احسان افسانہ

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی

دیکھ کر نہیں چل سکتے۔ اس عمر میں صج صج سیر کو نکلنا کیا بیوقوفی نہیں ہے۔ اگر بریک نہیں لگ جاتی تو آپ گاڑی کے نیچے آگئے ہوتے۔ بھگوان کا شکر ہے کہ چوٹ نہیں آئی۔ میں کسی کام سے گھر سے نکلا تھا۔ پتہ نہیں اب کام بنے گا بھی یا نہیں ۔ اس منحوس کا سامنا کرنا پڑا۔ بیٹے میں سیر کو نہیں مندر جا رہی ہوں ۔ ہائے مجھے درد ہو رہا ہے۔ بڑھیا چِلائی۔
بڑھیا کچھ نہیں ہوا ہے تمہیں ۔ زیادہ ڈرامہ مت کر ۔ تمہیں تو خراش بھی نہیں آئی ۔ یہ کہہ کر نوجوان نے گاڑی میں چابی لگائی اور وہاں سے نکل گیا۔ چند قدم ہی چلا تھا کہ ایک راہگیر نے روکا اور بڑے تپاک لہجے میں کہا ۔ اللہ سے ڈرو اے نوجوان۔۔۔ اللہ سے ڈرو ۔۔۔۔۔۔
بڑھیا کو اٹھاتے ۔تسلی دیتے ۔ لیکن کہاں؟ تم میں وہ صلاحیت ہی نہیں ہے ۔ نوجوان نے غصے سے جواب دیا۔ زیادہ تقریر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں اگر زیادہ پریشانی ہو رہی ہے تو تم ہی اسے سنبھالو اور گھر لے جاؤ ۔ ہاں ہاں لے جاؤں گا۔احسان نامی اس نوجوان نے بڑی جرأت مندی سے جواب دیا۔ بحث ابھی چل ہی رہی تھی کہ اتنے میں پولیس نمودار ہوئی اور ڈرائیور کو تھانے لے گئی۔
احسان نامی یہ نوجوان بڑھیا کے پاس آیا، اسے تسلی دی اور اسے ہسپتال پہنچایا جہاں اس کا علاج معالجہ کیا گیا ۔
ادھر بڑھیا کا بیٹا اوپندر کنیڈا سے اپنی ماں کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے آیا تھا۔ پہلے پہل تو ماں کینیڈا جانے کے لئے تیار نہیں تھی لیکن اب چونکہ صحت بگڑ چکی تھی لہٰذا اب بیٹے کے ساتھ جانے کے لئے راضی ہو چکی تھی ۔ اوپیندر اپنے آبائی مکان کو بیچ کر ماں کو کینیڈا لے جانے کے لئے تیار تھا اور اس بات کا فیصلہ وہ انڈیا آنے سے پہلے ہی کر چکا تھا۔اوپیندر نے مکان بیچنے کے لئے اشتہار بھی دیا تھا اور مکیش نام کے ایک شخص نے اوپیندر سے بات بھی کی تھی۔ اور وہ شخص اوپیندر کو ائرپورٹ سے رسیو کرنے والا تھا اور طے یہی ہوا تھا کہ ائرپورٹ سے گھر آتے آتے مکان کے حوالے سے بات بھی کریں گے۔ لیکن ائیرپورٹ پر پتہ چلا کہ مکیش کو ایک حادثہ پیش آیا اور اسی سلسلے میں پولیس اُسے پکڑ کر لے گئی اور اسی وجہ سے وہ ائرپورٹ نہیں آسکا تھا ۔ اب ٹیکسی لے کر اوپیندر گھر پہنچا اور یہاں پتہ چلا کہ ماں کو کسی نے ٹکر مار دی اور وہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔ پتہ چلتے ہی اوپیندر فوراً ہسپتال پہنچ گیا۔ چند گھنٹوں کے بعد ماں جی کو ہسپتال سے رخصت کیا گیا۔ جب تک ماں جی ہسپتال میں زیر علاج رہی تب تک احسان ماں کے ساتھ ہی رہا اور ماں کی دل و جان سے خدمت کی ۔ہسپتال سے نکل کر احسان نے رخصت مانگی تو اوپیندر نے کہا۔ آپ ہمارے ساتھ آئیے ہمارے گھر تک۔ میری ماں کو ہسپتال پہنچا کر آپ نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا۔ خیر احسان اوپیندر کے گھر گیا۔ وہاں چائے وغیرہ پی اور باتوں باتوں میں اوپیندر نے بتایا کہ دراصل میں نے اس مکان کا سودا کیا تھا، کوئی مکیش یہ مکان خریدنا چاہتا تھا وہی مجھے ائیرپورٹ سے رسیو کرنے والا تھا۔ ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی لیکن کسی وجہ سے وہ نہیں آیا اور نہ ہی میرا فون اٹھایا۔
احسان نے کہا جناب لیکن آپ یہ مکان بیچنا کیوں چاہتے ہیں ۔
اور کیا کروں گا مجھے کینیڈا کی سٹیزن شپ ملی ہے۔میرے بچے وہاں پڑھتے ہیں ۔ خیر آپ اپنے بارے میں بتائیے آپ کیا کرتے ہیں۔جناب اپنے بارے میں کیا بتاؤں ۔ پچھلے سات مہینوں سے ایک چھوٹے سے مکان کی تلاش میں ہوں ۔ میرے تین بچے ہیں جو ایک ٹینٹ میں رہ رہے ہیں ۔ایک پرانے مکان میں رہ رہا تھا جو سڑک کی رد میں آیا ہے۔ سڑک کشادہ ہو گئی اور میں سڑک پر آگیا۔ اب ایک کرایئے کے مکان میں رہ رہا ہوں لیکن مکان مالک بھی اب مکان خالی کرنے کو کہہ رہا ہے۔
تو پھر آپ ہی میرا مکان کیوں نہیں لے لیتے۔ نہیں اوپیندر جی یہ مکان خریدنے کی میری اوقات نہیں ہے۔ مجھے تین چار لاکھ کا چھوٹا سا مکان چاہئے ۔ میری اتنی اوقات نہیں ۔
نہیں ایک بار میں پھر سے مکیش سے بات کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس کے بعد آپ سے بات کروں گا ۔
اوپیدر نے فون لگایا۔
ہیلوہیلو مکیش۔۔
میں اوپیندر بول رہا ہوں ۔ آپ ائرپورٹ کیوں نہیں آئے تھے۔
کیا بتاؤں تمہیں ۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ تمہیں میری وجہ سے تکلیف اٹھانی پڑی ۔دراصل آج صبح ائرپورٹ کی جانب ہی جارہا تھا کہ ایک بڑھیا گاڑی کے نیچے آگئی۔ اس نے ہنگامہ کیا وہاں ۔
میں نکلنے ہی والا تھا ایک نوجوان نے مجھے روکا۔ اتنے میں پولیس آئی اور مجھے پکڑ کے لئے گئی ۔ ابھی ابھی پولیس نے چھوڑا ہے۔
اچھا تو آپ نے جس نے میری ماں کو ٹکر ماری۔ اور پھر کھری کھوٹی بھی سنائی اور وہاں سے بھاگنے بھی لگے تھے۔ بھلا ہو احسان کا جس نے میری ماں کو ہسپتال پہنچایا ۔ آپ مکان کی بات ہی چھوڑئیے ۔ میں اب یہ مکان احسان کو ہی دے رہا ہو۔ اس نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے ۔
اوپیندر نے فون رکھ دیا اور احسان کی طرف متوجہ ہوا۔
احسان آپ نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ میں آپ کے احسان تلے دب چکا ہوں ۔ سوچتا ہوں کس طرح سے آپ کے اس احسان کا بدلہ چکا سکوں۔ نہیں نہیں جناب ایسی کوئی بات نہیں ۔ اوپیندر جی مجھے اجازت دیجئے میں چلتا ہوں ۔ احسان نے اوپیندر سے کہا ۔ ٹھیک ہے تم یہ میرا مکان نہیں خرید سکتے لیکن کیا مجھ پر ایک احسان کرو گے۔ حکم کیجئے جناب۔
بس آپ تب تک میرے اس مکان میں رہ لیجئے جب تک اپنے مکان کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ یہاں کی ہر چیز آج سے آپ کی اپنی ہے۔
لیکن ۔۔۔۔۔
لیکن ویکن کچھ نہیں یہ مکان آج سے آپ کے پاس میری امانت ہے، میں ضروری کاغذات بھی تیار کروا لوں گا۔ اِحسان جذباتی ہو گیا اور اوپیندر سے لپٹ کر رونے لگا۔جیسے اس کی تمام مشکلات کا ایک دم سے حل نکل آیا ہو ۔ اس نے اوپیندر کو گلے لگایا اور اوپیندر نے کہا یہ بھی یاد رکھنا کہ میرا اب یہاں کوئی نہیں ہے اور میں اب ہمیشہ کے لئے کینیڈا میں ہی رہنے والا ہوں ۔
���
بھدرواہ حال جموں، موبائل نمبر؛8825051001