اسلام میں تعلیم وتعلم کا تصور ۔۔۔۔۔قسط 2

(1)نرمی اور شفقت کا سلوک کرنا:
استاد کو چاہئے کہ وہ اپنے شاگردوں سے نرمی اور شفقت کا برتاو کرے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ کا عملی نمونہ ہمارے سامنے موجود ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:’’اللہ تعالی کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے‘‘(سورۃ آل عمران آیت:159)۔لہذا استاد اپنے شاگردوں کے لئے نرمی کا پہلو اختیار کرے اور نبی اکرم  ﷺ کا یہ فرمان بھی اپنائے:’’آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور خوش کرو اور نفرت نہ دلاؤ‘‘(صحیح البخاري کتاب العلم باب ماکان النبی ﷺ یتخولہم بالموعظۃ والعلم کي لا ینفروا۔ح:69)اس بنا پر استاد کو اپنے شاگرد کے سر پر دست شفقت رکھنا چاہئے اور ان کے ساتھ بردباری سے پیش آنا چاہئے۔استاد علم وعمل کے ساتھ ساتھ عمر و تجربہ میں بھی اپنے شاگردوں سے آگے ہوتا ہے اس مناسبت سے بھی استاد کی یہ ذمداری بن جاتی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں سے رحمت و شفقت کا معاملہ کر کے ان کی تربیت کریں۔اللہ کے رسول  ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی توقیر و تعظیم نہ کرے‘‘(سنن الترمزي أبواب البر والصلۃ،باب ما جاء في رحمۃ الصبیان،ح:1919)۔
(2)زبان کی حفاظت کرنا:
ہرمسلمان پرزندگی کے جملہ مراحل اور شعبہ جات میں لازم ہے کہ وہ زبان کی حفاظت کرے اور اسے ناجائز اور نامناسب باتوں سے بچائے رکھے۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:(مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِفَلْیَقُلْ خَیْرًا اَوْلِیَصْمُتْ)’’جو شخص اللہ اور روزآخرت پر ایمان  رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے‘‘ (صحیح البخاري کتاب الأدب، باب من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلا یؤذ جارہ۔ح:6018)۔بعض دفعہ انسان کی زبان سے ایسا کلمہ ٔ شر ادا ہوجاتا ہے کہ اُسے اس کی تباہ کاری کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔کبھی اس کی کوئی بات کسی کی دل آزاری یا گمراہی یا ظلم و معصیت کا سبب بن جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ انسان تباہی کے گڑھے میں گرجاتا ہے۔چونکہ استاد اپنے شاگردوں کے لئے نمونہ اور اسوہ ہوتا ہے اس لئے استاد کو چاہئے کہ اپنی گفتگو کو  محتاط اور متوازن بنائے اور زبان کے ذریعے سے جن گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے ان سے اپنے دامن تعلیم و تعلم کا بچائیں اور ایسے  بیہودہ اور غیر شائستہ الفاظ کا استعمال نہ کریں جن سے طلباء میں استاد کا رعب اور احترام کم ہونے کے ساتھ طلباء میں بھی زبان کی عدم حفاظت کا عنصر پیدا ہو جائے۔استاد کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری زبان کی حفاظت ہے۔جس طرح اللہ کے رسول ﷺ کا نمونہ ہمارے سامنے موجود ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’رسول اللہ ﷺ نہ بد گو تھے نہ بد زبانی کرتے تھے ۔بلکہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘ (صحیح البخاري کتاب الأدب، باب حسن الخلق السخاء وما سکرہ من البخل۔ح:6035)۔
(3) علم میں بخل نہ کرنا:
 استاد پر شاگردوں کے حقوق میں ایک حق یہ بھی ہے کہ جس چیز کے حصول کے لئے طالب علم استاد کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں استاد وہ چیز دینے میں بخل نہ کریں۔یعنی طلبا کو علم کے نور سے آراستہ کرنے کا جذبہ پیدا کرے۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:’’جس شخص سے علم کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہو پھر اسے چھپالے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام دی جائے گی‘‘(سنن الترمزي أبواب العلم،باب ما جاء في کتمان العلم،ح:2649)۔علم رسانی کے سلسلے میں صرف جذبہ کافی نہیں بلکہ اس کے لئے مزید باتیں ضروری ہیں۔استاد کے لئے ضروری ہے کہ جو سبق اور مضمون طلباء کو پڑھانا ہو استاد کو اس پر کامل عبور حاصل ہو ۔اس مضمون کے متعلق طالب علم کے ذہن میں جو بھی اشکال یا سوال آسکتا ہو اس کا حل استاد کے پاس موجود ہو۔
(4)اندازتعلّم وتدریس آسان کرنا: 
اللہ تعالی نے جب حضرت موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرعون کی طرف جا اس نے بڑی سرکشی مچا رکھی ہے۔حتی کہ اس نے دعوی کیا تھا کہ ’میں بلند تر رب ہوں‘۔تو موسی علیہ السلام نے کہا ! اے میرے رب میرا سینہ میرے لئے کھول دے،اور میرے کام کو مجھ پر آسان کردے،اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں۔ الفاظ پر اگر غور کیا جائے تو موسی علیہ السلام نے اللہ رب العالمین سے جو گزارشات کی ان میں ایک گزارش یہ تھی کہ ’میری زبان کی گرہ بھی کھول دے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں‘۔معلوم ہوا کہ کامیاب داعی و معلم کی صفات میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کو اپنی بات سمجھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔استاد کو بھی چاہئے کہ اس کا اندازِ تدریس اور اسلوب تعلیم ایسا ہو کہ وہ طلباء کو اپنی بات سمجھا سکیں۔ایسے اسلوب اور انداز سے گریز کریں جو طلباء کے فہم اور استعداد سے بالا تر ہو۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’لوگوں سے ان کی سمجھ اور فہم کے مطابق باتیں کرو۔کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو جھٹلادیں‘‘ (صحیح البخاري کتاب العلم ، باب من خص بالعلم قوما دون قوم۔ح:127)۔منشا یہ ہے کہ ہر شخص سے اس کے فہم کے مطابق بات کرنی چاہئے اگر ایسی بات کی جائے جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہو تو ظاہر ہے کہ وہ اس کو تسلیم نہیں کریں گے۔بلکہ کبھی ان کے مبتلاء فتنہ میں ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’جب تو لوگوں سے ایسی حدیثیں (باتیں)بیان کریں جو ان کی عقل میں نہ آئیں تو بعض لوگوں کے لئے اس میں فتنہ ہوگا‘‘(صحیح المسلم ،المقدمۃ ، باب النھي عن الحدیث بکل ما سمع)۔
(5)طلباء کے حق میں نیک دعاء کرنا:
 دعاء ایک ایسی عبادت ہے جس کے لئے کوئی وقت اور دن مقرر نہیں بلکہ انسان ہر لمحہ اس عبادت کو انجام دے کر اپنے معبود برحق سے التجاء و التماس کر سکتا ہے۔دعاء کی قبولیت کے جو آداب کتاب و سنت میں وارد ہوئے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان اپنے غیر حاضر مسلمان بھائی کے حق میں دعاء کرے۔جن اشخاص کی دعاء کی قبولیت کے متعلق قرآن و سنت میں ارشاد ہوا ہے ان میں والدین کی دعاء اولاد کے حق میں بھی شامل ہے۔استاد اور شاگرد کا رشتہ والد اور بچوں جیسا ہی ہوتاہے ،لہٰذا استاد کو اپنے شاگرد کے حق میںخیر و عافیت اور توفیق ودانائی کی دعاء کرنی چاہئے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ قضائے حاجت کے لئے بیت الخلاء گئے ۔میں نے آپ ﷺ کے لئے وضو کا پانی لاکر رکھ دیا ۔جب آپ ﷺ واپس تشریف لائے تو دریافت فرمایا :پانی کس نے رکھا ہے ؟جب آپ  ﷺ کو بتایا گیا تو آپ ﷺ نے دعاء فرمائی:’’اے اللہ! اسے دین کی سمجھ دے،اے اللہ ! اسے کتاب(قرآن)کا علم عطا کر ‘‘(صحیح البخاري کتاب الوضوء، باب وضع الماء عند الخلاء۔ح:143،صحیح البخاري کتاب العلم، باب قول النبي ﷺ اللہم علمہ الکتاب۔ح:75)۔حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری والدہ نے اللہ کے رسول  ﷺ سے عرض کی کہ انس آپ کا خادم اس کے لئے دعاء فرمادیں تو نبی کریم ﷺ نے دعاء فرمائی:’’ اے اللہ ! اس (انس)کے مال و اولاد کو زیادہ کر اور جو کچھ تونے اسے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما‘‘(صحیح البخاري کتاب الدعوات، باب دعوۃ النبي ﷺ لخادمہ۔ح:6344)
(6) طلباء کی حوصلہ افزائی کرنا:
اسلام میں نیکی پر ابھارنے اور نیکی کو اختیار کرنے کی کافی ترغیب دی گئی ہے۔بلکہ اگر کوئی شخص کسی کے لئے نیکی اختیار کرنے کا سبب بن جاتا ہے تو نیکی پر ابھارنے والے کو بھی اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔حصول علم بذاتہ ایک نیک عمل ہے اورتعلیم و تعلم کے اس میدان میں بھی استاد کو چاہئے کہ طلباء کی اچھی کارگزاری اور درست جوابات دینے پر اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کی ہمت بڑھائے۔استاد کی تشجیع سے جہاں طالب علم کی حوصلہ افزائی ہوگی وہاں طالب علم میں علم و ہنر کے حصول کا جزبہ مزید پروان چڑھے گا۔ایک دفعہ اللہ کے رسول  ﷺ نے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا :کیا تجھے معلوم ہے کتاب اللہ کی سب سے عظیم آیت کونسی ہے ؟ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :آیت الکرسی ۔ بنی کریم  ﷺ نے خوش ہوکر ان کے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:’’ابو منذر تجھے علم مبارک ہو‘‘(صحیح المسلم کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل سورۃ الکہف و آیۃ الکرسي۔ح:810)۔عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ  ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کی ایک جماعت سے ایک  درخت کے متعلق سوال پوچھا کہ وہ کونسا درخت ہے جس کے پتے (کبھی)نہیں  جھڑتے ہیں تو صحابہ میں سے کسی کو اس درخت کے جواب کے متعلق علمیت نہیں تھی ۔ میرے دل میں اس درخت کے متعلق جواب آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔لیکن میرے دل میں شرم آگئی( اور میں چپ ہی رہا)تب اللہ کے رسول  ﷺ نے فرمایا کہ وہ کھجور کا پیڑ ہے۔عبد اللہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس بات کے متعلق کہا جو میرے دل میں آئی تھی تو وہ کہنے لگے(  لَاَنْْ تَکُوْنَ قُلْتَھَا اَحَبُّ إلَيَّ مِنْ اَنْ یَکُوْنَ لِيْ کَذَا وَکَذَا)’’اگر تو (اس وقت )کہدیتا تو میرے لئے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا‘‘(صحیح البخاري کتاب العلم ، باب الحیاء في العلم ۔ح:131)۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی علم و تعلم کے معاملے میں اپنے فرزند (شاگرد )کی حوصلہ افزائی فرمائی جس سے یہ واضح ہوا کہ استاد کو اپنے طلباء کی حصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
اللہ تعالی ہم سب کو بہترین اوصاف سے منور فرماکرہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
(ختم شد)