اسپینش فلو، روسی وباء ، بلیک ڈیتھ اور کورونا | نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی

عالمی سطح پر یہ بات اب بھی زیر بحث ہے اورعام لوگوں کو یہی بتایاجا رہا ہے کہ 2019کے اواخر میں چین کے شہر اُوہان کے اندرکسی طرح کورونا وائرس کی سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا ۔ یہ وائرس کہاں سے آیا اور اس کا پھیلنا کیونکر قابو سے باہر ہوگیا؟اس طرح کے کئی سوالات تشنہ جواب ہیں۔ بعد کے حالات تباہ کُن تاریخ ہیں، جو مسلسل رقم ہورہی ہے اور جس کے مطابق ابھی تک دنیا بھر میں کم و بیش پونے دو لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے ہیں۔دنیا بھر کے سائنسدان سر جوڑ کر اس جستجو میں لگے ہیں کہ کورونا وائرس کی اصلیت کیا ہے اور یہ کہاں سے انسانوں میں منتقل ہوگیا؟ایسا کرنا اس لئے ضروری ہے تاکہ نہ صرف اس وائرس کا علاج تلاش کیا جائے بلکہ اس لئے بھی کہ مستقبل میں ایسی صورتحال درپیش نہ ہو، جس میں سائنسدانوں پر خواب خرگوش میں ہونے کا الزام عائد کیا جاسکے۔
ذمہ دار دنیا کا ہر فرد غور کررہا ہے کہ پیدا صورتحال کو کیسے قابو کیا جاسکے تاکہ اولادِ آدم کو نوید سنائی جاسکے۔ لیکن کشمیر کے اندر آزمائش کی اس گھڑی میں بھی ایسے واقعات پیش آنے کا سلسلہ جاری ہے جو دل کو رنجیدہ کرنے والے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسا ’’بچائو‘‘ کے نام پر کیا جارہا ہے۔یہاں اس حد تک افسانے دہرائے جا رہے ہیں کہ وہ حقیقت کا روپ اختیار کرنے لگے ہیں۔حالانکہ افسانے حقیقت کا آئینہ دار ہوسکتے ہیں، حقیقت نہیں۔پھر یہاں کی سیاسی صورتحال بھی اس امر کی ذمہ دار ہے کہ لوگوں کو ایک مخصوص ذہنیت سے ہی سوچنے اور عمل کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ جو کوئی اُس مخصوص ذہنیت سے خود کو چھٹکارا دلانے کی کوشش کرتا ہے، اُس کو ملک دشمنی کی دفعات کے تحت پس از دیوار کیا جاتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کی طرف سے کورونا سے پیدا صورتحال کو طبی ایمر جنسی قرار دئے جانے کے بعد سے ڈاکٹراور نیم طبی عملے کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں، جنہیں روزانہ بنیادوں پر نئے نئے مریضوں سے نمٹ کر نہ صرف اُن کا علاج کرنا پڑرہا ہے بلکہ خود کو بھی بچانا پڑتا ہے۔صحیح ہے کہ طبی و نیم طبی عملہ ہی اس وقت صف اول کے سپاہی بن کر مریضوں کی راحت رسانی کا عظیم کام انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹروں اوردیگر طبی ماہرین کو کئی محازوں پر سرگرم رہنا پڑ رہا ہے تاکہ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔ جب بھی کہیں کسی مشتبہ مریض کی موجودگی کی اطلاع ملتی ہے تو یہ ماہرین وقت ضائع کئے بغیر مخصوص مقام پر پہنچ کر مریض کے ساتھ ساتھ اُس کے گرد و پیش کے بارے میں بھی ضروری اقدامات کرتے ہیں۔
لیکن ہمارے یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔جب وادی کشمیر کے اندر کسی ایسے مریض یا مشتبہ شخص کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو طبی ماہر کم، بلکہ خاکی میں ملبوس اہلکار زیادہ سرگرم دکھائی دیتے ہیں،اور یہیں سے کشمیر کے حالات دنیا سے مختلف ہونے کا آغاز ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی میں خاکی میں ملبوس اہلکاروں نے ایک گائوں کے محلے کو محاصرے میں لیا۔ مقامی لوگ کریک ڈائون سمجھ کر آنے والے حالات کے بارے میں اندازے لگاہی رہے تھے کہ وردی پوشوں نے محلے کے ایک بااثر شہری کو اصلیت سے آگاہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں کوئی ایسا شخص رہائش پذیر ہے جو حالیہ ایام میں کسی کورونا مریض کے رابطے میں آیا تھا۔ 
خاکی وردی پوشوں کے ہر معاملے میں پیش پیش رہنے سے کشمیر کے حالات ایسے تیار ہوئے ہیں جہاں لوگ اکثر اوقات شکوک و شبہات اورخدشات میں ہی مبتلاء رہتے ہیں۔ طبی حکام کے علاوہ انتظامیہ کے افسران بشمول پولیس جب کسی مخصوص علاقے میں نقل و حمل محدود کرنے کے احکامات صادر کرکے اُس کو ’’ریڈ زون‘‘ قرار دیں تو لوگ خوف کا شکار ہوکر ایسے علاقوں کی سڑکیں ہی کاٹتے ہیں۔ حالیہ ایام میں ایسے متعدد واقعات پیش آئے جن میں مقامی لوگوں نے خوف کا شکار ہوکر خود ہی ’’لاک ڈائون کی کامیابی‘‘ کے اقدامات کئے۔ حد یہ ہے کہ نوپورہ سرینگر کے شہریوں نے اُن کے علاقے کا رُخ کرنے والوں کی’’ہڈی پسلی‘‘ ایک کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی اور دعویٰ کیا کہ وہ جو بھی اقدامات اٹھارہے ہیں اُن کے متعلق پولیس پہلے ہی باخبر ہے۔ سڑکیں بند کرنے بلکہ کاٹنے اور دوسرے علاقوں کے لوگوں کو’’وبا ء والے‘‘ قرار دینے سے ایک ایسی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کیخلاف ہی کھڑا ہوکر خود کا ہی نقصان کریں گے۔شاید اسی قبیح سوچ کا نتیجہ تھا کہ کورونا سے متاثرہ افراد کے بارے میںابتداء میں ہی ایسا تاثر پیدا ہوگیا جیسے اُنہوں نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔اسی لئے بعض غیر ذمہ دار افراد نے مشتبہ مریضوں کو چھپایا اور سفر سے لوٹے کئی افراد نے اپنی سفری تفصیلات ظاہر کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا ۔
بیماریاں پھوٹ پڑنے اورلاک ڈائون جیسی صورتحال انفرادی اور اجتماعی کردارکیلئے ایک آزمائش ہوتی ہے۔بدقسمتی سے اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر ابھی کردار کے اُس اعلیٰ زینے پر نہیں ہیں جہاں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا اور ہم غیر معمولی حالات کے اندر دوسروں کو کسی بھی طرح کی آسائش فراہم کرنے کے بارے میں اقدام کرتے۔کشمیر کی ہی تاریخ کا یہ بھی ایک شرمناک باب ہے کہ1903میں یہاں کی شدیدوبائی صورتحال چند پولیس اہلکاروں کی خود غرضانہ بلکہ مجرمانہ طرز عمل کا نتیجہ تھی۔ صحیح ہے کہ ہمارے سماج کا ایک بڑا طبقہ انسانی ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہوکر غیر معمولی صورتحال میں سرگرم ہوتا ہے اور انہی خاص لوگوں کی وجہ سے ہمارے غریب و نادار طبقے تک ضروری امداد بروقت پہنچ جاتی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاجر طبقے کا ایک مخصوص حصہ انتہائی صبر آزما حالات میں بھی زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہی فکر میں لگارہتا ہے۔ تاجر طبقے سے وابستہ انہی مخصوص افراد کی دین ہے کہ عام لوگوں کو موجودہ صبر آزما ایام کے دوران گراں بازاری کے وائرس کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔تاجر ہمارے سماج کا ایک اہم حصہ ہیں اور یہ طبقہ وقت وقت پر ذمہ دار ثابت ہوا ہے لیکن مٹھی بھر عناصر کی منفی سرگرمیوں سے شرمندہ ہوکر اُن افراد کو سلام پیش کرنا پڑتا ہے جن کی انفرادی اور اجتماعی کاوشوں سے نہ صرف محتاجوں تک ضروری سامان کی فراہمی ممکن ہورہی ہے بلکہ قرنطین میں کورونا کے مشتبہ مریضوں تک بھی ضروری سامان پہنچ رہا ہے۔
حالانکہ کورونا وائرس سے پیدا صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے، فطرت انسانیت کا امتحان بار بار لے چکی ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ مہلک بیماریاں پھوٹ پڑنے سے عالمی سطح پر کئی بار بھاری تباہیاں ہوئی ہیں یہاں تک کہ کئی بار ان تباہ کاریوں نے انسانوں کی تاریخ ہی بدل ڈالی ہے اورتہذیبوں تک کو نیست و نابود کیا ہے۔محض ایک صدی قبل 1918سے1920تک دنیا میں ایک ایسی بیماری پھوٹ پڑی جس نے تاریخی حوالوں کے مطابق کم و بیش دنیا کے500ملین لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔’اسپینش فلو‘ نامی اس بیماری کی وجہ سے جنوبی سمندروں سے قطب شمالی تک موت کا تانڈو پھیل گیا یہاں تک کہ سماج کے کئی چھوٹے طبقے صفحہ ہستی سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مٹ گئے۔’اسپین‘ کا نام ملنے کے باوجود مذکورہ فلو اسپین سے شروع نہیں ہواتھا۔اسپین پہلی جنگ عظیم کے دوران ایک غیر جانبدار ملک رہا جہاں میڈیا پر کوئی خاص پابندی عائد نہیں تھی۔اس صحافتی آزادی کے طفیل اسپین کے ذرائع ابلاغ میں فلو میں مبتلاء افراد کی خبریں متواتر اور تفصیل کے ساتھ چھپ رہی تھیں جس کے نتیجے میں یہ غلط تاثر پیدا ہوا کہ بیماری اسپین تک ہی محدود ہے اور اسی لئے اس کو ’ اسپینش فلو‘ کے نام سے موسوم کیا جانے لگا۔
اس سے قبل1770سے1772تک دنیا نے ’روسی وبا ‘ کا مشاہدہ کیا۔اس وباء نے ماسکو شہر کو ہی تباہ کرکے رکھ دیا یہاں تک کہ قرنطین میں بیٹھے لوگ تشدد پر اُتر آئے۔یہی تشدد بڑھتے بڑھتے فساد بن گیا جس کے دوران ایک ایسے پادری، جو لوگوں کو عبادت کیلئے جمع ہونے سے باز رہنے کی تلقین کررہا تھا، کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا۔حکمرانوں کیلئے ماسکو میں وباء پر قابو پانا اس قدر مشکل ہوا کہ اُنہوں نے کارخانوں کو ہی ماسکو سے باہر منتقل کیا۔جب تک ’روسی وباء ‘ پر قابو پایا گیا تب تک صرف ماسکو اور اس کے گرد و نواح میں اس نے ایک لاکھ نفوس کو اپنا نوالہ بنالیا تھا۔
1346سے1353تک ’بلیک ڈیتھ‘ نامی بیماری نے ایشیا سے یورپ کا سفر کرکے بربادی مچائی۔بعض محتاط اندازوں کے مطابق ’بلیک ڈیتھ‘ نے یورپ کی آدھی آبادی کو نیست و نابود کردیا جہاں مہلوکین کو اجتماعی قبروں کے اندر سپرد خاک کرنا پڑا۔اس وباء نے یورپی تاریخ کا رُخ ہی تبدیل کیا ۔ تحقیق کے مطابق بعد ازاں بھاری ہلاکتوں کے پیش نظر بہت قلیل تعداد میں زندہ بچنے والے مزدوروں اور کامگاروں کو بہتر اُجرت ملنے لگی۔  
ہر دور میں انسانی دنیا کو مہلک بیماریوں اور آفات سماوی کا سامنا کرنا پڑاہے اور ہر ایسی صورتحال کے آخرمیں انسان ہی فتحیاب ہوا ہے۔معلوم تاریخ میں نہ جانے کتنی بیماریاں پھیلیں اور کتنوں کو اپنا تر نوالہ بنایا، نہ جانے کتنے سیلاب آئے اور شہر کے شہر اپنے ساتھ بہا کرلے گئے،کتنی آندھیاں اُٹھیں اور سب کوخاموش کرکے بیٹھ گئیں، کتنے طوفان آئے اور بے شمار لوگوں کو زد میں لاکر اُن کا کام تمام کیا،لیکن ہر وباء، ہر بیماری، ہر سیلاب، ہر آندھی اور ہر طوفان کے بعد جب مؤرخ ،تاریخ رقم کرنے بیٹھ گیا تو اُس نے انسان کو ہی فاتح قرار دیا ،کیونکہ ہر بارتاریخ رقم کرتے وقت اُسے تباہیوں کے صرف نشان نظر آئے، مگر انسان ہر دور کے مؤرخ کے سامنے ہمیشہ سر اٹھائے موجودرہا ہے۔دنیا پر آن پڑی موجودہ آفت بھی ٹل جائے گی،بس ان ایام کے ستم اور اہل ستم کی سرگرمیاں دہرائی جائیں گی!۔