سبزار احمد بٹ
اردو زبان میں جدید طنزیہ شاعری پر اگر چہ اچھا خاصا کام ہوا ہے تاہم جس توجہ کی مستحق طنزیہ شاعری ہے وہ توجہ نہیں دی گئی۔ طنزیہ شاعری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، اس صنفِ شاعری کی اہمیت مسلم ہے۔ طنزیہ شاعری کےذریعے ہنستے کھیلتے بہت سارے کام لئے جاسکتے ہیں ایک تو اس شاعری سے قارئین لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسرا بڑا فائدہ کہ بڑے سے بڑے مسئلے پر بہت ہی خوبصورتی سے چوٹ کی جاسکتی ہے۔ قارئین ایک تو اس شاعری کا لطف اُٹھاتے ہیں اور ان خرافات سے دور رہنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، جن پر طنزیہ شاعری کے ذریعے چوٹ کی گئی ہو۔طنزیہ شاعری کے زریعے مختلف سماجی مسائل کو پیش کر کے معاشرے کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کی جا سکتی ہے۔ شعری ادب کا بہت بڑا حصہ طنزیہ شاعری پر مشتمل ہے ۔بقول گوپی چند نارنگ ” طنزومزاح کی شاعری شعری ادب کا عظیم سرمایہ اور شعریت کا جوہر ہے ” جہاں تک اس کتاب کا تعلق ہے، دراصل مصنف نے اس موضوع پر مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے جو اب کتابی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں مصنف نے بڑی باریک بینی سے طنز و مزاح کا معنی و مفہوم سمجھایا ہے ۔اگر چہ کسی بھی صنف سخن کی مکمل تعریف ممکن نہیں ہے تاہم مصنف نے بہت خوبصورتی سے ان صنف سخن کا مفہوم سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اپنی باتوں کو مظبوط اور مستحکم بنانے کے لئے مختلف مستند ادیبوں کے حوالہ جات بھی دئیے ہیں ۔ جیسے مصنف اس بات پر زور دیتا ہے کہ طنز اور مزاح دو الگ الگ چیزیں ہیں اس حوالے سے رونالڈ کاکس کا حوالہ دیا گیا ہے جو لکھتے ہیں کہ” مزاح نگار ہرن کے ساتھ بھاگتا ہے ۔ لیکن طنز نگار کتوں کے ساتھ شکار کھیلتا ہے۔” اس حصے میں مصنف نے مدلل اور مفصل انداز میں طنز و مزاح نامی صنف کی وضاحت کی ہے اور ظرافت کے موضوع پر بات کر کے قاری کے ذہن کو سیراب کرنے کی کوشش کی ہے۔مصنف کا کہنا ہے کہ طنزومزاح لکھنے والے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جو اس صنف کا استعمال محض ہنسانے کے لئے کرتے ہیں اور دوسرے وہ جن کے سامنے مزاح کے سات ساتھ کوئی نہ کوئی مقصد بھی ہوتا ہے۔ اس حوالے سے میریڈتھ کا حوالہ دیا گیا ہے جو لکھتے ہیں کہ ” کامیاب ظریف وہ ہے جو ہنسائے لیکن ساتھ ہی فکو کو بیدار بھی کرے “، اس حصے میں طنزیہ شاعری کے محرکات پر بھی بات ہوئی ہے اور اس صنفِ شاعری کی تاریخ بھی بیان ہوئی ہے۔ مصنف نے علامہ اقبال کی طنزیہ شاعری پر بات کرتے ہوں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں بڑی خوبصورتی سے مغرب پر چوٹ کی ہے جیسے ؎
میخانے یورپ کے انداز نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر
مصنف کا ماننا ہے کہ الطاف حسین حالی نے بھی اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کی زبوحالی پر طنز کیا ہے لیکن یہ بات الگ ہے کہ ان کی سنجیدہ شاعری ان کی طنزیہ شاعری پر غالب آجاتی ہے۔کتاب کے دوسرے حصے کا عنوان “اردو میں طنزیہ شاعری کی روایت” ہے، اس حصے میں طنزیہ شاعری کی بنیاد اور تواریخی اعتبار سے اس پر بات ہوئی ہے اور مصنف نے دلیلوں کے ساتھ یہ بات بتانے کی کوشش کی یہ کہ اس صنف کی شروعات کہاں سے ہوئی ہے اور اس حوالے سے مصنف کا ماننا ہے کہ محققین کے مطابق دنیا کا پہلا طنز نگار یونان سے تھا جس کا نام آرکی لوکس ( Archilochus) تھا. مصنف نے انگریزی طنزیہ ادب کا بھی خوب نقشہ کھینچا ہے۔ جعفر زٹلی کی طنزیہ شاعری پر بات کرنے کے علاوہ امیر خسرو، سودا، میر، نظیر اکبر آبادی اور غالب کی طنزیہ شاعری پر نہ صرف مدلل بحث ہوئی ہے۔ بلکہ مصنف نے ان شعرا کی طنزیہ شاعری کا نمونہ کلام بھی پیش کیا ہے۔ جس سے مصنف کی باتیں مزید مستحکم ہو گئیں ہیں ۔کتاب کا تیسرا حصہ ” اردو طنزیہ شاعری کا جدید ترین دور ” کے نام سے موسوم ہے۔ اس حصے میں مصنف نے یہ بتایا ہے اس یہ وہ دور ہے، جب بھارت آزاد بھی ہوا اور ملک تقسیم بھی ہوا اس دور میں نئے مصائب اور رجحانات نے جنم لیا۔اب لپسٹک ہاوڑر، فیشن، اور باقی سطحی مسائل پر طنزیہ شاعری نہیں کی جاتی ہے بلکہ ملکی اور عالمی سطح پر ہونے والی دھاندلیوں کو طنزیہ شاعری کے ذریعے منظر عام پر لانے کوشش کی جاتی ہے ۔سیاسی افراتفری، رشوت ستانی اور چور بازاریاں طنزیہ شاعری کے ذریعے منظر عام پر آنے لگیں ہیں ۔ اس سلسلے میں مصنف نے سید محمد جعفر کی نظم “یو این او” ضمیر جعفری کی نظم ” وباے اپارٹمنٹ ” مجید لاہوری کی نظم ” مارڑن آدمی” راجہ مہدی علی خان کی نظموں جیسے ” چور اور خدا” کانے کے آنسو” اجی پہلے آپ ” اور ملاقاتی جیسی نظموں کا حوالہ دیا ہے ۔جن میں طنز کے نیشتر بھرے ہوئے ہیں ۔ اس حصے میں جناب شاد عارفی کی طنزیہ شاعری کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور نمونے کے طور پر اشعار بھی پیش کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سید محمد جعفری، ضمیر جعفری، راجہ مہدی علی خان، مجید لاہوری، سید ضامن جعفری، اختر شیروانی دلاور فگار، جیسے شعرا کی طنزیہ شاعری ہر نہ صرف مدلل اور سیر حاصل بحث کی گئی ہے بلکہ ان شعرا کے طنزیہ شاعری کے اعلی نمونے بھی پیش کئے گئے ہیں۔
مصنف نے آخر پر نہ صرف حاصل مطالعہ نام پر دلچسپ اور طنزومزاح کے حوالے سے ایک معلوماتی مضمون لکھا ہے بلکہ ان تمام تر کتابوں کے نام بھی لکھے ہیں ،جن سے مصنف نے استفاده کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاوید احمد ڈار کی اس کتاب پر پروفیسر قدوس جاوید، اور ڈاکٹر صدف نے بھی اپنے تاثرات پیش کئے ہیں، جس سے کتاب کی اہمیت اور بھی مسلم ہوجاتی ہے۔ یہ کتاب اردو ادب میں نا صرف ایک اضافہ ہے بلکہ طنزومزاح کی معدوم ہوتی ہوئی صنف کو مزید جِلا بخشنے کے لئے اور قارئین کو اس صنف کی جانب متوجہ کرنے کے لئے ایک کار آمد ہتھیار کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے۔