قیصر محمود عراقی
آج تک ہم اردو کے ساتھ غیروں والا امتیازی سلوک کر تے ہو ئے آ رہے ہیں ۔ دنیا کی ہر قوم اور حکومت اپنی قومی زبان کی ترویج و فروغ کے لئے کام کر تی ہے بلکہ دوسری زبانوں کے علوم و فنون کا بھی اپنی قومی زبان میں تر جمہ کرکے کتابیں مرتب کر تی ہیں اس کے بر عکس ایک ہم ہیں جو اردو بولنے والے اور پڑھنے والوں کو کم علم ، کم تر اور کم درجہ دیتے ہیں ۔ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ اردو ایک غیر تر قی یافتہ اور پسماندہ زبان ہے جبکہ اردو دنیا کی معروفِ اول جدید زبانوں میں سے ایک ہے ، اردو نے تقریبا ً چار سو سال میں تر قی کی جتنی منزلیں طے کی ہیں وہ دوسری زبانوں نے ہزار سال میں طے کی ہو گی ۔ زبان کی تر قی کے دو ہی معیار ہیں ایک یہ کہ اس میں ہر قسم کی علمی مضامین کا سرمایہ موجود ہو اور دوسرا یہ کہ انسانوں کی ایک کثیر تعداد اس سے واقف ہوں ، اردو ان دونوں معیاروں پر پوری اتر تی ہے ۔
دنیا ئے علم کا کون سا اہم موضوع ہے جس پر اردو میں مواد موجود نہ ہو اور کون سا ایسا علاقہ ہے ،جہاں اس زبان کو جاننے والا کوئی نہ ہو ۔ کہتے ہیں حسن ہے تو نزاکت آ ہی جا تی ہے اور پھر عاشق کی محبت سے معشوق کے دل کانپنے لگتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی اس نازک اندام حسینہ اردو کے ساتھ ہوا ۔ پہلے پہل تو امیرؔـ خسرو کی محبت سے اس کی آنکھیں چار ہو ئی اور اپنے اظہار محبت کے لئے وہ ہندوستانی تہذیبی رشتوں سے فارسی کے ذریعے ہم کنار ہو ئی پھر ولیؔ ، ذوقؔ ، غالب ؔ ، مومنؔ ، میرؔ ، سوداؔ، ناسخ ؔ ، انشاؔ ، مصحفیؔ ، چکسبتؔ ، شوزؔ ، انیسؔ ، دبیرؔ ، اقبالؔ اور حالیؔ نے اپنی اشعار کے ذریعے اس زبان کو مزید وسعت دے کر ہمیشہ کے لئے خوب سے خوب تر کر دیا ۔ اردو اپنے لب و لہجے، رکھ رکھائو ، روز مرہ محاوروں ، انداز بیاں، موضوع و مواد اور مختلف الفاظ کے استعمال و ایجاد کے لحاظ سے ایک علیحدہ زبان ہے ۔ اس نے اپنی ساخت ، مرکبات کے اصول اور قواعد میں ہر زبان سے فائدہ اُٹھا یا ہے لیکن بحیثیت مجموعی وہ کسی کی پابند نہیں رہی بلکہ اس نے اپنی لغت ، اپنا اسلوب، صرفی و نحوی قاعدے ، واحد و جمع اور تذکیرو تانیث کے اصول الگ بنا لئے ہیں اور انہیں کی پابندی اردو کی فصاحت و بلا غت اور حسن و اثر کا معیار متعین کر تی ہے ۔
آج ہمارے لئے کتنے افسو س اور شرم کی بات ہے کہ ہماری تمام جامعات بھی مغرب زدہ ہیں جو انگریزی کو سب کچھ سمجھتا ہے ۔ ہو نا تو ایسا چاہئے تھا کہ ہر معاملے میں اردو کو لازمی قرار دیتے ۔ لیکن کیا کریں ہم الٹا چلنے والے لوگ ہیں جو ہمیشہ سے الٹا چلتے ہو ئے آئے ہیں ۔ جب ہمارے تعلیمی اداروں سے ہی ہماری پیاری اردو کے ساتھ اتنی نفرت و دشمنی کی لہر تیز ہو جا ئے گی تو ہم کیا خاک تبدیلی لائینگے ۔
اردو اس وقت دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق عام طور پر سمجھی اور بولی جا نے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعد دنیا کی یہ تیسری بڑی زبان ہے ، اردو زبان کے بولنے اورسمجھنے و الے دنیا کے ہر علاقے اور ہر ملک میں موجود ہیں ،اس کے حلقہ اثر کو دیکھتے ہو ئے اسے انگریزی کے بعد دنیا کی دوسری زبان کہنا مغالطہ نہ ہو گا ۔ دنیا کی بیشتر بڑی جامعات میں اس کی تدریسی و تعلیمی شعبے قائم ہیں اور ان میں اردو سیکھنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے ، ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں اردو جاننے والوں کی مجموعی تعداد کروڑ سے زائد ہیں ، کم نہیں ہے جو کہ اردو کی اس مقبولت کا جواز ہے ۔ لیکن افسوس کے ساتھ ہم ہیں جو اردوکو اتنے نظر انداز کر تے ہیں کہ ہمارے ۹۹ فیصد تعلیمی ادارے ، آفس اور دیگر جگہوں پر ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول کر اردو بولنے والوں پر بر تری حاصل کر نا چاہتے ہیں ۔ یہ ہمارے لئے انتہائی مایوسی ہے کہ اردو ہماری زبان ہو نے کے باوجود ہماری بہت سی جامعات میں اردو کا شعبہ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں اور جہاں موجود ہے وہاں کی حالتِ زار بیان کر تے ہو ئے انتہائی شرم محسوس ہو تی ہے۔
محترم اردو دوستو! اردو ہماری زبان ہمارے تشخص کی آئینہ دار ، ہماری بقا کی ضمانت ، ہمارا مستقبل، ہماری ترقی کا راز ہے ، اردو زبان ہماری پہچان ہے ہمیں اس کی ترقی کے لئے ہمہ تن گوش رہنا چاہئے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس کی تشہیر کر نی چاہئے۔ ہماری اردو سے وابستگی ہی اس کی تر قی کا باعث بنے گی اور جب تک ہم اپنی زبان میں علوم و فنون پر دسترس حاصل نہیں کر تے اس وقت تک دوسروں کے پیچھے بھاگنا ہمارامقدر رہے گا ۔ یاد رہے ! وقت کی اُڑان پروں کی محتاج نہیں ہو تی وہ صدیوں کے تجربے لمحوں میں بھی عطا کر سکتا ہے اور کبھی منزلوں کی کٹھن کر کے لمحوں کو منزل میں بدل دیتا ہے ۔ اردو کو بھی بلوغث کی منازل طے کر تے ہوئے کتنی داخلی و باطنی کر ب سے مراحل بہ مرا حل گزر نا پڑے گا ۔ لہٰذا ضرو رت اس امر کی کہ ہم اردو کو اس کا صحیح مقام دے ، اردو کی تحقیر نا کرے بلکہ اس کو اضا فی وصف جا نیں ۔ عمدہ فیصلہ وہ ہو تا ہے جو معا شرتی حقا ئق کو سمجھ سکتا ہے اور صحیح معا شرتی حقا ئق کو سمجھ نے کے لئے اردو کا انا نہا یت ضرو ری ہے اور صرف اردو ہی نہیں بلکہ لکھنے اور پڑھنے کی مہا رت سے آ گے بڑھتے ہو ئے اظہا ر رائے کے سلیقے تک اردو پر عبور ضرو ری ہے ۔ آپ دنیا کی قدیم سے قدیم تا ریخ کواُٹھا کر دیکھیں کہ کوئی بھی قوم ایسی نہیں ہے کہ جس نے دوسری زبان میں علم حا صل کر کے تر قی منزل طے کی ہو ۔ اس لئے ہم بھی دوسرو ں کی زبا ن میں پڑھ تو سکتےہیں لیکن کچھ تخلیق نہیں کر سکتے ۔
رابطہ۔6291697668