دُنیائے شعر و ادب میں شاعر مشرق علامہ اقبال ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کی شاعری مذہب، فلسفہ، تصوف اور سیاست کے دائرے کے گرد گھومتی ہے۔اُن کے حساس دل و دماغ کی بدولت اُن کی شاعری ’زندہ شاعری‘ کا درجہ رکھتی ہے۔جس نے مسلمانوں میں انقلابی روح پھونک دی اوراسلامی عظمت کو اُجاگر کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری مشعل راہ کا کام دیتی ہے۔جس کشادگیٔ دل،نور اور تجلیات خداوندی سے آراستہ ہونے کی تلقین اُنھوں نے اپنی شاعری میں کی ہے؛ اُس کا واحد راستہ اقبال کے نزدیک اُسوہ نبیؐ کی اطاعت ہے۔اسی حب رسولؐ کی وجہ سے اُن کی شاعری میں ہمیں سوز و گداز اور شگفتگی و وارفتگی کا احساس ہوتا ہے۔ اُن کا مطالعۂ اسلام و قرآن خوب ہے۔اُنھوں نے اپنی شاعری میں آیات قرآنی کو جگہ دی ہے۔اُن کا اس بات پر ایمان بھی ہے کہ اگر ہمیں مکارم الاخلاق سے آراستہ ہونا ہے تو اتباع رسول ؐ شرط اول ہے۔وہ نبی کریم ؐکی ذات کو ہی عشق و مستی کا اول و آخرمرحلہ مانتے تھے۔ اُن کی شاعری کا جوہر اور لب لباب عشق رسولؐ و اطاعت رسول ؐ ہے۔ غرض اقبال ایک مرد مومن، شاہین صفت،خوددار،مصلح قوم، غمخوار اُمت مسلمہ اور ایک جمہوریت پسند انسان تھے۔بے شک وہ ایک ایسی عظیم ہستی تھی جو صدیوں کے انتظار کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ ایک رباعی جو اُنھوں نے اپنے لیے کہی ؎
سرود رفتہ باز آید کہ نہ آید
نسیمے از حجاز آید کہ نہ آید
سرآمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ نہ آید
علامہ اقبال کی نظم ’’ذوق و شوق‘‘ عشق رسول ؐ کے حوالے سے انتہائی رفیع اور پاکیزہ نظم ہے،جس میں اُنھوں نے عشق رسولؐ کا اظہار جوش وجذبے اور خلوص بیکراں سے کیا ہے۔ اس نظم میںعشق ِ رسول ؐ کو موضوع بنا کر اُمت مسلمہ کو اُن کے شاندار ماضی اور اسلام کی اُن عظیم ہستیوں کے بے مثال کارنامے بھی بیان کیے گئے ہیںجنھوں نے دینی و دنیوی اعتبار سے کسی کارنامے کو انجام دینے کے لیے جذبہ ٔ عشق سے خود کوسرشارکیا تھا۔
اس نظم میں کہا گیا ہے کہ انسان قدرت کی تخلیق کردہ رنگا رنگ کائنات اور اِس کے وجود کا راز جان سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے شوق ِ نگاہ کو شریک بینائی ٹھہرانا لازم ہے۔کیوں کہ انسان جو کچھ اپنی ظاہری آنکھ سے دیکھتا ہے وہ سب اس کائنا ت کا ظاہر روپ ہے، لیکن کائنات کو اگر بے حجاب دیکھنا ہو تو اپنے دل میں وہ شوق و ذوق اور وہ جذبۂ عشق پیدا کرنا ہوگا جس سے کائنات کا ہر پردہ ٔ وجود چاک ہوسکتا ہے۔ مذکورہ نظم کے اکثر اشعار فلسطین میں لکھے گئے ہیںجس سے علامہ کا اُس سر زمین سے والہانہ محبت اور عقیدت کا ثبوت ملتا ہے۔ علامہ نے فلسطین کے اُ س ریگستان کی منظر کشی کی ہے جہاں حق اور باطل کے مابین معرکہ آرئیاں ہوئیں، جن میں باطل کو شکست اور حق کو کامرانی و کامیابی ملی۔علامہ یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتے ہیںکہ اس ریگستان سے نہ جانے بہادر و دلیر مسلمانوں کے کتنے کارواں گذرے ہوں گے جنھوں نے دین اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنی قیمتی جانیں نچھاور کر دیں ہیں اور اس بات کا پختہ ثبوت دیا کہ اُن کے دل عشق خدا ور عشق رسول ﷺ سے سرشار ہیں۔علامہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگر ماضی میں ہم نے باطل کے خلاف جنگیں جیت لی ہیں تو دور حاضر میں باطل ہم پر کیوں غالب آرہا ہے؟ کیوں اُمت مسلمہ روز بہ روز ابتر ہوتی جارہی ہے؟اس بے بسی کی کیا وجہ ہے؟آج ہم سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ فسطائی قوتیں سیاسی طاقت کے بل پر ہر سو مسلمانوں پر حملہ زن ہیں اور مسلم اقلیت پر آفتیں آن پڑی ہیں۔ مسلمانوں پر طرح طرح سے سب سے بڑے ’’جمہوری ملک ‘‘می ہر سمت جان لیوا حملے ہورہے ہیں۔ کبھی مذہبی اعمال واشغال پرپابندیاں عائد کی جاتی ہیں، کبھی مسجدوں کو منہدم کرنے کی دھمکیاں ملتی ہیں،کبھی جبر و ظلم کے ذریعے دل آزار اور روح فرسا نعرہ لگوانے کا آدیش ملتا ہے ، کبھی گائے ماتا کے ’’ پر یم اورآدر ‘‘ میں محمد اخلاق اور پہلو خان کو قتل ہونا پڑتا ہے۔ مسلمانوں کے رہے سہے مذہبی تشخص کو مٹانے کے لئے اب مسلم پر سنل لاء کے خلاف اتنا کچھ بکاجارہاہے کہ سن سن کر کان کے پر دے پھٹ رہے ہیں اور ’’یکساں سول کوڈ‘‘ کے مجوزہ نفاذ پر مسلمانوں کو رگیدا جارہاہے ، اس کی آڑ میں شر یعت اسلامی کو بلا وجہ گھسیٹتے ہوئے سہ طلاق کاہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے اور تاثر یہ دیا جارہاہے جیسے ہندوؤں کے یہاں عورت ’’ستی ساوتری بن کر سورگ میں رہ ہی ہے ‘‘ مسلمانوں کا قانون ِشریعہ ختم کر کے مسلم خواتین کو بھی یہی سورگ بخشا جائے۔ یہ محض مسلمانوں کو سیاسی طور بے زور کر نے کے بعد ان کے تشخص کو تحلیل کر نے کا خون خوار مشن ہے جو کسی صورت اقلیت کے درد کا درمان ہے ہی نہیں!!! علامہ نے اپنے زمانے میںمسلمانوں کے اس اہم مسئلے کا تجزیہ خون کے آنسو رورو کر کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ صورت حال اغیار سے زیادہ خود کلمہ خوانوں کی اپنی غفلتوں کی رہین ِ منت ہے اور آج بھی اپنی بے بسی و لاچاری اور مظلومیت ومحکومیت کے لیے دور جدید کے مسلمان خود ذمہ دار ہیںکیوں کہ اُمت مسلمہ میں خود مذہبی انتشار اور مسلکی تقسیم پائی جاتی ہے، ملی اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے اور آپسی منافرت کا بازار گرم ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُمت مسلمہ پر باطل کا ہر کوئی کارندہ بہ آسانی غالب آجاتا ہے۔علامہ اقبال اُمت کو اس مذہبی انتشار کو دور کرنے کے خواہاں ہیں۔ساتھ ہی اس انتشار سے پھیلنے والے بے بنیاد اور فرسودہ عقائد سے اُمت کو باخبر بھی کرتے ہیں۔وہ چاہتے ہیںکہ اُمت میں پھر سے وہی جذبہ ٔ عشق پیدا ہو ، وہی بہادری اور دلیری کا مظاہرہ ہو تاکہ طوفانوں میں اُمت کی بھٹکتی ناؤ کنارے لگ جائے۔ آج پوری اُمت مسلمہ خصوصاً مسلمانان ہند گہری نیند میں سوئی ہوئی ہے ۔ہر کسی کے دل میںمادیت اور دنیا کی محبت اس قدر پیدا ہوچکی ہے کہ اُمت دن بہ دن اپنا وقار کھوتی ہوئی نظر آرہی ہے ؎
کیا نہیں اور غزنوی کارگہ ِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات
’’ذوق وشوق ‘‘ کے زیر عنوان نظم میں علامہ یہ بات بھی ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں کہ بے شک جدید علومِ انسان کو دنیوی اعتبار سے ترقی و فلاح کی بلندیوں پر لے جاسکتا ہے لیکن جس علم میںذوق اور جذبہ ٔ عشقِ رسول ؐ کا سرے سے ہی فقدان ہو اُس علم سے اخلاقی درس کی اُمید رکھنا بے سود ہے۔ اس حوالے سے علامہ کو شکوہ ہے کہ مغرب کی اندھی تقلید نے اُمت مسلمہ کو اُن کے حقیقی مقاصدِ زندگی سے بھٹکایا اور بے گانہ کای ہواہے۔ مغربیت ظاہری طور پرانسان کو سامان ِ تعیش تو دے سکتی ہے لیکن مردہ دلی اور بے ضمیری کا خطرہ ہر وقت اسے لاحق رہتاہے۔ موجودہ دور کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ مغربی علوم و سائنس کے خیر سے زیادہ شر سے ہم آلودہ ہوتے جارہے ہیں۔اس وقت مغربیت اُمت مسلمہ کے دلوں کی گہرائیوں اور اسلامی معاشرے کی جڑوں تک سرایت کر چکی ہے اور تقریباً سارے اخلاقی اصول اور قدریں اپنے ساتھ بہا لے چکی ہے لیکن اُمت ابھی بھی غفلت کی نیند سوکر سکون اور خواب راحت محسوس کر رہی ہے۔مغربی تہذیب کی تاثیر و تسخیر اور قوت نے اُمت مسلمہ کو روحانی طورپر معذور کر دیا ہے جس سے مسلمانوں میںقوت ایمانی اور خود اعتمادی کا فقدان پایا جارہا ہے۔موجودہ دور میں مغربی تہذیب ہزار حلیہ و فریب کے ساتھ بغیر کسی مروت و رعایت کے ہم پر مسلط ہو رہی ہے۔اس وقت ہزاروں سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی قوتیں اُمت مسلمہ کے دروازے پر دستک دے رہی ہیںلیکن اگر ایسی قوتوں کے سامنے اُمت ہتھیار ڈال دے گی تو اس اختلاط و مقابلہ کے نتیجے میں اُمت مسلمہ نہ صرف اپنی روایتی شکل کھو دی گی بلکہ روحانی جڑوں اور سرشتوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ سادگی و جفاکشی، مردانگی و شہ سواری، بلند ہمتی اور حوصلہ مندی کی وہ ساری صفات ناپید ہو گئیں جو مسلمانوں کی اہم خصوصیات میں گردانی جاتی ہیں۔اب اس سلسلے میںاُمت مسلمہ کو اتحاد و اتفاق سے کام لینا ہوگا اور مغربیت کی کالی گھٹاؤں سے پوری اُمت کو بچنا ہوگا ۔ بد قسمتی یہ ہے کہ بعض حضرات اپنی درویشی کا دھندا چلانے کے لئے اور وقت کی جابر قوتوں کی کاسہ لیسی میں مسلمانوں کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر عمل وعدل کا پیمبر اور جہد و فعالیت کا علم بردار بننے کے بجائے دنیا سے کٹ کر صرف اللہ ا للہ کے ورد میں مصروف ہونے کا ’’درس ِ قلندرانہ‘‘ دے رہے ہیں،جس سے باطل کی رونقیں بڑھ جاتی ہے اور مسلمانوں کے قلوب واذہان جوش و جذبہ سے خالی پڑجاتے ہیں۔اگر صرف ترک دینا اور مزاج خانقاہی ہی اسلام کا مقصود ہوتا تو آںحضور ؐ غار حرا سے نکل کر کیوں تبلیغ ِ حق ، استیصال ناحق، مہاجرت ومشکلات ،غزوات ومہمات اور خانگی زندگی سے لے کر ایوانِ حکومت وعدالت تک ہر جگہ اتنے غیر معمولی انداز میں متحرک و فعال ہوتے؟ آپ ؐ ہمیں ہر شعبہ ٔ حیات میں ایمان اور صالحیت کے ساتھ بذات خود شریک ہونے کا پیغام کیوں دیتے؟ دین اسلام کی سر بلندی کے لیے اُمت مسلمہ کو عبادت اور قیادت کا حق ہر حال میںادا کرناہوگا اور اس کے لئے اسوہ ٔ حسنہ کے توسط سے عشق رسول ؐ کا جذبہ ٔ صادقہ دل میں موجزن ہونا شرط اول ہے ۔
جلوتیان ِ مدرسہ کور نگاہ ومردہ ذوق
جلوتیان ِ مے کدہ کم طلب و تہی کدو
علامہ اقبال اُمت مسلمہ کے لیے تا دم حیات فکر مند رہے جو کہ اُن کی شعرو کلام ا ور عملی زندگی سے صاف ظاہر ہوتاہے۔ علامہ خود اس بات کا دعو یٰ کرتے ہیں کہ اُن کی شاعری کا مقصد تفریح ِ طبع یا وقت گذاری نہیں ہے ، نہ وہ کوئی قوال ا ور غزل خواہ ہیں بلکہ ان کے شعرو سخن میں اُن لوگوں کے لیے سبق ہے جو غلط عقائد اور اعمال کے پیچھے بھاگ بھاگ کر اپنے ماضی حال ا ور مستقبل کو بھول چکے ہیں اور دنیا کے لذات میںکھو چکے ہیں۔ مسلمانوں کی زبوں حالی اور اُن کے گرتے ہوئے اخلاقیات کو بچانے کی غرض سے علامہ نے اپنی شاعری میں عشق رسول صلعم کی روح پھونک دی اور اس تعمیری جذبے کو پیش کیا تاکہ مسلمانوں میں پھر سے وہی جوش و جذبہ اُبھر آئے جس کے بل پر انہوں نے دنیا کو سنوار ۔ان کے نالہ ٔ دل کا ماحصل کیاہے ؎
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگذشت کھوئے ہوؤں کی جستجو
زیر مطالعہ نظم میں علامہ نے اسلام کی چند عظیم ہستیوں کا ذکر بھی کیا ہے جنھیں اسلام کی تاریخ میں نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔علامہ نے ایران اور ترکی کے رعب دار اور با عظمت بادشاہ یعنی سنجر اور سلیم کے رعب و دبدبہ کا ذکر کیا ہے کیوں کہ وہ بادشاہت میں بھی اتباع رسول ؐ کو بھولا نہیں تھا ۔اُنھوں نے حضرت جنید بغدادیؒ اور بایزید بسطامی ؒکا ذکر بھی کیا جنھوں نے اللہ اور اُس کے رسول ؐ کاعشق دل میں بسالیا اور اپنی زندگی کو ا سوۂ ؐرسولؐ ؐکے عین مطابق عملاً گذار کر دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کر دی ۔جب سنجر و سلیم میں رسول ؐکے جلال کی نمود ممکن ہے اور جنید ؒو با یزید بسطامی ؒکے فقر میں رسول ؐکا جمال ِ وجلال ممکن ہے تو دور جدید میں اُمت مسلمہ میں اس طرح کے جلال و جمال سے تہی دامن کیسے رہ سکتے ہیں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ اُمت مسلمہ کے دلوں سے عشق رسول ؐ کی بجائے مغربیت اور دنیا داری بس چکی ہے جس نے اُن کی روحانیت اور قوت ایمانی کے جڑوں کو جکڑ رکھا ہے ؎
شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنید و بایزید تیرا جمال ِ بے نقاب
علامہ مذکورہ نظم میں یہ بات ذہن نشین کراتے ہیں کہ عشق رسول ﷺ سے ہی اُمت مسلمہ کے دلوں میں پھر سے جس مسلمان کا دل عشق رسول ؐ سے سرشار ہو اورجس کی زندگی کا لب لباب اطاعت رسول ؐ ہو تو وہ لافانی و لا زوال بلندیوں کی جانب لازماً پرواز کر ے گا اور جو کوئی نری عقل پر بھروسہ کرے اور عشق کا سان گما ن بھی نہ رکھا ہو ،وہ فتنہ پردازی اور خرابی ٔ عقائد کی گھٹاؤں میں اَٹا رہے گا۔ اگر اُمت مسلمہ اپنے روشن ماضی کااعادہ چاہتی ہے تو اُسے چاہیے کہ اپنی تمام تر پونجی اسوہ ٔ حسنہ کے توسط سے عشق رسولؐ میں خرچ کر دے۔دور جدید میں اُمت مسلمہ میں اس عشق اور جذبے کی بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ان میں بہ حیثیت مجموعی دنیوی لذتوں کی محبت اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ وہ خواب غفلت میں محو ہیں جب کہ مغربیت کے پیروکار اور اسلام دُشمنی پر جانثار ان کے پیچھے پڑ کر اُمت مسلمہ کو جڑ سے اکھاڑنے میں لگے ہیں۔اگر موجودہ دور میں اُمت مسلمہ کا دل اوردماغ عشق رسول ؐ سے سرشار ہوجائے تو اُمت مسلمہ خصوصاً اورمسلمانانِ ہند عموماًبے بسی اور لا چاری کے دلدل سے نکل باہر آکر اپنا جود پھر سے منواسکیں گے۔آج جوچومکھی حملے مسلمانوں پر ہورہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے اندر عشق رسول ؐ کے حوالے سے خالی پن ہے جس کے سبب ہم میں قوتِ ایمانی، خوداعتمادی، بلند ہمتی اور حوصلہ مندی میں کمی آئی ہے۔
تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفیؐ، عقل تمام بو لہب
بہر کیف ’’ذوق وشوق‘‘ میں دور جدید کی اُمت مسلمہ کی بد حالی کا بھی ذکر ہے اور اُس بد حالی اور بے بسی کے اسبا ب وعلل بیان ہونے کے ساتھ اس کا علاج بھی تجویز کیا گیا ہے۔چناں چہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان مادہ پرست تہذی کے پرچارک مبالغے کی حدیں پھاند کر حریت ، جمہوریت اور مساوات کا کھوکھلانعرہ بلند کر رہی ہیں تاکہ انہی بھول بھلیوں میںبھٹک کر مسلمان اپنی شناخت اور ایمان کی ا صلیت یعنی اسوہ ٔ حسنہؐ کی لافانی دولت سے محروم رہے۔اس مقصد کے لئے اُمت مسلمہ میں تفرقہ ،نفر ت اور بدظنی پیدا کی جارہی ہے جو مل کر اُمت مسلمہ میں انتشار پھیلانے والوں کو مزید تقویت پہنچاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان ایک دوسرے سے بچھڑے ہوئے ہیں ، وہ افتراقات میں پڑے ہوئے ہیں ، سیاسی و سماجی مسائل پر جنگ و جدل ، زور آزمائیاں اور رسہ کشیاں روروںپر ہیں۔اسلام مخالف پروپیگنڈا ہورہے ہیں اور اسلام مخالف تحریکات اور نظریات اسلامی معاشرے میں داخل ہوتے جارہے ہیں۔ بہر کیف اقبالی فکر یہی پیغام مسلمانوں کو دیتاہے کہ اس ناخوشگوار صورت حال کے ازالے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اُمت مسلمہ عرب وعجم میں عشق رسول ؐ کی اساس پرایمان و یقین،اخلاقی قوت،استقامت،خود اعتمادی اور خود داری کا جذبہ پیدا کرے۔ یہ ہو اتو ملت اسلامیہ میں فکری استقلال،بلند ہمتی اوراولوالعزمی پیدا ہوگی اور احیائے اسلام کا پر چم دنیا میں ایمان اور نیک عملی کے سائے میں جابجا بلند ہوتا رہے گا۔
رابطہ :ریسرچ اسکالر، یونی ور سٹی آف حیدرآباد
فون9107348147
ای میل[email protected]