انڈیا اور اسرائیل کا گرمجوشانہ گٹھ جوڑ بڑھ جانے سے عالم اسلام کے ساتھ ساتھ برصغیر کے مطلع ٔ سیاست کے لئے بدشگونی کے سوا کچھ اور نہیں۔ اگرچہ اسرائیل کسی کا دوست نہیں بلکہ اس کے کبر و نخوت کا یہ عالم ہے کہ یہودیوں کے علاوہ یہ کسی قوم اور انبوہ ِ انسانی کو خاطر میں ہی نہیں لاتا ،البتہ عصر رواں میں صیہونیوں کو اسرائیل کے ناجائز وجود کی جواز یت تراشنے ، اپنے جارحانہ اور وحشیانہ مقاصد کی آبیاری کر نے اور خود کو عالمی برادری میں اچھوت ظاہر نہ کر نے کی مجبوری لاحق ہے، اس لئے یہ ہرظالم اور قاہر کو گلے لگانے پر تیار ہے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ کشمیرکے حوالے سے دلی اورفلسطین کے حوالے سے تل ابیب کی سوچ یکسان،ہوبہو اور ایک جیسی ہے ۔یہ بات بھی محتاجِ وضاحت نہیں کہ دلی کشمیرمیں مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل سے گریزاں ہے اور محض افسپا کے بل پر ریاست میں اپنی حکمرانی وبالادستی کا سکہ ظلم کے بازار میں چلارہی ہے ۔ تل ابیب بھی روزاول سے فلسطین میں مسلمانوں کی نسلی تطہیرکے لئے بلا روک ٹوک خون آشامیاںکررہاہے تاکہ اس کا دبدبہ وہاں قائم ہو ۔ گویا دونوں ملک اپنے ا پنے دائرے میں حقوق البشر کی پامالیوں کے حوالے سے ایک ہی نوع کے انسایت سوزجرائم میں ملوث ہیں ۔ اسی تناظر میں دلی اور تل ابیب کے مابین قریبی رشتوں اور قربتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ بہر حال نیتن یاہو کے دلی دورے کے دوران وزیراعظم ہند مودی کا اپنے اسرائیلی ہم منصب سے بڑے تپاک سے بغل گیرہونے پر بھلے ہی بھاجپا کا ووٹ بنک بغلیں بجا رہاہو مگر باعث تشویش امر یہ ہے کہ اختلافات اور تناؤ کی شدت میں پہلے ہی سے غلطاں و پیچاں نیم براعظم میں یہ صورت حال خطرات وخدشات کو مزیدبڑھادے رہی ہے۔جولائی2017 یں نریندرمودی نے صیہونی ریاست اسرائیل کی یاترا کر کے عالم عرب کو پیغام دیا کہ تمہارے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوگامگردل اسرائیل کے ساتھ ہے اور یہ کہ دونوں میں علاقائی اور عالمی مسائل کے حوالے سے مشترکہ ایجنڈا ہے۔ اتوار14؍جنوری کونیتن یاہو جب نئی دہلی پہنچا تو بھارتی وزیراعظم مودی بانہوں میں بانہیں ڈال کراس سے لپٹے رہے اور چوماچاٹی کرتے رہے۔ اس موقع پر ان کاکہناتھاکہ نیتن یاہو کا دورہ دونوں ملکوں کی دوستی کو مزید مضبوط کرے گا۔جب کہ نیتن یاہونے مودی کو عالمی لیڈر قرار دے کرکہا کہ یہ دورہ بھارت اوراسرائیل عالمی، معاشی، سیکورٹی ،فنی اور سیاحتی طاقت کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط کرے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے مودی کو اپنا پکا یار بھی قرار دیا۔بھارتی کارپوریٹ میڈیا نے یہ کہتے ہوئے کہ بھارت اورسرائیل دفاع کے ساتھ ساتھ سفارتی تعلقات کو فروغ دیں گے، یتن یاہوکے دورے کو تاریخی قرار دیا ۔ بنیامین نیتن یاہو 6 ؍روزہ دورے بھارت کی یاتراکرکے اب واپس تل ابیب لوٹ چکاہے۔ اس کے ساتھ 130 رکنی وفد بھی تھا جس میں زیادہ تر کاروبار اور دفاع سے متعلق عہدے دار شامل تھے۔
بھارت کی راجدھانی دلی میںنیتن یاہو کا بڑے دھوم دھام سے استقبال کیاگیاہے۔ مبصرین کی نگاہ میں اس کی دو وجوہات ہیں: ایک سنگھ پریوارکی یہود نوازی دوسرے مسلمانوں کی دل آزاری۔چاردانگ عالم مسلمان اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں کیوںکہ وہ قبلہ اول ،اورمسلمانوں کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کیے ہوئے ہے اوراب وہ بیت المقدس کواپنادارالحکومت بنانے کی شرانگریزکوشش کررہاہے جبکہ خود اس کا وجود ناجائز ہے اور فلسطینیوں کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرکے اس کا وجود قائم کیاگیا ہے او راپنے قیام کے بعد سے اب تک مسلمانوں پر ظلم ڈھانا اس کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا ناقابل تنسیخ جزو ہے اسرائیل کی ناجائز ریاست عالم اسلام کے قلب وجگر میں ایک صہیونی خنجر ہے، جسے امریکہ اور برطانوی سامراج نے کچھ مغربی طاقتوں نے عالم اسلام کے قلب وجگر میں گھونپ دیا تھا جسے پورا عالم اسلام لہو لہان ہے۔ عالم اسلام اور مسلمانان عالم کی تازہ بے چینی اور بے اطمینانی کے دوران اقوام متحدہ میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ووٹ دینے والا بھارت اسرائیلی وزیر اعظم کا شاندار استقبال کررہا ہے۔اس امرکی تصدیق کررہاہے کہ کشمیری مسلمانوں کے سفاک قاتل بھارت کی تلواریں اسرائیل کے ساتھ ہیں۔
سیاسی اعتبار سے بھارت کی زعفرانی جماعتیں اورسنگھ پریوار ابتدا سے ہی اسرائیل کی حامی رہا ہے۔ یہ بھارت کا وہ طبقہ ہے کہ جو مشرقِ وسطی کے ٹکرائو میں اسرائیل کا ہمدرد رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسرائیل سے فطری طور پر بھی تعلقات گہرے ہونے سے دونوں کی قربت بڑھنے لگی ہے۔ یرقانی طبقہ فلسطین، اسرائیل تنازعے کے پس منظر میں نہیں بلکہ ایک عملی اور انتہاپسندانہ رشتے کے تناظر میں اسرائیلی قربت کو دیکھ رہاہے۔ اب جب کہ اس وقت بھارت میں یرقانی طبقے کاراج نافذ ہے توبدیہی طورپرتل ابیب اور دلی حالیہ دنوں میں صرف قریب ہی نہیں آئے بلکہ علیحدگی اور بین الاقوامی تنہائی کے اس دور میں بھارت نے امریکہ کے بعد اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی بن کر ابھر رہا ہے۔عربوں کوخوش رکھنے کے لئے دلی بادی النظرمیں فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے یہ محض اس لئے کہ عرب ممالک اس کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت تبدیل نہ کرسکیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دلی طورپراورہراعتبارسے بھارت اسرائیل کے ساتھ پوری طرح گٹھ جوڑ رکھتاہے۔
واضح رہے کہ2003 میں سابق اسرائیلی وزیرِاعظم ایرئیل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا تھا جب کہ اب 15 برس بعد کسی اسرائیلی بڑے عہدے دار کا یہ پہلا بھارتی دورہ ہے۔ اس سے قبل 2017جولائی میں نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھاکہ بھارت ایک عالمی طاقت ہے اور اسرائیل کے لیے ایک نعمت ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان، معاشی، سیکورٹی، سیاحتی اور تجارتی تعلقات بڑھانے کی ضرورت ہے۔
نیتن یاہواورمودی ایک ہی سکے کے دورخ ہیںاورجب ٹرمپ بھی دونوں کے ساتھ کھڑاہوتوکوئی شک نہیں کہ دنیا خدا نخواستہ کسی بڑے حادثے کی شکارہوسکتی ہے۔جس برطانوی سامراج نے ہندورام راج کے ساتھ مل کرکشمیریوں کوغلامی کی قعرمذلت میں دھکیل دیا،اسی برطانوی سامراج نے مسلمانوں کے سینوں میںاسرائیل کی شکل میں ایک خنجرپیوستہ کیا۔ اس میں کوئی دورائے نہیںکہ بھارت اور اسرائیل دنیا میں ظلم وبربریت کی سب سے بڑی علامات ہیں کہ جس میں سے ایک نے فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کررکھاہے اوعدوسرے نے کشمیرپراپنے ظالمانہ پنجے گاڑ رکھے ہیں دونوں نے دونوں مقامات کے مسلمانوںکا جینا حرام کررکھا ہے اور’’ کندہم جنس باہم جنس پرواز‘‘کے مصداق اسرائیل سرعام ایک دوسرے کے قریب ترین دوست بن رہے ہیں۔
بھارت اسرائیل اسٹریٹجک تعلقات کا باقاعدہ آغاز 1962 میں ہوا جب بھارت چین جنگ کے دوران اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم نہرونے باضابطہ طور پر اسرائیل سے ہتھیار بھیجنے کی درخواست کی۔ نہرو نے اسرائیل کے وزیر اعظم بین گورین کو پیغام بھیجا کہ جس بحری جہاز میں ہتھیار بھارت روانہ کئے جائیں، ان پر اسرائیل کا جھنڈا نہ لہرایا جائے کیونکہ اس سے مشرق وسطی اور خلیجی ممالک سے بھارتی تعلقات متاثر ہونے کا خطرہ تھا۔بھارت کیلئے خلیجی ممالک سے تعلقات وہاں آباد بھارتی شہریوں کی طرف سے ترسیلات زر کے باعث بہت اہمیت رکھتے تھے۔ تاہم، بین گورین نے اس بات سے انکار دیا اور اصرار کیا کہ ہتھیاروں سے لدے جہاز پر اسرائیل کا جھنڈا ضرور لہرایا جائے گا۔ بھارت نے جب اسرائیلی جھنڈے کے ساتھ اسرائیلی ہتھیار قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی تو بین گورین نے یہ ہتھیار بھارت روانہ کر دئے۔
1971 کی پاکستان بھارت جنگ کے دوران بھارت اسرائیل تعلقات کو مزید استحکام حاصل ہوا۔ سری ناتھ راگھون نے اپنی کتاب 1971 میں اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے مشیر پی این ہسکر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگرچہ اسرائیل بھارت کو براہ راست ہتھیار فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھامگربھارت کی درخواست پروہ کچھ بھی کرنے کے لئے تیارتھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میئر نے ہتھیاروں سے لدے جہاز کو بھارت کی جانب موڑ دیا۔اس جنگ کے دوران اسرائیل نے جاسوسی کے شعبے میں بھی بھارت کو تعاون فراہم کیا۔ اس کے جواب میں گولڈا میئر نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرے۔
تاہم اسرائیل کے ساتھ اعلانیہ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں بھارت کو مزید 21 برس کا عرصہ لگا۔ بالآخر بھارت نے فلسطینی رہنما یاسر عرافات کو اعتماد میں لیتے ہوئے 1992 میں اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یاسر عرفات اس وقت بھارت کے دورے پر تھے اوراس وقت کے بھارتی وزیر اعظم نرسمہا را ئوسے ملاقات کے بعد انہوں نے بیان دیا کہ اسرائیل میں سفارتخانہ قائم کرنا اور سفارتی تعلقات برقرار رکھنا بھارت کا اپنا استحقاق ہے اور وہ اس کا احترام کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی امریکہ نے بھی بھارت پر دبا ڈالا کہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعاون بڑھائے۔ بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک سوویت یونین تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھارت کو ہتھیاروں کے حصول کی خاطر نئی منڈیوں کی تلاش تھی جس کیلئے اس کی نظر امریکہ پر پڑی۔ تاہم، امریکہ نے ہتھیار فراہم کرنے کیلئے یہ شرط عائد کی کہ بھارت اسرائیل کو اپنی خارجہ پالیسی میں مناسب اہمیت دے۔ انہی دنوں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امریکی کوششوں سے امن کا تاریخی معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں یاسر عرفات، شمعون پیریز اور یتزک رابن کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ یوں، اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے یہ وقت نہایت مناسب ثابت ہوا اور بھارت نے اس مقصد کیلئے یاسر عرفات کو اعتماد میں لیتے ہوئے مشرق وسطی اور خلیجی مسلمان ممالک کا تعاون بھی حاصل کر لیا۔بھارت کے انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز سے منسلک دفاعی ماہر سیموئیل راجیو کے مطابق بھارت میںایک بڑی مسلم آبادی ہے، یہ پوری مسلمان آبادی مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کے ساتھ ایمانی لگائورکھتے ہیں اورفلسطینی مسلمانوںکے لیے جذباتی ہیں، اس صورتحال کے پیش نظربھارت کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو پس پردہ پروان چڑھایا گیا۔ اس کے علاوہ بھارت میں حزبِ اختلاف جماعتوں کے سیاست دانوں کی بڑی تعداد کمیونسٹ گروپوں یا اقلیتیوں سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے چھپ چھپائوکی پالیسی اختیارکی گئی۔
بھارت اور اسرائیل کا پولیٹکل آئوٹ لک ملتا جلتا ہے۔اسرائیل نے سفارتی، سیاسی اور دفاعی لحاظ سے بھارت کو یہ بتایا ہے کہ جس طرح سے اس کے ملک کے آس پاس کئی اسلامی ممالک ہیں اسی طرح انڈیا کے سامنے بھی اسلامی خطرہ موجود ہے۔اسرائیل گذشتہ 15 سے 20 سال میں انڈیا کو دفاعی ساز و سامان دینے کے معاملے میں چوتھا سب سے بڑا ملک بن کر ابھرا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ، روس اور فرانس کے بعد اسرائیل کا نمبر آتا ہے۔ اسرائیل نے انڈیا کو کئی طرح کے میزائل سسٹم، ریڈار اور ہتھیار مہیا کیے ہیں۔اسرائیل بذات خود بہت بڑے پلیٹ فارم اور جہاز نہیں بناتا لیکن وہ میزائل اور ریڈار کا نظام بناتا ہے۔گذشتہ ڈیڑھ عشرے میںبھارت کا اسرائیل پر انحصار میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ برس جولائی میںنریندر مودی کے دورہ اسرائیل کے دوران جو دفاعی معاہدے ہوں گے، ان کے حوالے سے کافی طویل وقت سے بات چیت چل رہی ہے۔بھارت اور اسرائیل اپنے تعلقات پر خاموشی سے کام کرتے ہیں۔ نیتن یاہو نے واضح طورپرکہتاہے کہ اب بھارت اور اسرائیل کے درمیان رشتوں کی حد آسمان ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے موجودہ وزیراعظم کے درمیان تعلقات کی گرم جوشی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ جب گذشتہ سا ل ماہ جولائی میں نریندرمودی نے اسرائیل کادورہ کیا۔مودی کے دورہ اسرائیل پر مشرقِ وسطی سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیاایسالگ رہاتھاکہ عرب ممالک موت کی گہری نیندسوچکے ہیں یاپھر اپنے اندرونی مسائل سے لڑنے میں مصروف ہیں۔
مودی کے دورہ اسرائیل کے تین ماہ بعداسرائیلی فوج کے گرائونڈ فورسز کمانڈ کے چیف میجر جنرل یاکوکوبی براک کی قیادت میں ایک وفد 31اکتوبر2017 منگل کوجموں پہنچ گیا اور ادھم پور میں قائم بھارتی فوج کی شمالی کمان کے ہیڈکوارٹر کا تفصیلی دورہ کیا۔ اسرائیلی فوج سے وابستہ سینئر افسران ماضی میں بھی متنازعہ خطہ ارض جموں وکشمیر کے دوروں پر آتے رہے ہیں جس دوران وہ خاص طور پر کشمیرکی تحریک آزادی کے خلاف منصوبوں کے بارے میںبھارتی فوجی کمانڈروں کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے رہے۔ان دوروں کو عمومی طور صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے ، تاہم پچھلے سال اسرائیلی فوجی کمانڈرکی معیت میں اسرائیلی فوجی وفدکی جموں میں آمدکے حوالے سے بھارتی فوج کی طرف سے ایک بیان بھی جاری کیا گیاجس میں اسرائیلی وفدکے دورہ جموںکے حوالے سے بتایاگیا۔
گولڈا مئیر (Golda Meir) اسرائیل کی چوتھی وزیر اعظم تھی۔ 1974 میں جنگ یوم کپور کے اختتام پر گولڈا مئیر نے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفی دے دیااس نے جو کچھ بھارت سے 1971 میں تقاضا کیا تھا وہ بالآخر 29 جنوری 1992 کو ممکن ہوگیا۔ بعد میں بھارت نے جب 1998 میں جوہری دھماکے کئے تو امریکہ نے بھارت پر اقتصادی اور فوجی پابندیاں عائد کر دیں لیکن، بھارت ان پابندیوں سے متاثر ہونے سے بچ گیا جب اسرائیل کے ذریعے بھارت کو امریکی ہتھیاروں کی فراہمی جاری رہی۔پھر 1999 کی کرگل کی جنگ کے دوران بھارت اسرائیل فوجی تعلقات اپنی انتہا کو پہنچ گئے۔ اسرائیل نے بھارت کو بھاری توپیں، نگرانی کرنے والے ڈرون اور لیزر گائیڈڈ میزائلوں کے ساتھ ساتھ جاسوسی کے شعبے میں تعاون بھی فراہم کیا جسے بھارت کرگل کی جنگ میں استعمال کرتارہا۔اس کے اگلے برس 2000 میں بھارت کی اس وقت کی بی جے پی سرکارکے وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی اور وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا، جس سے اسرائیل کیلئے بھارت کے وزارتی سطح کے دوروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 2003 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایرئل شیرون سرکاری دورے پر بھارت پہنچا۔ یہ کسی اسرائیلی وزیر اعظم کا بھارت کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔ اس دورے کے اختتام پر دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور تعاون کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس موقع پر اسرائیل کے نائب وزیر اعظم جوزف لیپڈ نے باضابطہ اعلان کیا کہ اسرائیل اور بھارت کے درمیان دفاعی شعبے میں قریبی تعاون موجود ہے اور اسرائیل بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔
2014 کے بھارتی انتخابات میں بی جے پی کامیاب ہوئی تو اسرائیلی وزیراعظم بنامین نیتن یاہو نے پرجوش خیر مقدم کیا۔آج بھارت اوراسرائیل کاگٹھ جوڑاس آخری حدکوجاپہنچاہے جس کی جستجومیں دونوںسربراہان ِ حکومت سرگرداں تھے ۔بھارت میں نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے قیام کے بعد بھارت ،اسرائیل کے بہت قریب آیا ہے ۔مودی بطوروزیراعظم بھارت جب کہ حکمران جماعت کے صدر سمیت کئی اہم وزرا ء اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیںاوراسرائیل بھارت کے دفاعی شعبے کوتقویت دینے میں سب سے بڑاممدومدگاربن کرسامنے آرہاہے۔بھارت کے پاس اس وقت جس قسم کابھی جدید دفاعی ساز و سامان ہے اس میں اسرائیل کابڑاحصہ شامل ہے ۔بھارت اسرائیل تعلقات کس نہج پر ہیں،اس کااندازہ نیتن یاہو کے چھ روزہ دورہ بھارت سے نہایت آسانی کے ساتھ لگایاجاسکتاہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے وہ ہر سال نئی دہلی کو اوسطا ایک ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ نیتن یاہو کے دورہ بھارت کے دوران جنگی ساز و سامان کی فروخت کے کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے جب کہ تجارتی اور سیاحتی معاہدے بھی ہوئے ۔نیتن یاہو کا وفد130لوگوں پر مشتمل ہے جس میں عسکری کمپنیوں کے اعلیٰ عہدے داران بھی شامل ہیں۔ بھارت کو50کروڑ ڈالر کے 8ہزار ٹیک شکن میزائلوں کی خریداری پر بھی بات چیت ہوئی۔ نیتن یاہو کا دورہ پاکستان کے نقطہ نظر سے لمحۂ فکریہ ہے ۔ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو فوری طورپر نئی دہلی طلب کرنااپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑتاہے۔سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ کیا دلی اور تل ابیب کے گٹھ جوڑ کا اصل ہدف مسلم دنیا کا واحد نیوکلیائی ملک پاکستان ہے ۔ چانکیائیت کا یہ دو رُخاپن بھی غور طلب ہے کہ ایک طرف نئی دلی بیت المقدس کے معاملہ پرعربوں کی حمایت کی دعویدار ہے ، دوسری طرف فلسطینیوں کے قاتل اسرائیلی وزیراعظم کے لئے دیدہ ودل فرش راہ کئے ہوئی ہے۔اس نرالی ڈپلومیسی کامقصد مسلم دشمنی کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وہ عرب ممالک جن کے ساتھ ہرمشکل گھڑی میں پاکستان کھڑانظر آتاہے،بھارت کوپیالہ برداری میں لگے ہوئے ہیں۔عرب حکمرانوں کواس حقیقت کااحساس دلانے اورعالمی برادری کو بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کے منفی اثرات سے آگاہ ہو کر بھی نیتن یاہو کے دورہ بھارت کومعمول کادورہ سمجھ کر خاموشی اختیار کرنا مسلم امہ کے لئے نقصان دہ ہوگا۔ امیدورجاء کا پہلو صرف یہ ہے کہ رب کائنات نے یہود کو ہمیشہ کے لئے مردود ٹھہرایاہے اور ان کے لئے تباہی اور بے توقیری وعید ہے۔
�����