اسلامی بھائی چارہ ۔۔۔۔ قسط 2

خلوص نیت کا ہونا :  اخوت کے حقوق میں سب سے پہلا حق یہ ہے کہ انسان اپنے بھائی سے جو محبت و مودت رکھتا ہو وہ صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے ہو اس میں کوئی دنیوی غرض و غایت،لالچ اور حرص نہ ہو بلکہ یہ اخوت صرف اللہ کی خاطرہو۔ جیسا کہ   اللہ کے رسول  ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہوجائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا‘‘ان میں ایک  ( اَنْ یُحِبَّ الْمَرئَ لا یُحِبُّہُ اِلَّا لِلّٰہِ )یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لئے محبت رکھے‘‘(صحیح البخاری کتاب الاِیمان  باب حلاوۃ الِایمان  ،ح :16)۔
 اپنے بھائی کے لئے  وہی پسند کرنا جو اپنے لئے پسند  ہو:اخوت کو مضبوط اور مستحکم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرے۔اللہ کے رسول ﷺ  کا ارشاد ہے:  ’’تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہوگا جب تک اپنے بھائی کیلئے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کیلئے چاہتا ہے‘‘(صحیح البخاری کتاب الاِیمان  باب من الِایمان أن یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ  ،ح :13)۔
 اپنے بھائی کا  معاون و مددگار بننا :اللہ تعالی نے نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کی تلقین کی اور فرمایا:   ’’اورنیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو‘‘(سورۃ  المائدۃ  آیت: 2)۔نیکی اور تقوی کے کاموں میں اپنے بھائی کی مدد و نصرت بھی شامل ہے اور انسان کو ہر حال میں اپنے بھائی سے تعاون کرنا چاہئے ۔اخوت کے اس متبرک  رشتے کو مضبوط رکھنے نیز اس کو فائدہ مند بنانے کے لئے آپس میں نصرت و امداد کا جزبہ موجود رکھنا اخوت کے حقوق میں شامل ہیں ۔اللہ کے رسول  ﷺ  کا ارشاد ہے: ’’اپنے بھائی کی مدد کرچاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم‘‘ (صحیح البخاری کتاب المظالم والغصب  باب أعن اخاک ظالما أو مظلوما  ،ح :2443)۔
 اپنے بھائی پر کوئی ظلم نہ کرنا : ظلم ہر حال میں قبیح عمل ،باعث خسران اور قیامت میں اندھیری کا سبب ہے لھذا انسان کو اس ممنوع عمل سے اجتناب کرکے کسی پر ظلم نہیں کرنا چاہئے چاہے وہ ظلم کسی بھی نوعیت کا ہو ۔اخوت کے حقوق میں ایک حق یہ بھی ہے کی آپس میں ظلم کرنے سے بچاجائے اللہ کے رسول  ﷺ کا ارشاد ہے:  ’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس پر ظلم ہونے دیتا ہے۔ ‘‘(صحیح المسلم کتاب البر و الصلۃ والآداب باب تحریم الظلم  ،ح :2580)۔دوسری روایت میں فرمایا ’’ کسی مسلمان کے برُا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا  حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔‘‘(صحیح المسلم کتاب البر و الصلۃ والآداب باب تحریم الظلم المسلم ،ح :2564)۔
سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، دعوت قبول کرنا،چھینک کا جواب دینا، جنازے میں شرکت کرنا :مسلمانوں کے آپسی حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ جب دوسرا مسلمان سلام کرے تو اس کا جواب دینا،بیمار کی عیادت کرنا،جب دعوت کی جائے تو اس کو قبول کرنا،جب کوئی مسلمان چھینکیں اور الحمد للہ پڑھے تو اس کو جواب میں یرحمک اللہ کہنا اور جب کوئی مسلمان فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہونا۔ حضرت  ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول  ﷺ سے فرماتے ہوئے سنا ’’ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔سلام کا جواب دینا،( وہ بیمار ہوتو)  اس کی بیمار پرسی کرنا، اس کے جنازے میں شریک ہونا، دعوت قبول کرنا،چھینک کا جواب دینا۔‘‘(صحیح البخاری کتاب الجنائز  باب الأمر باتباع الجنائز  ،ح :1240)۔دوسری روایت میں فرمایامسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں  ( وَاِذَا اسْتَنْصَحَکَ فَانْصَحْ لَہُ )’’ جب تجھ سے خیر خواہی طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کر ‘‘(صحیح المسلم کتاب السلام  باب من حق المسلم للمسلم رد السلام ،ح :2162)۔
آداب اخوت:
قرآن اور احادیث میں اخوت کو مضبوط کرنے اور اخوت کے شیرازے کو بکھرنے سے بچانے کیلئے ایسے امور وآداب کی طرف توجہ مبذول کرکے ان امور کو اختیار کرنے کی تلقین کی گئی جن سے اخوت کا شیرازہ سیسہ پلائی دیوار کی مانند بن کر ترقی کے منازل عبور کرسکتاہے ذیل میں کچھ امور و آدب کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں۔
اپنا بھائی اور دوست مومن اور صالح بنانا : اخوت کو قائم کرنے سے پہلے یہ جاننا لازمی ہے کہ اخوت دنیا و آخرت میں کس کے ساتھ ثمرآور ثابت ہو سکتی ہے ۔نبی اکرم  ﷺ  کا ارشاد ہے:  ’’صرف مومن آدمی کی صحبت اختیار کر ‘‘(سنن أبي داودکتاب الأدب ،  باب من یُؤمر اَن یُجالس  ، ح :4832)۔
اپنے بھائی کو اپنی محبت سے باخبر کرنا :آپ جس بھائی سے محبت کرتے ہیں اس کو اس چیز سے باخبر کریں کی آپ اس سے( اللہ کی رضا کے لئے) محبت کرتے ہیں جس سے آپسی محبت میں مزید اضافہ ہوگا ۔نبی اکرم  ﷺ  کا ارشاد ہے :  ’’ جب کوئی آدمی اپنے بھائی سے محبت کرتا ہو پس اسے چاہئے کہ وہ اس (محبوب دوست)سے کہے کہ یقینا وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘(سنن أبي داود أبواب النوم،  باب اخبار الرجل الرجل بمحبتہ ایاہ  ،ح :5124)۔
آپس میں سلام عام کرنا : اللہ کے رسول  ﷺ  نے جنت میں جانے کے لئے ایمان کو بنیادی شرط قرار دے کر آپسی محبت کو ایمان کا لازمی حصہ شمار کیا اور محبت کے اعمال میں سلام کو عام کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:  ’’ آپس میں سلام بہت کیا کرو‘‘(صحیح  المسلم کتاب الاِیمان ،  باب أنہ لا یدخل الجنۃ الا المؤمنون  ،ح :54)۔
اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کے حق میں دعا کرنا: اللہ کے رسول ﷺ  کا فرمان ہے :
  ’’  مسلمان کی دعا اپنے بھائی کے لئے پیٹھ پیچھے قبول ہوتی ہے۔اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ معین ہے، جب وہ اپنے بھائی کی بہتری کی دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے آمین اور تمہیں بھی یہی ملے گا۔‘‘ (صحیح  المسلم کتاب الذکر والدعاء ،  باب فضل الدعاء للمسلمین بظھر الغیب  ،ح :2733)۔
اپنے بھائی کی ہر وقت مدد و اعانت کرنا : دنیوی زندگی میںمصائب و مشکلات کا ہونا لازمی امر ہے ۔اوران حالات میں جہاں انسان کو رجوع الی اللہ کرنے کی تعلیم دی گئی وہی دوسرے مسلمانوں کو اپنے بھائی کی مدد و اعانت میں پیش پیش رہنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:  ’’جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے ،اللہ تعالی اس کی ضرورت پوری کرے گا ۔جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے ،اللہ تعالی اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالی قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔‘‘ (صحیح  البخاري کتاب المظالم و الغصب  ،  باب لا یظلم المسلمُ المسلمَ ولا یُسلمہ  ،ح :2442)۔
اپنے بھائی کی عزت کی حفاظت اور اس کا دفاع کرنا : اسلام میںعزت کی حفاظت کی طرف خصوصی توجہ دیکر ان تمام چیزوں کو اختیار کرنے کا حکم دیاگا ہے جس سے عزت کی حفاظت ممکن ہو سکتی ہے اور ان تمام چیزوں سے اجتناب کا حکم دیا گیا جو عزت پر اثر انداز ہو کر اس کو مجروح کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنی عزت کی حفاظت تو دور اپنے بھائی کے عزت کی حفاظت کوبھی قابل قدر اور قابل رشک بنایا ہے۔اللہ کے رسول  ﷺ نے فرمایا:   ’’جس نے اپنے بھائی کے عزت کی حفاظت (دفاع)کی اللہ تعالی قیامت کے دن اس سے جہنم کا عذاب دور فرمائے گا ‘‘(سنن الترمذي أبواب البر والصلۃ  باب ماجاء في الذَّبّ عن عرض المسلم  ،ح :1931)۔
آپس میں حسن ظن رکھنا اور حسد ،بغض  سے بچنا : اسلام نے ان تمام حرکات واعمال کو حرام قرار دیکر ان سے اجتناب کا حکم دیا جن کے ارتکاب سے اخوت کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ان ہی میں سے چند اعمال کی طرف اللہ کے رسول  ﷺ نے ارشاد فرمایا:   ’’بدگمانی سے بچتے رہو ، بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی بات ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے نہ پڑو ،کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹٹولو  اور کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ اور حسد نہ کرو اور بغض نہ رکھو اور کسی کے پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘ (صحیح  البخاري کتاب الأدب  ،  باب یٰاَ یھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ۔۔ ،ح :6066)۔
ایک دوسرے کا خیرخواہ بننا : اسلام خیر خواہی کا دین ہے  اور اپنے ماننے والوں سے ہمیشہ خیرخواہی کا جزبہ اپنے اندر موجود رکھنے اور دوسروں کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنے کی تلقین کرتاہے۔حضرت تمیم  الداری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول  ﷺ نے فرمایا: ’’دین خیرخواہی کا نام ہے۔ہم نے پوچھا کس کی ؟ آپ  ﷺ نے فرمایا: اللہ کی ،اور اس کی کتاب کی،اور اس کے رسول کی،مسلمانوں کے ائمہ(حکمران)اور تمام مسلمانوں کی۔‘‘ (صحیح المسلم کتاب الاِیمان  ،  باب بیان أن الدین النصیحۃ ،ح :55)۔
 آپس میں ھدیہ دینا :آپسی محبت کو مضبوط کرنے اور باعث برکت بنانے کے لئے اسلام نے آپس میں ھدیہ اور تحفہ دینے کا پیغام دیکر ہدیہ کی اہمیت اور اس کے فوائد کی طرف توجہ مبذول فرمائی۔ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول  ﷺ نے فرمایا: ’’آپس میںھدیہ (تحفہ تحائف) دو (اس سے)آپس میں محبت بڑھے گی‘‘ ( اِ رواء الغلیل للألباني  ،  باب الھبۃ ج 6 ص44 ،ح :1601)۔
 قطع کلامی سے اجتناب کرنا : اسلام نے باہمی اختلاف سے بچنے اور اس سے نکلنے کے لئے قطع تعلق سے اجتناب کرنے کا حکم دیا۔ اللہ کے رسول  ﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کسی بھائی سے تین دن تک سے زیادہ تک بات چیت بند کرے‘‘ (صحیح البخاري کتاب الأدب  ،  باب بیان الھجرۃ  ،ح :6075 )۔
اپنے بھائی کو ہمیشہ نفع پہنچانا : انسان  ہمیشہ اس چیز کا متمنی ہونا چاہئے کہ میں دوسروں کو کیسے نفع پہنچاسکتا ۔یہ جزبہ رکھنا جہاں قابل قدر ہے وہی اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے۔اللہ کے رسول  ﷺ نے فرمایا: ’’ تم میں سے جو اپنے بھائی کو نفع پہنچانے کی طاقت رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ نفع پہنچائے۔‘‘(صحیح المسلم کتاب السلام   ،  باب استحباب الرقیۃ من العین والنملۃ ۔۔ ،ح :2199)۔
مندرجہ بالا نصوص اور دیگر نصوص شرعیہ سے جہاں اخوت کی اہمیت ثابت ہوتی ہے وہی اس کو قائم اور مستحکم رکھنے کے آداب و حقوق کا پیغام بھی ملتا ہے تاکہ مسلمان کتاب و سنت کے ان نصوص کو سمجھ کر ان کو اپنی زندگی میں نافذ العمل بنائیں اور باہمی اخوت کو ترقی کے منازل عبور کرنے کا اہم ذریعہ بنے۔اللہ رب العلمین تمام مسلمانوں کو قرآن و سنت پر عمل کی توفیق بخش کر ہماری اخوت کو مضبوط اور اجروثواب کا ذریعہ بنا کر ہماری دنیا و آخرت کو سنوارے اور ہماری اس کوشش کو نجات کا سبب بناکر ہماری اور ہمارے والدین و اساتذہ کرام کی مغفرت کا ذریعہ بنائے۔آمین یا رب العلمین۔ 
( ختم     شد )
