اساتذہ اور آن لائن درس و تدریس

ہمارے سماج کا اگر ہم جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے ایک ڈاکٹر چاہتا ہے کہ ہر شخص بیمار ہو۔ ایک وکیل کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر شخص جھگڑالو ہو۔ پولیس والا چاہتا ہے کہ ہر شخص مجرم ہو۔ ٹھیکیدار چاہتا ہے کہ ہر شخص مزدور ہو۔ شراب فروش چاہتا ہے کہ ہر شخص شرابی ہو۔ ۔سیاسی لیڈر چاہتا ہے کہ ہر شخص بھولا بھالا اور معصوم ہو۔ لیکن! ایک اُستاد ہی ہے جس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ قوم کا ہر شخص تعلیم یافتہ ہو، زندگی میںکامیاب و کامران ہو او رخود کی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان ، اپنے ملک اور پوری انسانیت کی بھلائی کے لئے کارآمد ہو۔ ایک اُستاد کے لیے شاعر کہتا ہے کہ؎
میری زندگی کا مقصد سبھی کو فیض پہنچے 
میں چراغ راہ گذر ہوں مجھے شوق سے جلاؤ 
 ذرا غور فرمائیے کہ اگر آپ کسی وکیل سے مشورہ طلب کرو گے تو وہ فیس لے گا،کسی ڈاکٹر سے رابطہ قائم کروں گے تو وہ فیس لے گا لیکن اللہ تعالیٰ کی بنائی ایسی مخلوقات ہیں، جن میں اشرف المخلوقات انسان میں اساتذۂ کرام اور ہمارے والدین ہیں جو ہمارے لیے ایک نقش پا چھوڑ رکھتے ہیں،جس پر چلنا ہمارے لیے دشوار ضرور ہوتا ہے مگر کامیابی وکامرانی کا ضامن ہوتا ہے۔ بلاشبہ ہمارے اساتذۂ کرام اور والدین ہمارے لیے مشعل راہ ہیں جو زندگی کے ہر شعبۂ حیات میںمعاون و مددگار ہیں۔ اُن کی پُرمغز باتیں، نصیحتیں ہماری آنے والی زندگی کو پُرنور بناتی ہیں۔ ہر سال ایک مختص تاریخ کو ٹیچرس ڈے منا لینے سے کیا اساتذۂ کرام کا حق ادا ہوجائے گا؟ پھر یہ نمائشی ڈرامہ چۂ معنی دارد؟ اگر ہمیںاساتذۂ کرام سے اتنی ہی محبت ہے جتنی وہ اپنے طلبہ سے کرتے ہیں تو پھر ان سے اخلاق و عادات، طرزِ معاشرت، دعوت و دین اور زندگی کے اصل مسائل سیکھے جائیں۔ 
یادش بخیر میں گذشتہ سال میں اُستاد الاساتذہ جناب اسحاق خضرؔ سے کچھ رسمی گفتگو کر رہا تھا کہ ایک صاحب سلام کرکے آگے بڑھے۔ اُن صاحب کے ہاتھوں میں سگریٹ تھا، وہ ہاتھ پیچھے کرکے زبانی سلام کرکے آگے بڑھے۔ کتنے ایسے طلبہ بھی وہاں سے گذرے جو پان کھائے ہوئے تھے، وہ سرجھکائے چلے جا رہے تھے۔ پان، تمباکو، گٹکا اور سگریٹ کے ساتھ کوئی اپنے استاد سے ملنا نہیں چاہتا تھا، یہ ادب و احترام باقی تھا۔ کیا اب اساتذۂ کرام کا احترام باقی ہے؟ ہم اپنے والدین کا ادب و احترام کرتے ہیں اور اساتذۂ کرام کا ادب و احترام ہمارے دلوں میں موجود نہیں ہے تو ہمارے لیے درس و تدریس کا حصہ بے معنی ہے؟ والدین اور اساتذۂ کرام ہمارے لیے کس قدر ڈھال ہوتے ہیں۔
آج کرونا وائرس کے عفریت کی وجہ سے اساتذۂ کرام، آن لائن درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ ایسے پُرآشوب دور میں اساتذۂ کرام بلا چوں چراں کئی حکومتی احکامات کو بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ کرونا وائرس کی ڈیوٹی بہ حسن خوبی نبھا رہے ہیں۔ غیر حاضر طلباء کے گھروں پر فون کے ذریعے دستک دے رہے ہیں۔ فی زمانہ اساتذۂ کرام جو کچھ لکھاتے، پڑھاتے، یاد کرواتے رہے ہیں ،وہ بھی اپنے اُستادوں سے فیضیاب ہوئے ہیں۔ آن لائن درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے مگر افسوس صد افسوس کہ کچھ اساتذۂ کرام نے کاپی پیسٹ کا سہارا لیا ہوا ہے۔ یعنی موبائل پر اساتذۂ کے بہت سے گروپ سے جڑنے کے بعد جو ویڈیو یا آرٹیکل آتا ہے ،طلباء کو وہی بھیج کر اساتذۂ کرام فرصت پا رہے ہیں۔ کیا وہ اس طریقۂ تدریس سے خوش ہیں؟ کیا وہ اپنی پُرکشش تنخواہ کو صحیح کر پا رہے ہیں؟ اگر نہیں تو خود کے ذریعے طلباء کا کتنا اکتسابِ علم بڑھا؟ صد حیف! کچھ اساتذہ طلباء کو سابقہ لکھے ہوئے سوالات و جوابات موبائل پر بھیج کر سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے فرائضِ معلمی ادا کردیا۔ کیا اس طریقے سے طلباء کے اکتسابِ علم میں اضافہ ہوسکے گا؟ ہرگز ہرگز نہیں۔ تو پھر۔۔۔۔۔یہ سلسلہ انھیں مفقود کردینا چاہیے۔ معزز صدر مدرسین کا کام بھی ہے کہ وہ گاہے بہ گاہے اساتذۂ کرام کا، اُن کی موثر تدریس کا اور طلباء سے اُن کا ربط کیسا ہے ،جائزہ لیں۔ ہم کسی پر کیچڑ نہیں اُچھالنا چاہتے بلکہ آئینہ روبرو کر رہے ہیں تاکہ پیشۂ معلمی جو کارِ پیغمبری ہے ،داغدار نہ ہو۔ ملحوظ رہے کہ یہ چند سطریں مختلف اسکولوں اور کالجوں کا جائزہ لے کر لکھی گئی ہیں کوئی معلم یا معلمہ اپنے اوپر کوئی بات نہ لے۔ اللہ رب العزت تمام اساتذۂ کرام کو اپنے فرائض معلمی کو بہ حسن خوبی ادا کرنے کی توفیق دے۔ 
فون نمبر۔ 9145139913