شاہینہ یوسف
کسی سے کتنی ہی اُلفت کیوں نہ ہو لیکن بغیر پیسوں کے خالی محبت کا انسان کیا کرے ‘یہ محبت بغیر پیسوں کے چینی کے بغیر چائے جیسی ہوتی ہے۔ نعیمہ نے پہلی بار اس طرح کی باتیں ہارون سے کہہ ڈالیں کہ وہ سکتے میں آگیا اور کچھ مدت بعد اُس نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے جواب دیا’’یہ بات کسی حد تک سچ ہے لیکن جو کسی سے سچی محبت کرتے ہیں اُنہیں اس بات سے قطعی فرق نہیں پڑتا کہ جس سے محبت ہو وہ دولتمند ہے یا فقیر ‘‘۔
’’دیکھو اس طرح کی کڑواہٹ ٹھیک نہیں ۔‘‘کیسی کڑواہٹ ؟نعیمہ نے اپنے آپ پر الزام آتے فوراََ جواب دیا۔‘‘
میں وہی کہہ رہی ہوں جو سچ ہے ۔سچ My Foot ہارون نے غصے سے لال ہو کر جواب دیا ۔دراصل تمہیں دوسروں پر اپنے فیصلے صادر کرنے کا شوق ہے، ہارون نے مزید کہا۔شاید سچ ہی کہا ہے کسی نے کہ بہن بھائی کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوجائیں ان کا لڑنا کبھی کم نہیں ہوتا ۔آج پتہ نہیں یہ دونوں بہن بھائی کس بحث میں الجھ گئے ہیں۔ماں نے دوسرے کمرے سے بہن بھائی کے لڑنے کی آواز سنتے ہوئے اپنے آپ سے کہا ۔ماں کے کمرے میں داخل ہوتے ہی دونوں بہن بھائی ایسے چُپ ہوگئے جیسے ان کے درمیان کبھی لڑائی ہی نہ ہوئی تھی۔
’’یہ کیا اناپ شناپ بک رہے ہو‘‘۔’’تم دونوں تو آپسمیں اس طرح لڑ رہے ہو کہ گویا جیسے دو ممالک زمین کے کسی خطے کے لئے لڑ رہے ہوں۔‘‘
دیکھو ماں مجھے پتہ نہیں کبھی کبھی کیا ہوجاتا ہے کہ جب بھی میں کوئی ایسی بات سنتی ہوں جو برداشت سے باہر ہو میں تو آگ بگولہ ہوجاتی ہوں ۔
’’ایسا نہیں کرتے ورنہ تم میں اور ظالموں میں کیا فرق رہے گا ‘ماں نے پیار بھری نگاہوں سے نعیمہ کی طرف دیکھ کر بولا ۔لیکن ماں یہ سچ ہے نا کہ کئی لوگ تو دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو صرف اور صرف پیسوں کے پیچھے ہی پڑے ہوتے ہیں ۔ان کے سامنے زندگی کا ایک ہی اصول ہوتا ہے پیسا۔۔۔پیسا اور پیسا۔۔۔ماں نے بات کو زیادہ طول نہ دیتے ہوئے کہا چلو ایسا نہیں سوچتے، تمہاری عمر ابھی پڑھنے کی ہے نہ کہ اس طرح کی باتوں پر بحث کرنے کی ۔آپس میں کچھ مدت تک بات نہ کرنے کے بعد یہ بہن بھائی پھر سے ایک ساتھ کھیلنے لگے۔
تیسرے دن یہ بچے، جو کہ ایک ہی اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، اسکول کی جانب نکل گئے اور گھر سے باہر اسکول بس میں سوار ہو کر چل دیئے۔ان دونوں بچوں کی عمر میں زیادہ تفاوت نہ تھا اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہی اسکول کی راہ لیتے تھے۔اسکول جاتے وقت ہی آسمان پر ہلکی ہلکی نمی تھی اورنہ جانے آج راستہ بالکل ویران سا کیوں لگ رہا تھا ۔ گاڑی سے یہ منظر صاف نظر آرہا تھا ۔ نعیمہ اور اس کا بھائی اسکول تو پہنچ گئے لیکن چھٹی کے وقت نعیمہ کو اپنی ایک دوست مہ وِش کے یہاں سے کاپی لینی تھی ‘جن کا گھر اسکول سے تھوڑی دوری پر تھا ۔اس لیے یہ بچے آج اسکول بس میں نہ چڑھےاور ڈرائیور نے بھی ان کی ماں کے کہنے پر انہیں اجازت دے دی۔مہ وش کے گھر سے نکلنے کے کچھ دیر بعد آسمان سے زور دار بارش برسنے لگی۔’’میں نے آپ کو بتایا بھی تھا کہ آج آپ کی دوست کے یہاں نہیں جائیںگے ،لیکن آپ بھی نا!۔ بھائی نے ایک ہی آواز میں یہ سب کچھ کہہ ڈالا۔
ارے بھائی جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ہمارا کسی کام کو کرنا یا نہ کرنا ہمارے حق میں تھوڑی ہوتا ہے بلکہ اصل کام تو مالک کا ہے جو ہم سے یہ سب کروا رہا ہے ۔تم کہاں سے کہاں پہنچ گئی، میں نے تو یوں ہی کہا تھا۔ارے بابا میں نے بھی تو یوں ہی جواب دیا ۔یہ دونوں مہ وِش کے گھر کے پاس سے گاڑی کا انتظار کرنے لگے تاکہ اس تیز بارش میں وہ جلد گھر پہنچ جائیں لیکن وقت کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور بارش بھی مہوش کے گھر سے نکلنے کے بعد اس قدر تیز ہو گئی کہ کسی کو بھی چلنے کا موقع نہیں ملا اور اولے بھی اس قدر برسے کہ کسی کی ہمت نہ ہوئی راہ پر چلنے کی ۔سب بارش بند ہونے کا انتظار کرتے رہے ۔ بارش بند ہونے کا انتظار کرتے کرتے کب وقت تیزی سے نکل گیا پتہ ہی نہ چلا ۔راستے پر اگرچہ کچھ مدت کے بعد کئی گاڑیاں گزریں لیکن کسی نے بھی ان بچوں کو لفٹ نہ دی ۔انجان راستے پر کسی نے بھی ان لوگوں کی مدد نہ کی ۔
’’ماں بھی گھر میں پریشان ہوگی ‘‘بہن نے بھائی سے مخاطب ہو کر کہا ۔
’’ہاں وہ تو ہے اور مما کو میں نے بتایا تھا کہ میں دوست کے یہاں کاپی لینے جا رہی ہوں لیکن کس دوست کے یہاں جارہی ہوں یہ نہیں بتایا۔اور صبح جلد بازی میں ہم چھاتہ بھی نہ ساتھ لائے۔دونوں تھوڑا اور دور نکل گئے لیکن ان کی مدد کو کوئی نہ آرہا تھا ۔اتنے میں ایک تیز رفتار ٹرک آکر دونوں کو ٹکر مار کے فرار ہو گیا ۔ایک نوجوان اگر چہ ان دونوں کو اُٹھانے کے لیے آگے بڑھ بھی گیا لیکن اُس کے ساتھ ایک بزرگ خاتون نے اُسے یہ کہہ کے روکا کہ’’مت جاؤ ان کے نزدیک کیا پتہ ان کی یہ درگت کیسے ہوئی ہو گی ‘خوامخواہ انہیں اسپتال پہنچا کر پولیس کے جھمیلوں میں کیوں کر پڑنا‘‘۔نوجوان نے بھی اسی میں عافیت جانی اور اس بزرگ خاتون کے ساتھ اپنی منزل کی طرف نکل پڑا ۔شام کو جوں ہی یہ معمر خاتون اپنے اہل و عیال کے ساتھ ٹی وی دیکھنے لگی تو اس کی آنکھیں حیرت زدہ ہوگئیں، جب اس نے ان دونوں بچوں کو سڑک پر لاش کی صورت میں دیکھا ۔معمر خاتون اور اس کے بیٹے نے جوں ہی یہ لاشیں دیکھیں تو دونوں سکتے میں آگئے اور جوں ہی اس خاتون نے سونے کی کوشش کی تو یہ دونوںبچے قہقہ زن ہو کر اسے سونے نہ دے رہے تھے ‘وہ لگاتار آنکھیںبند کر رہی تھی لیکن اُسے نیند نہیں آرہی تھی۔یہ بچے اگر چہ دوسری دنیا میں چلے گئے تھے لیکن ان کی شکلیں مسلسل کئی روز تک اس معمر عورت سے یہی سوال کر رہی تھیں کہ کیاہم تمہارے بچے نہ تھے؟۔اس کے بعد معمر عورت خدا کے حضور میں سربہ سجو ہو کر معافی مانگنے لگی۔
���
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو سینٹرل یونی ور سٹی آف کشمیر
بارہمولہ کشمیر، ای میل:۔[email protected]