بشیر احمد
جہاں تک حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں زیر ِ بحث موضوع کا تعلق ہے تو بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی المیے سے کم نہیں ۔ موضوع کا دائرہ وسیع ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ اس پہ بات کی جائے اور وہ بھی ایک کھلے ذہن کے ساتھ ۔بہرحال میری یہ کوشش رہے گی کہ میں موضوع کے حوالے سے اپنی بات کو جامع اور موثر انداز میں آپ کے سامنے رکھ سکوں ۔
اخلاقی قدروں کی گراوٹ موجودہ دور کے سماج و معاشرے میں ایک رستے ہوئے ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے۔جہاں تک جواں نسل میں اِن اخلاقی قدروں کی گراوٹ کے اسباب اور وجوہات کا سوال ہے، توکُلّی طور پر ہم کِسی ایک فریق یا کسی ایک عنصر کو موردِالزام نہیں ٹھہرا سکتے ہیں بلکہ مجھے تو یہ بات کہتے ہوے اور تسلیم کرتے ہوئے یقینا ًکوئی عُذر یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی ہے کہ والدین اساتِذہ ، طلبہ اور دورِ حاضِرکا ترقی یافتہ سماج کہیں نہ کہیں بالواسطہ یابلاواسطہ غیر ارادتاً ہی سہی لیکن ذمہ دار ضرور ہیں اور یہی وہ بھول اور لاپرواہی ہے جس کی وجہ سے آج کا معاشرہ اخلاقی طور پر تباہی و بربادی کی دہلیز پہ کھڑا ہے ۔
والدین جو اپنے بچوں کی بنیادی پرورش،یعنی جسمانی،ذہنی اور اخلاقی نشو ونما کے ذمہ دار ہیں ، اس بات کوسمجھنے اور اسکاتعین کرنے میں سراسر ناکام رہے کہ ایک نو نہال بچے میں مستقبل کے حوالے سے پیش آنے والے مصائب ومشکلات کا سامنا کرنے کے لیے کن کن بنیادی صِفات کا پیدا ہونا لازمی ہے، جس کی وجہ سے والدین کی سوچ اور حکمتِ علمی شروع سے ہی تذبذب اور انتشار کا شکار رہی ہے ، نتیجتاً حرفِ اوّل سے ہی بچے کی تعلیم و تربیت کا مرحلہ ٹیڑھے پن کا شکارہوجاتا ہے اور مستقبل کے حوالے سے اس عمارت کی تعمیر کمزور اور مُتزلزل بنیادوں پر کھڑی کی جاتی ہے۔والدین کی یہی لاپرواہی اور غفلت آنے والے وقت میں بچے کے لیے تاحیات نہ ختم ہو نے والی پریشانیوں کا سبب بن جاتی ہے ۔ والدین کی اپنی اولاد کے متعلق بے حسی کسی زہر سے کم نہیں ، اپنی اولاد کےتئیں غیر ضروری لاڈ پیار کے آڑ تلے والدین اکثر دیکھی اَن دیکھی سے کام لیتے ہیں اور اپنے بچوں کی اکثر و بیشتر غیرمناسِب حرکات سے چشم پوشی کر لیتے ہیں ۔والدین کی یہی چشم پوشی آگے چل کر بچے کے لیے مصائب و مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ،اولاد کی چھوٹی چھوٹی خطاوئوں کو خاطر میں نہ لانا ایک بہت بڑی غلطی ثابت ہوسکتی ہے ،والدین کو اس حوالے سے بہت حساس اور فکر مند رہنے کی ضرورت ہے ۔بقول اقبالؔ ؎
یہ نہ سمجھو کہ پیرہن جل جائے گا
آگ دامن میں لگی تو تن بدن جل جائے گا
اساتذہ کے تعمیری کردار کی بات کی جائے تو تاریخ گواہ ہے کہ اساتِذہ نے ہر دور میں معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مثبت اور تعمیری رول ادا کیا ہے ۔تاریخ کے اوراق اِس امر کے شاہد ہیں کہ جن قوموں نے ترقی اور خوشحالی کے ضمن میں میدان مارا، ان تمام ترحقائق کے پیچھے انکے بہتر تعلیمی نظام اور اساتذہ کا اہم رول رہا ہے ۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ جب جب اساتذہ نے اپنے اس پاک و صاف منصب کے تیں غفلت شعاری سے کام لیا، تب تب سماج کو اس کا ناقلِ تلافی نقصان پہنچا ۔ اساتذہ کے اپنے منصب کے تئیں سردمہری کے پیچھے بھی بہت سارے عوامل کار فرما ہیں، جن میں سرِفہرست اُستاد کو معاشرے میں جائز عزت و احترام کے رُتبے سے محروم کر نا ہے ، جس کی وجہ سے اساتذہ برادری میں کہیں نہ کہیں احساس کم تری پیدا ہو چکا ہے اور یہی احساس کمتری معاشرے میں نظامِ تعلیم کے لئے کسی بھی طرح سودمند ثابت نہیں ہو سکتی ۔رہی طلبہ کی بات تو بقول اقبالؔ ؎
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
مفہوم یہ کہ والدین نےبہ حیثیت ِ والدین اپنی اولاد کےتئیں اپنا جائزفرض نہیں نبھایا ، غیر اِرادتاً ہی سہی اپنے فرض سے چشم پوشی کرتے رہے ۔اساتذہ بھی اپنے اس پاکیزہ فرض کی حفاظت کرنے میں کہیں نہ کہیں چوک رہے ہیں ۔اور پھر شاگرد، شاگرد نہ رہا ،ان تینوں فریقین کو مِلا کر بھی اگر کوئی کسر باقی رہی تو خود سماجی ماحول اور دورِجدید کے سوشل اور الیکٹرونک میڈیا نے بھی اس رہی سہی کسر کو پورا کر دیا ۔کُل ملا کر دورِجدید کا معاشرہ انتشار تنائو، بے راہ روی اور جواں نسل جرائم جیسے مسائل کے دلدل میں بُری طرح پھنس چکی ہے اور اگر یہ سب کچھ یو نہی چلتا رہا تو مستقبل قریب میں بھی کسی مثبت سمت اور تبدیلی کی آس لگانا گویا خود کا خوش فہمی میں مبتلا رہنے کے مترادف ہوگا۔ جدید تعلیمی نظام کو اگر چارپہیوں والی گاڑی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ،والدین اساتذہ ، طلبہ اور سماج اہم ستون یا یو ں کہہ لیجئے کہ چار جاندار پہیوں کہ حیثیت رکھتے ہیں ، اگر ان چار میں سے کسی ایک میں بھی خرابی پیدا ہو جائے تو یقینی طور پر کسی مثبت نتیجے کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔بہرحال وقت اور مسائل اس امر کے مُتقاضی ہیں کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے اپنے اپنے فرایض پر توجہ مرکوزکی جائے،اس ضمن میں اس بات کو شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ ایک بار پھر اساتذہ حضرات دانشور اور اہل قلم کو اس ضمن میں ایک تعمیری اور رہنمائی رول ادا کرنا ہو گااور معاشرے میں ایک بار پھر بے لوث خدمت کا ثبوت پیش کرنا ہوگا ۔ خالق ِ کائنات نے اُستاد کی بات درس اور حتیٰ کہ اسکے حرکات و سکنات میں ایسی تاثیر
پیوست کر دی ہے کہ یہ سب کچھ شاگرد کے دل و دماغ پر فوراً اثر کر جاتے ہیں اور تا حیات ساتھ رہ جاتے ہیں ، اساتذہ حضرات نے ہر مُشکل دور میں ملک و قوم کی خدمت کی ہے ، نئی پود اور جواں نسل کو راہِ راست پر لانے میں اہم رول ادا کیا ہے ، دورِ حاضر کے سماجی مسائل بھی اسی امر کے متقاضی ہیں ۔اپنی بات کو دُعائیہ کلمات کے ساتھ ختم کرتا ہوں
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
(مضمون نگار ہائیر سکینڈری سکول سزان۔ ڈوڈہ میں بحیثیت مدرس فرائض انجام دے رہے ہیں ۔) رابطہ۔6005290991
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)