اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

عصر حاضر میں اپنی شناخت اور انفرادیت کی بقاء کیلئے دنیا کی قومیں اور ریاستیںجہاں ہر ممکن کوششوں میں برسر جدوجہد ہے ،شاید جموں کشمیر واحد ایسا خطہ ہوگاجو نہ صرف اپنی ثقافت،تہذیب وتمدن اور منفرد پہچان کے تحفظ کیلئے نہ صرف غیر سنجیدہ ہے بلکہ غفلت شعاری اور بے فکرمندی کی وجہ سے غیروں کو ورثے پر ضرب لگانے کیلئے میدان کھلا چھوڑ رہاہے۔کسی قوم کی پہچان اس کی زبان اور لسانیت پر منحصر ہوتی ہے تاہم اس لحاظ سے بھی شاید ریاستی عوام نے از خود اپنی زُبان کی قبر کھودنے میں کوئی بھی کمی نہیں رکھی۔کشمیر میں جہاں کشمیری زُبان مادری زُبان کے باوجود اسکولوں اور مدرسوں سے ایسی غائب ہوئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ، وہیںسرکاری زبان کا حشر کیا ہو رہا ہے، یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
برصغیر ہند پاک کی تقسیم کے بعد جہاں ہندوستان سے اردو زبان کا جنازہ اٹھانے کیلئے کوئی بھی کسر باقی نہیں چھوڈ دی گئی وہی لسانیت پرستوں نے اس کو مذہب اسلام سے جوڑ کر ایک نئی بحث اور تعصب پرستی کو ہوا دی۔تقسیم ہندکے بعد جموں کشمیر ہی واحد ریاست (موجودہ مرکزی زیر انتظام والا علاقہ)کے طور پر سامنے آئی جہاں اُردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ برقرار رکھا گیا جبکہ دیگر ریاستوں میں دن دھاڈے اُردو کا جنازہ بڑی دھوم سے نکالا گیا۔ہندی کو جہاں بھارت میں قومی زبان کا درجہ دیا گیا وہیں جنوبی بھارت کی ریاستوں میں ہندی اس طرح سے پھل پھول نہ سکی کیونکہ اُن ریاستوں نے اپنی مادری زبان کو اولیت دی۔ جموں کشمیر میں گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے اردو کو سرکاری زبان کو درجہ حاصل ہے اور مہاراجہ حکومت کے دوران بھی اردو کے ساتھ کوئی بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی تاہم وقت کے تھپیڑوں نے اس سرکاری زبان کو اپنے گھر میں آج کل سوتیلا بنا رکھا ہے اور سر چھپانے کیلئے اس زبان کو جگہ بھی میسر نہیں۔ابتداء میں سرکاری دفتروں میں ہر ایک کام اردو زبان میں ہوا کرتا تھا تاہم رفتہ رفتہ اس کی جگہ انگریزی اور ہندی نے لی۔اس کے باوجود اردو سرکاری زبان کی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی جبکہ سرکاری اسکولوں میں اردو زبان میں ہی سائنس،ریاضی،تاریخ اور جغرافیہ پڑھانے کا چلن بھی جاری رہا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں اور دفتروں میں اردو دھندلے سائے کی طرح غائب ہونے لگی جبکہ غیر ریاستی بیروکریٹوں نے اس میں سب سے اہم رول ادا کیا۔ ریاستی انتظامیہ میں مختلف ریاستوں سے بیروکریٹوں کو لاکر سیول سیکریٹریٹ کو انکا مسکن بنا دیا گیا جہاں پر انہوں نے سب سے پہلے ریاست کی سرکاری زبان کے خلاف ہی منصوبہ سازی اور جال بھننے کا کام شروع کیا۔اردو سے بے خبر ان سرکاری بیروکریٹوں نے انگریزی اور ہندی کو ترویج دی تاہم اس دوران ریاستی سرکار اور مشیروں و وزیروں کی خاموشی نے ان کے حوصلوں کو مزید تقویت دی۔ انتظامی ہیڈ کوارٹر سیول سیکریٹریٹ میںبڑی مشکلوں کے بعد افسران کے کمروں کے باہراردو میں تختیاں نصب کروائی گئیںجو اس بات کی عکاسی ہے کہ اردو زبان کا حشر ریاست میں کس حد تک ہوا تھا۔ماضی میںوزیروں اور ممبران قانون سازیہ کی طرف سے سرکاری زبان کو چھوڑ کر کسی اور زبان میں حلف برداری سے ہی صاف نظر آتا ہے کہ عوامی نمائندے اس زبان کو تحفظ فرہم کرنے اور اس کی شان و شوکت کی بحالی کیلئے کس قدر سنجیدہ ہیں۔
دنیا کے کسی بھی خطے میں سرکاری زبان کی ترویج،ترقی اورفروغ حکومت کے بنیادی فرائض اور ذمہ داریوں میں شامل ہوتے ہیں تاہم شائد جموں کشمیر واحد ایسا خطہ ہے جہاں متواتر حکومتیں اس سب سے لاتعلق ہوکر اپنے لئے عیش و عشرت کا سامان تیار کرنے میں مصروف رہیں۔محکمہ مال،پولیس اور امور صارفین و عوامی تقسیم کاری میں جہاں سرکاری زبان کی کچھ جھلک ابھی بھی نظر آتی تھی ،وہیں سابق حکومتوںکے دوران ان محکموں میں بھی اردو کو ملک بدر کرنے کی سازش کی گئی۔ محکمہ امور صارفین و عوامی تقسیم کاری نے2سال قبل گزشتہ ایک صدی میںپہلی مرتبہ اردو کے بدلے انگریزی میں راشن کارڈوں کی اجرائی کیلئے انگریزی میں فارم تیار کرلیا تاہم بعد میں محب اردو انجمنوں اور دیگر لوگوں کی مزاحمت کے بعد متعلقہ محکمہ نے یہ فیصلہ واپس لیا اور وادی میں اردو زبان میں ہی فارم ترتیب دئے گئے۔سابق حکومتوں کی اس سلسلے میں خاموشی بھی معنی خیز رہی کیونکہ کبھی اس بات کی تحقیقات کرنا گوارہ بھی نہیں کیا گیا کہ آخرکس کی ایماء پر یہ رد وبدل کیا گیا اور نہ ہی میں ملوث افسران کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ریاستی حکومتوں نے اگر ماضی میں اردو زبان سے نا آشنا افرادکو نائب تحصیلدار کے طور پر بھرتی کرنے یا محکمہ مال کے ریکارڑ کو سرکاری زبان سے انگریزی میں تبدیل کرنے کے خلاف ہوئے ردعمل کا سنجیدہ نوٹس لیا ہوتا تو اُردو زبان کے ہمدردوں اور محبان کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
حکومت ہند جہاں ہندی کی ترقی،فروغ اور ترویج کیلئے ہر سال کروڈوں روپے خرچ کرتی ہے وہیں جموں کشمیر میں گنگا ہی الٹی بہتی ہے جہاں سابق وزیر اور مشیروں نے ہی سرکاری زبان کے خلاف نہ صرف سازشیں رچیں بلکہ انہیں اہم امتحانات میں لازمی مضمون قرار نہ دینے پر بھی لوگوں کو ہوا بھی دیتی رہیں۔ جموں کشمیر میں دیگر ریاستوں کے مقابلے میںمتواتر ریاستی حکومتوں کی مشینری اور ادارے ہی سرکاری زبان کی بیخ کنی کیلئے سامان تیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر چہ ریاست میں یہ سلسلہ گزشتہ70برسوں سے جاری ہے اور وقت وقت پر حکومتوں اور انکی مشینریوں کی طرف سے سیاسی اور انتظامی سطح پر اردو کُش اقدامات کا دلدوز نظارہ دکھایا جاتارہا تاہم چند برسوں سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔اسی وجہ سے جموں کشمیر میں اُردو محکمہ مال،پولیس اور نچلی عدالتوں تک محدود ہو کر رہ گئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ اب رفتہ رفتہ ان محکموں سے بھی سرکاری زبان بے دخل ہورہی ہے۔سابق سرکاروں کے دور میںمحکمہ مال میں تمام ریکارڈ کو اردو سے انگریزی میں بدلنے کی باضابطہ مہم شروع کی گئی جو بعد کی حکومتوں کے دور میں بھی جاری ہے۔اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ سابق کانگریس اور نیشنل کانفرنس سرکار میں وزیر مال نے اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کر کے اردو سے نابلد لوگوں کو محکمہ مال میں نائب تحصیلدار کے طور پر تعینات کیا۔ ریاستی حکومتوں کا سرکاری زبان کے تئیں رویہ اور احساس کو ہی بھانپ کر دیگر اداروں نے بھی اردو مخالف گنگا میں ہاتھ دھونے کو غنیمت سمجھا۔سرکاری محکموں کے علاوہ مالی اداروں کی صورتحال میں بھی کوئی واضح فرق نہیں کیونکہ اردو کے ساتھ چھیر چھاڑ اور سرکاری زبان سے بے مروتی پر عدم جوابدہی کے نظام نے کارپوریشنوں کے حوصلے بھی بڑا دئیے۔ ریاست کے سب سے بڑے مالیاتی ادارے جموں کشمیر بنک کے کاغذات،دستاویزات ،چیک بُک یہاں تک کہ رقومات جمع کرنے اور نکالنے کے رسیدوں پر جعلی حروف سے’دی جموں و کشمیر بنک لمیٹیڈ‘ کے حروف اردو میں درج ہوتے تھے تاہم آج ہم اس بات کا اندازہ از خود لگا سکتے ہیں کہ اردو کی تحریر کہاں گئی اور کیونکر اردو زبان کو ان کاغذات سے ہٹایا گیا۔اس مالی ادارے کے اشتہارات اور نصب کئے گئے کتبوں یا بورڈوں پر بھی اردو میں تحریر درج ہوتی تھی تاہم دور جدید اور ترقی کے نام پر جموں کشمیر بنک انتظامیہ نے اپنے پورے ادارے سے سرکاری زبان اردو کو خارج کر کے یہ ثابت کردیا کہ حکومت اور انتظامیہ کے دیگر اداروں کی طرح ہی بنک انتظامیہ کے سامنے جموں کشمیر کی سرکاری زبان کیلئے کوئی احترام نہیں۔
اردو زبان کیلئے ایک اور مصیبت یہ ہے کہ اس زبان سے نا آشنا لوگوں نے دانستہ یا نادانستہ طور اس کی قبر کھود دی ہے۔ محکموں و اداروں میں مختلف قسم کی تختیاں،سنگ میل پر تحریر اور بورڈوں پر اردو کا املا ہی غلط ہوتا ہے جس پر شائد آج تک کسی بھی محب اردو نے آواز بلند نہیں کی اور نتیجے کے طور پر یہ رواج پروان چڑھتا گیا۔حکومت اور اس کے ادارے بھی آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ جہاں اردو کو جموں کشمیر میںسرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے وہیں یہ خطے کے اندر اور باہر واحد رابطے کی واحد زبان ہے جس کوتمام طبقہ ہائے فکر سے وابستہ لوگوں تک پہنچ حاصل ہے۔جموں کشمیر کو بھارت اور برصغیر سے رابطے کی واحد زبان اُردو ہے اور اس کو جنوبی ایشاء میں لسانی پُل کا درجہ حاصل ہے۔ تعصب کی عینک اگر اتار پھینک دی جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جموں کشمیر کی مختلف اکائیوں، خطوں ،طبقوں ،ثقافتوں ،تمدنوں ،تہذیبوں اور مذہبوں کو آپس میںجوڑنے والی زبان صرف اردو ہے جو آپسی بھائی چارے اور ہم آہنگی کی ایک زندہ مثال ہے۔اردو کی مٹھاس اور چاشنی جموں کشمیر کی پہچان ہے،اردواظہار جذبات کی شناخت اور عشق کی علامت ہے۔جموں کشمیر میں دور جدید میں بھی سب سے زیادہ اخبارات سرکاری زبان میں ہی شائع ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ابھی بھی ریاست میں اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے تاہم ایام گردش اس زبانِ محبت کو مٹانے کے در پر ہیں اور حکومتیں اس کی تباہی کاتماشہ خاموشی سے دیکھتی ہیں۔ خطے میںاگر چہ فی الوقت کئی ایک انجمنیں بقائے اردو کیلئے کام کر رہی ہے تاہم اُن کا کام بھی اطمینان بخش نہیں ہے اور ہوگا بھی کیسے ،کیونکہ انہیں سرکاری تعاون حاصل نہیںہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ محبان اردو یک زبان ہوکر واضح کریں کہ اردو کے خلاف کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا کیونکہ جہاں اردو جموں کشمیر کی سرکاری زبان ہے وہیں جموں کشمیر کی وحدت اور اتحاد کی کی شناخت بھی۔محبان اردو اگر چہ کسی بھی ریاستی یا قومی زبان کے خلاف تعصب نہیں رکھتے تاہم اپنی سرکاری زبان کو بچانے اور اس پر آواز اٹھانے کا حق محفوط رکھتے ہیں۔