اسلام، بین الاقوامی میڈیا اور مسلمان!

انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ زمین پر آدم کے آتے ہی حق و باطل کی معرکہ آرائی بھی کا بھی آغاز ہوا ہے اور حق ہمیشہ سے باطل کی دشنام طرازیوں ،ستم ظریفیوں ،طعنوں اور تنقیدوں کا شکار رہا ہے۔آج سے چودہ سو سال پہلے یہودی اور عیسائی علماء حق کے بجائے حسد کی راہ میں آخری حد تک چلے گئے،انہوں نے اپنے پیرو کاروں کو نئے دین اور اُس کے نبی ؐ کے خلاف جھوٹے اور مکروہ پروپیگنڈے کرکے خوب بھڑکایا یہاں تک کہ خوفناک جنگوں تک بات جا پہنچی ۔آج بھی تمام اسلام دشمن طاقتیں بیدار ہیں اور اس دینِ حق کے در پے ہیں۔پورا بین الاقوامی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسرپیکاردکھائی دے رہا ہے۔کروڑوں ڈالر صرَف کرکے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے میں ہمہ تن مشغول ہیں۔ریڈیو ،ٹی وی اور دیگرذرائع ابلاغ کے سہارےجہاں مسلمانوں کو بنیاد پرست کے اعزاز سے نوازا جاتا ہے وہیں دہشت گرد کا لقب بھی دیا جارہا ہےاور اس طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاکر جہاں اُن کا خون بہایا جارہا ہے وہیں اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا جاریا ہے،جبکہ مصر،شام ،عراق ،فلسطین ،لبنان وغیرہ میں کراوئے جارہے قتل ِ عام کے المناک مناظرروزانہ دنیا کے سامنےآرہے ہیں۔بے شک دین کے معاملے جب تک ایک مسلمان اسلام کے بنیادی اصولوں پر شدت سے قائم نہیں رہتا تب تک وہ ایک صحیح مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ،اس لحاظ سےاگر اُسے بنیاد پرست کہا جائے تو اس میں مسلمان کوئی ندامت یا شرم محسوس نہیں کرسکتا ہے۔ہاں! دہشت گرد وہ ہے جو معاشرے یا معاشرے سے باہر دہشت پھیلاکر لوگوں کے دلوں میں ڈر اور خوف پیدا کرے۔اب کیا وہ شخص دہشت گرد کہلائے گا جو اپنے ساتھ ہورہی حق تلفی اور اپنے اوپر ہورہے ظلم و ستم کو روکنے میں مصروف ہو یا وہ شخص دہشت گرد ہے جو زور و زبردستی اور طاقت کے بل بوتے پر کسی کے گھر میں گھُس کر اُس کے سیاہ و سفید کا مالک بن جانے پر بضد ہو؟بہر حال اسلام اور مسلمانوںکے خلاف بین الاقوامی میڈیا جس طرح کا کردار نبھا رہا ہے اُس میں وہ معذورہیں،اس لئے کہ وہ اِس دین حق اور اس کی تعلیمات میں بالکل کورے ہیں۔مگر افسوس صد افسوس !آج کے مسلمان خود اسلامی تعلیمات کی راہ میں بُری طرح حائل ہیں،آج اسلام کو بہت بہت سے چیلنجز درپیش ہیں لیکن بیرونی چیلنجوں سے کہیں زیادہ اندورونی چیلنج زیادہ مہلک ثابت ہورہے ہیں۔باہمی رحم و محبت صرف تقریروں کی چیز بن کر رہ گئی ہے ،موروثی طور پر ہم مسلمان ہیں لیکن عمل و فکری اعتبار سے اسلام سے دُور دُور نظر آتے ہیں۔ہم عالمی دعوت کے علمبردارتو ہیں لیکن اپنی حدوں سے آگے نگاہ دوڑانے کی زحمت ہی نہیں کرتے ،نہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کی دیگر قومیں کس طرح زندگی گذار رہی ہیں، وہ صدیوں سے ہمارے ماضی کی چھان بین کررہے ہیں اور ہمارے حال و مستقبل پر غور کررہے ہیں اور ہماری ایک ایک چیز سے واقف ہیں اور ہم تواتر کے ساتھ جہالت کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہیں۔دنیا میں کیا کیا تبدیلیاں آرہی ہیں ہمیں احساس ہی نہیں،تمام اسلام دشمن قومیں بیدار ہیں ،اُن کے پاس زبردست فوجی طاقت ہے اور مسلمان خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے آپسی تنازعات اور انتشار کے ذریعے اُن کے لئے مزید آسانیاں فراہم کررہے ہیں۔دنیاوی امور میں غفلت و ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ آج یہ ملت دوائوں سے لے کر دفاعی آلات تک ایک ایک چیز میں اُنہی اسلام دشمنوںقوتوں کے محتاج ہیں اور خود دینی امور میں ہماری بے حسی اپنی آخری حدوں کو چھُو رہی ہے۔عبادات اور چند معاملات میں روایتی نقالی اور غیر اہم چیزوں پر ساری توجہ دینے کے علاوہ کچھ بھی ظاہر و نُمایاں نہیں ہوتا۔مسلمانوں کی نئی نسلوں کو بس اسلام نام سے واقفیت تو ہوجاتی ہے لیکن اسلام کی روح اور حقیقت سے اُنہیں دور رکھا جارہا ہے۔اُمت اور اسلام کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے،اسلامی نظام ناپید ہے اوراسلامی معیشت کا کہیں بول بالا نظر نہیں آتا ۔مسلم علاقے پسماندگی میں تیسری دنیا میں شمار کئے جاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ہم نے ایسا معاشرہ تعمیر کرنے کی کتنی کوشش کی ،جس میں عہد کی پاسداری ،امانت داری اور قول و فعل میں یکسانیت کا بول بالا ہو؟پھر کچھ عادتیں بالکل حکمِ خداوندی کی مخالفت پر مبنی ہیں،شادیوں میں نمود و نمائش کے لئے اَسراف ِ بے جا نے تو شادی ہی کو دشوار بنا دیا ہے ۔پُرانے مذاہب اِسی افراط و تفریط کے سبب زوال کا شکار ہوئے تھےکہ کبھی وحی الٰہی میں بھی اپنی خواہش کے مطابق حذف و اضافہ کیا گیا اور کبھی کبھی احکامات پر عمل ہی معطل کردیا گیا ۔المختصر، اب مسلمانوں کواپنے عمل سے اپنے دین کو عام انسانی اخلاقی معیار سے بلند ترکرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر ممکن کوششیں جاری رکھنی ہوں گی،ورنہ آج کےنام نہاد مسلمان اسلام پر بوجھ بنتے جارہے ہیں،اور جب تک وہ قرآن و سُنت کے ساتھ انصاف نہیں کرتےاور صدیوں سے جاری اپنی جہالت ، فکری انتشار اور باہمی تنازعات کو ختم نہیں کرتے ،اُنہیں کہیں بھی آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔