حالیہ دنوں کے اخبارات سے چند سْرخیوں پر ایک نظر؛
* زیورات اور اراضی کے لالچ میں سوتیلے بھائی نے بہن کی جان لی۔
* جنوبی کشمیر کا نوجوان اپنا ایک گْردہ فروخت کررہا ہے۔
* بھائی نے اپنے ہی بھائی کا قتل کردیا۔
* بیوی نے عاشق کی مدد سے خاوند کو جان سے مار دیا۔
* زمین کی پیمائش کے دوران نوجوان نے اپنے چچا کے سر پر کہلاڑی مار دی۔
ایسی خبریں آئے روز اخبارات کے صفحہ اول کی زینت بنتی ہیں اور دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی اور ہی دْھن میں مست ہیں جبکہ مذہبی طبقہ مساجد اور دینی اداروں کی تعمیر میں کچھ اس طرح محو ہے کہ ہر طرف عالیشان مساجد اور آسمان چْھوتے منارے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف ہر جمعہ کو علماء اور ائمہ حضرات چیخ چیخ کر انسان کی اس دْنیا میں حیثیت اور اْس کے مقام اور اُس کی ذمہ داریوں پر وعظ و پندار کرتے ہیں اور دوسری طرف معاشرہ مادی بالادستی کی دوڑ میں مصروف ہے اور اس دوڑ میں ہر جائز ناجائز عمل کو وقت کی اہم ترین ضرورت سمجھتا ہے۔
اوپر نقل کی گئی سْرخیوں سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ ہم اس وقت حیوانی سطح پر جی رہے ہیں، حرام خور طبقہ عزّت کی زندگی جی رہا ہے اور اجتماعی اخلاق کا ہر روز قتل عام ہورہا ہے۔ ہر شخص اپنے ہی بارے میں فکر مند ہے، کرپشن کا دور دورہ ہے، ناجائز منافع خوری عروج پر ہے، خواتین پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیںاور اسی سنگین اخلاقی بحران کے بیچ ہر چہار سْو مساجد کی تعمیر، خانقاہوں کی تجدید اور دینی اداروں کی توسیع ہورہی ہے۔
مسجد مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا مرکز و محور ہے۔ اس کی حیثیت ’ پاور ہاوس ‘ جیسی ہے، جہاں سے مسلمانون کو اخلاقی اور رْوحانی ’انرجی ‘ حاصل ہوتی ہے۔ مسلم معاشرے میں مسجد کا مقام وہی ہے جو انسان کے جسم میں دل کا ہے۔ قران و حدیث میں مسجد کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور اس کی تعمیر کرنے اور آباد رکھنے کو ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ؐ مکہ سے مدینہ ہجرت کرگئے تو مدینہ پہنچنے سے پہلے چند روز ’قْبا ‘ نام کی ایک بستی میں قیام کیا۔ اس موقعہ پر آپ ؐنے وہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی، پھر مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں جن کاموں پر آپؐنے سب سے پہلے توجہ دی ان میں سیایک مسجد کی تعمیر تھی۔ چنانچہ آپؐ نے مسجد کے لئے ایک زمین قیمت ادا کرکے حاصل کی، اسے ہموار کرایا ، پھر اس پر مسجد تعمیر کرائی اور صحابہ کرام نے پورے جوش وخروش کے ساتھ اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔ یہی وہ مسجد نبویؐ ہے جو پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ِ عقیدت و محبت بنی ہوئی ہے۔ اور یہی وہ مسجد ہے جہاں سے دینی، دنیوی، اخلاقی اور روحانی تربیت کے ایسے فوارے پھوٹے کہ جہالت میں لپِٹی دنیا کے ہرچہارسو دیانت داری، مْرّوت، اخوت، حلال خوری اور انصاف کے سبزہ زار لہلانے لگے۔
مسجد نبوی کے گنبد کی طرز پر مسجد تعمیر کرنا بلاشبہ پیغمبر کریم ؐسے محبت و عقیدت کا مظاہرہ ہے، لیکن کیا عملی نتائج کے اعتبار سے سبز گنبد اور اونچے مناروں والی ہماری مساجد مسجد نبوی بن سکی ہیں؟ میں نے ایسی کئی مساجد دیکھی ہیں جن کے ٹھیک بغل میں ایک ہی کمرے میں رہنے والا ایک غریب کنبہ روزانہ بھیک مانگتا ہے۔ دلکش اور خوبصورت مساجد کے صدردروازے پر گداگروں کی قطاریں ہوتی ہیں، رات کو مساجد کے عقب میں نوجوان منشیات کے اندھے کنویں میں جوانیاں غرق کررہے ہیں، مساجد کی ملکیت والی دکانوں پر ملاوٹ کا سامان فروخت ہوتا ہے اور ضروری اشیا نامناسب طور پر مہنگی بِکتی ہیں۔
انسان قرانی اسلوب کے مطابق ظلوماً جہْولا یعنی ظالم اور جاہل ہے۔ اس کی جبلت میں نیکی اور بدی کی بے پناہ خواہشات ہیں۔ انسان بدی کی جبلت پر نیکی کا غلبہ پالے اسی لئے خالق کائنات نے اس کے لئے اخلاقی تربیت کا انتظام پیغمبروں کی بعثت کی صورت میں فرما دیا ہے۔ پیغمبروں کی بعثت سے ہی انسان کے مہذب اور اجتماعی سماج میں قانون اور نظام عدلیہ کا تصور پیدا ہوا۔ قانون کی حکمرانی کا تصور یوں تو پانچ ہزار سال پرانا ہے، کیونکہ اس کی شروعات قدیم مصر سے ہوئی اور یونان میں قانون کو جمہوریت کی ترویج کے لئے استعمال کیا، لیکن باقاعدہ قانونی نظام اپنی موجودہ ہیت میں چند صدیاں قبل ہی سامنے آیا ہے۔ فرانس، امریکہ اور برطانیہ میں اٹھارویں صدی کے انقلابات کے بعد دنیائے انسانیت میں حریت ِ آدم، مساوات، آزادی اور انصاف کے اصول وضع ہوئے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ انسان پر اب بھی بدی کی جبلت کا غلبہ ہے۔ اس کی صاف وجہ ہے کہ مذہبی طبقہ جن اداروں یا مساجد کی تعمیر میں لگا ہے وہ بے شک مسجد نبوی جیسی دکھتی ہوں، لیکن نتائج کے اعتبار سے وہ محض اینٹ گارے کا ڈھیر ہیں۔
ہمارے یہاں جب دارلعلوموں کی تعمیر کا سلسلہ رائج ہوا تو چندہ جمع کرتے وقت علماء حضرات کہتے تھے کہ ان اداروں سے جو مفتیان اور ائمہ فارغ ہونگے وہ سماج کے اجتماعی اخلاق کو درست کرنے کا ذریعہ ثابت ہونگے۔ چالیس سال سے یہی عمل جاری ہے، ہر سال دارالعلوموں سے مفتیان، مبلغین اور ائمہ کی فوج تیار ہوکر میدان میں کود پڑتی ہے۔ اور ستم یہ ہے کہ جب لوگ اخلاق کے گِرتے معیار پر بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں تیس چالیس سال قبل حالت اتنی خراب نہ تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دینی اداروں، قریہ قریہ وعظ و تبلیغ یا مساجد و دارالعلوموں کی تعمیر سے ہی سماجی کردار میں گراوٹ ہوئی، بلکہ کہنے کا مدعا یہ ہے کہ کیا علماء اپنے ایجنڈے میں ناکام ہوگئے؟
آغاز میں عرض کرچکا ہوں کہ مسجد مومنوں کا ’پاور ہائوس ‘ ہے، جہاں سے مسلمانوں کو روحانی اور اخلاقی ’ انرجی ‘ حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اب حال یہ ہے کہ مساجد اب بعض اہل ثروت اور اہل رسوخ حضرات کا ’ پاور سینٹر ‘ بن گئی ہیں۔ تیس چالیس سال کی سرکاری سروس کے بعد جب کوئی بیوروکریٹ سبکدوش ہوجاتا ہے تو وہ خطیر رقم چندے میں ڈالتا ہے اور اُن تمام سرمایہ داروں سے بھی بھاری چندہ لیتا ہے جن پر اُس نے جائز ناجائز احسانات کئے ہوتے ہیں۔ اس طرح صاحب کی دھوم مچتی ہے اور ریٹائر ہونے کے بعد بھی وہ خود کو بے اختیار محسوس نہیں کرتا ہے کیونکہ اب وہ اپنی بستی اور اس کے ارد گرد بستیوں کا کرتا درتا ہوتا ہے۔ کیا مساجد پاور انجوائے کرنے کا ذریعہ بن کررہ گئی ہیں؟
معاشرہ بھی اس معاملے میں یکساں طور پر جواب دہ ہے۔ ہم نے دیکھا کہ تاریخی جامع مسجد کے باہر شاہراہ کے بیچوں بیچ ایک مسجد تھی۔سڑک کی کشادگی مطلوب تھی تو مسجد کو گرانے کی ضرورت پیش آئی۔ میرواعظ محمد عمر فاروق پڑھے لکھے نہ ہوتے تو ہجوم نے مسجد کو بچانے کا بیڑا اٹھا لیا تھا۔ میرواعظ صاحب نے نہایت اسلامی شعار کے مطابق ایک سلیم العقل مذہبی رہنما کا ثبوت دیا اور مسجد کو گرانے کی اجازت دے دی۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں دریائے جہلم کے کنارے سرکاری اراضی پر مساجد تعمیر ہیں۔ یہاں تک کہ رام باغ کے قریب جب فلائی اووَر کی تعمیر کے لئے دونوں جانب مکانات گرانے کا منصوبہ درِدَست لیا گیا تو لوگوں نے آناً فاناً بالکل سڑک کے دہانے پر چار منزلہ مسجد کھڑی کردی، یہ سوچے بغیر کہ آخر کار جب سڑک کی کشادگی عمل میں آئے گی تو مسجد کا کیا ہوگا؟
ایسی ہی مساجد میں جب سالہاسال تک آپ نیک نیتی، پاکیزگی، دیانت داری، انصاف اور اخلاقیات کا وعظ پڑھیں گے، تو خْدارا بتائیے کہ اس کا اثر کیونکر ہوگا؟ قوانین ایک جبری طریقہ ہے جرائم کو روکنے کا، جبکہ مذہب رْوحانی تربیت کے ذریعہ جرائم روکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ روحانی تربیت کا نظام بھی پاکیزہ ہو۔ ہمارے جن دارالعلوموں سے ہمارے ہی واعظ فارغ ہوتے ہیں، اْن کی تعمیر میں ہر ایرے گیرے نتھو کھیرے کا سرمایہ لگتا ہے۔ چندہ جمع کرتے وقت یہ نہیں سوچا جاتا کہ کیا راشی افسران، ملاوٹی تاجر، بددیانت شہری یا ظالم حکمران کے پیسے سے تعمیر کئے گئے اداروں سے جو لوگ فارغ ہونگے اْن کی کاوشیں کیسے باو آور ہونگی؟
ہمارے یہاں موجودہ اخلاقی بحران کے لئے جہاں علما حضرات بنیادی طور پر جواب دہ ہیں وہیں پر معاشرہ خاص طور پر معاشرے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حساس لوگ بھی جواب دہ ہیں۔ ہمارے کارخانوں، دفاتر، تعلیمی اداروں اور دوسرے مقامات پر بیشتر لوگ نماز پڑھتے ہیں، مسجد جاتے ہیں ، اسلامی شعائر کے مطابق زندگی بھی گزارتے ہیں، لیکن جب ذاتی مفاد ، پرموشن، یا خوامخواہ حسد کی بنیاد پر اپنے ساتھی کی ٹانگ کھینچنے کا وقت آتا ہے تو اْن کی بظاہر نیک پرسنیلٹی پر بدی کی جبلت حاوی ہوجاتی ہے۔ اور دوسرے نیک بخت لوگ محض آنکھوں کا لحاظ بچانے کے لئے زبان نہیں کھولتے۔
ہمارے یہاں کبھی کبھار ایسی بھی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ کوئی غریب آٹو ڈرائیور جیب سے پیسے خرچ کرکے اشتہار دیتا ہے کہ رِکھشے میں کوئی زیوارت اور نقدی سے بھرا بیگ بھول گیا ہے۔ ایسی بھی خبریں آتی ہیں کہ کسی نوجوان نے جان خطرے میں ڈال کر کسی ہندو یاتری کی جان بچالی، یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب آفت آتی ہے تو کس طرح نوجوان سرگرم ہوکر جانیں بچاتے ہیں، عطیات جمع کرکے متاثرین کی مدد کرتے ہیں۔ یہ اْمید کی کرن ہے، کیونکہ اجتماعی اخلاق کی ابھی حالات زیادہ خراب نہیں ہوئی ہے۔ لیکن انفرادی سطح پر ہم اپنے پڑوسیوں، ہم پیشہ دوستوں، گاہکوں اور ہر اْس شخص کے ساتھ ظلم ہی کرتے ہیں جس کے ساتھ ہمارا کوئی معاملہ ہو اور ہماری قْدرت میں ہو کہ ہم جیسا چاہیں کریں۔ گلکار ہو یا نجار، الیکٹریشن ہو یا پلبمر، ٹھیکیدار ہو یا میکانک، عام اِنسان مجبورِ محض اْس کی بات مان لیتا ہے۔
جس رفتار سے ہمارے یہاں مساجد اور دینی ادارے تعمیر ہورہے ہیں، اْسی رفتار سے انفرادی اخلاق گراوٹ کا شکار ہورہا ہے۔ ریستوراں کا مالک، مرغ فروش، کرانہ فروش، اور سبھی کاریگر یا ہنرمند افراد جمعہ کو مسجد میں دارالعلوموں سے فارغ مولوی صاحبان کا وعظ سنتے ہیں، لیکن مسجد سے نکلتے ہی وہ اپنے اپنے ٹارگٹ کے مطابق گاہکوں کو لوٹنے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ قوانین تو ہیں لیکن نافذ کرنے کا عمل کرپٹ ہے، ایسے میں مذہب ہی واحد ذریعہ ہے جس سے انفرادی اخلاق کی درستی ہوسکتی تھی۔ لیکن ہمارے مذہب کی نمائندگی عالیشان مساجد کے سبزگنبد اور اونچے منار کرتے ہیں۔ مذہب کی نمائندگی انسانوں کا اجتماعی اور انفرادی کردار ہونا چاہئے نہ کہ مذہبی انفراسٹرکچر۔
(کالم نویس معروف سماجی کارکن ہیں)
رابطہ۔ 9469679449 ،[email protected]