اسمبلی اجلاس………..مثبت فکر وعمل کی ضرورت !

 ریاستی اسمبلی کا بجٹ اجلاس آج جموں میں شروع ہو رہا ہے اور عام روایت کے مطابق اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے حکمران اتحاد کو گھیرنے کی ہر ممکن کوشش ہوگی، کیونکہ حکمرانوں کی جانب سے اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے وقت ضرور ایسی حرکات سرزد ہوتی رہتی ہیں، جو عوامی مزاج اور مفادات سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں یا پھر انہیں زک پہنچاتی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ سال2016اور2017میں وادی کشمیر کے اندر جوحالات بنے رہے ہیں اور اسکے دوران حالات کو قابو میں کرنے کےلئے جو پالیسی اختیار کی گئی، اسکے نتیجے میں شہری ہلاکتوں اور پیلٹ سے متاثر ہونے اور داروگیر و کرفیو اور قدغنوں کے واقعات پیش آئے ہیں، اور جو جانی اور اقتصادی نقصانات کا سبب بن گئے ہیں اُس پر اسمبلی کے اندر ہنگامہ آرائی کے اندیشے سے انکار نہیںکیا جاسکتا ۔ گزشتہ ماہ ایس آر او 520اور 525کے اجراء کے بعد کے حالات بھی ضرور زیر بحث آئینگے۔ حکومت نے 60ہزار عارضی ملازمین کی ملازمتیں مستقل بنانے کےلئے احکامات تو صادر کرد یئے لیکن ان میں پبلک سیکٹر انڈرٹینکنگ اور لوکل باڑیز جیسے اداروں کے کیجول ملازمین کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، جس پر ملازم انجمنیں برہم ہیں۔ اس کے بعد ہی ایس آر او 525کے ذریعہ سرکاری ملازمین کے سوشل میڈیا کے استعمال پر قدغنیں عائد کئے جانے سے ایک اور بوال مچ گیا ہے، جس پر ریاست کی اپوزیشن سیاسی جماعوں کے ساتھ ساتھ ملازم انجمنیں اور مزاحمتی خیمہ برہم ہیں اور سبھی اسے ملازمین کے انسانی اور بنیادی حقوق پر شب خون کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین کافی عرصہ سے ساتویں تنخواہ کمیشن کی سفارشات کے اطلاق کے بھی منتظر ہیں، لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں ہوا۔ اب اگر چہ اس سلسلے میں مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق حکومت نے من بنا لیا ہے، لیکن کیا کچھ سامنے آئے گا، وہ ضرور قانون سازیہ میں بحث و مباحثہ کا باعث بن جائیگا۔ حالیہ ایام میں حکومت نے سنگبازوں کی معافی کے حوالے سے جو اقدامات کئے ہیں، وہ اُس مجموعی پالیسی کے تناظر میں زیر بحث آنے کا قوی  امکان ہے، جو آپریشن آل آئوٹ کے اردگرد گھومتی ہے۔ اسی طرح مرکزی حکومت کی جانب سے مذاکرات کار کی تعیناتی، انکے دائرہ اختیار اور ریاست کے دوروں کے دوران ان کی سرگرمیاں موضوع بحث بن سکتی ہیں۔ یہ اور ایسے کئی معاملات ہیں ، جن پر حکمران اتحاد اور اپوزیشن کے درمیان ٹکرائو کے واضح امکانات موجود ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہ بات دیکھنے کو ملی ہے کہ اسمبلی اجلاس کے دوران ٹکرائو کی پالیسی کی وجہ سے بالآخر عوام مفادات کے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے حالات کے بعد اسمبلی کا موجودہ اجلاس منعقد ہا رہا ہے، لہٰذا تقاضائے وقت ہے کہ اس اجلاس کو عام لوگوں، اور خاص کر جو گزشتہ چھ ماہ کے دوان براہ راست یا باالواسطہ متاثر ہوئے ہیں، کے دکھ درد کو کم کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔ ظاہر بات ہے کہ اسکی کلید حکمران اتحاد کے پاس ہے کہ وہ ایسی تجاویز لیکر سامنے آئے جو عوام کی خواہشات کے مطابقت رکھتے ہوں اور جو عام لوگوں کو درپیش مشکلات میں تخفیف کا سبب بن سکیں۔ ایسی حالت میں اپوزیشن کیلئے بھی مثبت رول ادا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہیگا۔ لیکن اگر حکمران اپنے ماضی کی کارکردگی، جو ظاہر ہے کئی معاملات میں متنازع رہی ہے، کو صحیح ثابت کرنے کو ہی اپنا نصب العین بنانے کا فیصلہ کریں تو اپوزیشن کی طرف سے خاموشی اختیار کرنے کی توقع رکھنا عبث ہے۔ فی الوقت حکومت کیلئے وادیٔ کشمیر کے اندر گزشتہ برس کے دوران حکومتی اداروں کی جانب سے ہوئی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش اپنی ترجیحات میں شامل ہونی چاہئے، تاکہ عوام کا وہ اعتماد قدرے بحال ہوسکے ، جو بُری طرح متزلزل ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ جی ایس ٹی کے اطلاق سے تاجر وصنعتکار طبقہ کو جو نقصانات اُٹھانے پڑے ہیں انکا ازالہ کرنے کی راہ نکالی جائے۔سال 2017ختم ہوا ہے اور اپنے پیچھے تباہی اور بُربادی کی ایک خونین داستان چھوڑ چکا ہے، لہٰذا سال2018کی آمد ایک نوید کی صورت ہونی چاہئے، جس کے لئے حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کو سنجیدگی اور دیانت کے ساتھ کام کرنا ہوگا اور اس کے لئے اسمبلی کاموجودہ اجلاس ایک بہترین پلیٹ فارم ثابت ہوسکتا ہے۔