اخلاقی انحطاط کا انسداد کیسے ہوگا؟ غور طلب

مصروف منظور

یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ اگرکسی معاشرے کو کسی مہلک بیماری کا سامنا ہوتا ہے تو اُس معاشرے کے ذمّہ دار اور دانشور افراد لوگوں کو اس بیماری کے اسباب اور ممکنہ خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہیں اور انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ انہیں کیا اور کیا نہیں کرنا چاہیے ،اس مہلک بیماری سے بچنے کے لئےجو لوگ ان دانشور اور عقلمند افراد کی انتباہوں اور نصیحتوں پر کان دھرتے ہیں وہ نسبتاً ضرور اُن لوگوں سے محفوظ رہتے ہیں جو ٹس سےمَس نہیں ہوتے۔
اخلاقی انحطاط بھی ایک پیچیدہ اور سنگین بیماری سے کم نہیں ،جس کے گہرے اثرات ایک سماج پر پڑتے ہیں۔اس سے مراد مغلوب لالچ، خود غرضی، ہوس پرستی، نشہ آور چیزوں کی لت، جُوّا، گھٹیا پن، غصہ اور اس طرح کی مختلف دیگر خصلتیں جو لوگوں کو انحطاط کے سب سے نچلے درجے تک لے جاتی ہیں۔یہ کچھ افراد کے بظاہر بے ضرّر انتخاب کے ساتھ آہستہ آہستہ شروع ہوتا ہے لیکن پھر یہ ایک وباء کی طرح پھیلتا ہے جو اندر ہی اندر افراد، خاندانوں، معاشروں اور قوموں کو تباہ کر دیتا ہے۔

ہم کہیں نہیں جائیں گے،اگرہم اپنی ہی وادی کے بارے میں بات کریں گے ہمارا معاشرہ اخلاقی حالت زار کے عروج پرہے۔ بدقسمتی سے اخلاقی زوال اور کشمیر آج کل یکساں اصطلاحات بن چکے ہیں۔ہر روز ہمیں بد سلوکی کے بڑھتے ہوئے واقعات، منشیات کا بے تحاشہ استعمال، خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی شرح، گھریلو تشدد کے تکلیف دہ واقعات، اپنے نوجوانوں میں بے حیائی اور عدم برداشت سے متعلق سکینڈلز کے حوالے سے خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ایسے واقعات کا رونما ہونا وہ بھی مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے میں جو پیر وأر ی کے نام سے مشہور ہے، اس سطح کی نمائندگی کرتے ہیں کہ اخلاقی دیوالیہ پن نے ہمیں کس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔یہ معاملہ معاشرے کے کسی مخصوص طبقے کا نہیں ہے بلکہ یہ ایک معاشرے کے طور پر ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔اگر اس ناکامی کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارا معاشرہ اجڑے پن اور حیوانیت میں گر جایا گا۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں اور خاص طور پر نوجوانوں کو بہتر اور ذمہ دار شہری بنانے کے لئے اخلاقی اصول اور اچھے طور طریقے اُن میں ابلاغ کرنے کی کوشش کی جائے۔کیونکہ اخلاقی طرز عمل ہی ہے جو معاشرے میں ہم آہنگی اور امن قائم کرنے کی کلید ہے۔
جس کے لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے آپ کو اور آپنے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم کی طرف رہنمائی کریں کیونکہ قرآن مجید ایک ایسا وظیفہ ہے جو انسان کے اندرون کو صاف کرنے میں کلیدی کردار ادا کرکے حسد، خود غرضی، لالچ، بے حسی وغیرہ جیسے آلودگیاں (جو دل پر مہر لگاتے ہیں اور اخلاقی انحطاط کی بنیادی وجوہات ہیں) سے چھٹکارا حاصل کرنے میں انسان کا مدد گار ثابت ہوتاہے۔اس کتاب کے نزول سے لے کردنیا کے اختتام تک یہ کتاب انسانیت کے لئے اپنے ضابطہ اخلاق کے ساتھ تمام آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ والدین حضرات کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن سیکھنے پر آمادہ کرے،جس سے اُن کی بنیاد مضبوط ہو جائے گی اور وہ بڑے ہو کر بہتر مسلمان بن جائیں گے۔جیسے ہم اوپر بھی عرض کرچکےہیں کہ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو بہت زیادہ معلومات فراہم کرتی ہے اور اپنے قارئین کو بہتر کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے، اخلاقی انحطاط جیسے بُرے رویے، شراب نوشی، منشیات، خود غرضانہ عادات جیسے جنسی بے حیائی اور زنا، جوّا، حسد،غیبت، تکبر اور غصہ کو سختی سے منع کرتی ہے۔ سورہ النحل میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:’’بے شک اللہ تمہیں منع کرتا ہے بے حیائی سے اور تم کو سمجھاتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔‘‘بے حیائی سے مراد ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں فتبیح ہو، مثلا ًزنا،برہنگی، عریانی،چوری، شراب نوشی،بدکلامی وغیرہ (صاحبِ تفہیم)یہ آیت قرآن مجید کی جامع ترین آیت مبارکہ ہےجو ہر جمعہ کے خطبے میں پڑھی جاتی ہے۔اس آیت پر اگر عمل کیا جائے تو یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی کامل خوشحالی کے لئے آب حیات ثابت ہوتی ہے۔رسول اللہ ؐ کے اخلاق کی بہترین تعریف حضرت عائشہؓ اپنے اس قول میں فرماتی ہے کہ،’’قرآن آپ کا اخلاق تھا (مسلم)۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبیؐ نے نہ صرف قرآن کی تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کیا بلکہ اپنی ذاتی مثال سے اپنا عملی مظاہرہ بھی کیا،جو تمام قارئین کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ زنا کےمتعلق قرآن کا فرمان یہ ہے کہ ’’اور پاس نہ جائیں، بدکاری کے، وہ بے حیائی اور بُری راہ ہے۔‘‘۔ یہی معاملہ ہے دوسرےبُرے اعمال کا بھی جو اخلاقی زوال کا باعث بنتے ہیں۔اگر ہم حقیقی اپنے معاشرے کو اخلاقی زوال کی اس لعنت سے بچانا چاہتے ہیں تو لازمی طور پر ہمیںاور ہمارے بچوں کو قرآن کی تعلیم کی طرف راغب ہونے کی اشد ضرورت ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو قرآن و حدیث پر عمل کرنے کی توفیق دے۔( آمین)