت کی جانب سے یہ واضح ہدایات موجود ہیں کہ اسکولی گاڑیوں میں منظور شدہ نشستوں سے زیادہ بچوں کو نہیں بٹھایا جانا چاہئے مگر متعدد اسکولوں ،خاص کر پری نرسری، نرسری اور پرائمری درجوں کے سکولوں، کی طرف سےچلائی جانے والی گاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ٹھُنسےٹھُنسے نظر آنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ اسکےعلاوہ سکولوں کی جانب چلائے جانے والی گاڑیوں پر سرکاری ہدایات کے مطابق زدر رنگ اور ان پر جلی حروف میں سکول کا نام اور رابطہ نمبر درج ہونا چاہئے اور اکثر بڑے سکولوں کی گاڑیوں میں ایسا ضرور ہوتا ہے لیکن کئی ایسے سکول بھی ہیں جن کی طرف سے اس معاملے میں کوتاہی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ سکو ل بسیں چلانے والےڈرائیوروں کو ہلکی گاڑیاں چلانے کا کم ازکم پانچ سالہ تجربہ ہونا لازمی ہے۔ کیا اسکی کبھی جانچ ہوتی ہے؟ یہ محکمہ ٹریفک کنٹرول ہی بتا سکتا ہے، تاہم یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہوگا کہ متعلقہ محکمہ کی جانب سے خال خال ہی ایسی جانچ کے واقعات پیش آتے ہیں۔ اگر چہ اسکولوں کے انتظامی صیغوں کی جانب سے بار بار ایسی یقین دہانیاں کرائی جارہی ہیں مگر ہدایات کی خلاف ورزی کے معاملات کو یکسر مسترد نہیںکیاجاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ والدین کی جانب سے شکایات درج کئے جانے کے نتیجہ میں اسکولی منتظمین کاروائیاں کرتے ہیں، لیکن پرائیوٹ اسکولوں کے منتظمین پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ایک ایسا میکانزم قائم کریں جس کے تحت وہ وقتاً فوقتاً از خود ایسے معاملات جائزہ لیتے رہیں۔ بہر حال بچے ہمارا مستقبل ہیں اور قوم کی فلاح و بہبود کی بنیا د نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور انہیں بہتر سہولیات فراہم کرنے میں مضمر ہے، لہٰذا اس جانب سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے ماضی میں نجی اسکولوں کے منتظمین کو ٹرانسپورٹ سہولیات میں معقولیت لانے کےلئے اپنی سفارشات بھیجنے کی ہدایت ضرور کی تھی تاہم متعلقہ محکمہ کو اپنے طور پر بھی ایک ایسا میکانزم تیار کرناچاہئے، جس سے مختلف اقسام کی خلاف ورزیوں کی روک تھام ممکن ہوسکے۔اس طرح وہ سماج کے تئیں اپنے متعین رول کو انتہائی احسن طریقے سے ذمہ داری کے ساتھ نبھانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں والدین اور سماج کے ذی حس طبقوں کو بھی اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا چاہئے۔ گزشتہ دنوںریاستی انتظامیہ کے ضلعی صیغوں نے اس حوالے سے کئی معلوماتی تقاریب کا انعقاد کیا، جو انتہائی اہم ہے اور وقت کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے انتظامیہ کو والدین کے ساتھ ساتھ ذمہ دار سماجی حلقوں کی خدمات حاصل کرنے میں بھی پہل کرنی چاہئے۔