اتحاد ِ اُمت ۔وقت کی اہم ضرورت

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اتحاد و انقاق میں طاقت ہے جبکہ نفاق اور انتشار میں کمزوری ہے ۔گھر سے لیکر ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح تک اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ جن گھروں اور جن ملکوں میں اتحاد قائم رہتا ہے، وہ گھر اور وہ ممالک ترقی کی مختلف منزلیں طے کر کے کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہیں جبکہ جن گھروں ، ملکوں اور قوموں میں پھوٹ پڑتی ہے ،ان کا نام و نشان مٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔کسی بھی منتشر قوم اور ملک کو زیر کرنا بہت آسان ہوتا ہے جبکہ کسی بھی متحد قوم کو قابو میں کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔اتحاد ایک دیوار کی ماند ہوتا ہے، جب تک دیوار سالم ہوتی ہے ،اس سے ایک اینٹ نکالنایا ہلانا ناممکن ہوتا ہے لیکن دیوار  میں دراڑیں پڑنے کے بعد کوئی کمزور انسان بھی اُس کی اینٹ  نکال کرلے جاسکتا ہے۔موجودہ دور میں جہاں پوری دنیا منتشر ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے، وہاں اُمتِ مسلمہ میں کچھ زیادہ ہی انتشار اور پھوٹ کی شکار ہے ،جس کی وجہ سے امت مسلمہ پوری دنیا میں بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔غیروں نے امت مسلمہ کو اپنے بس میں کر لیا ہے ۔اگرچہ اس قوم میں نہ ہی ہمت استقلال کی کمی ہے اور نہ ہی علم و حکمت کی،نہ ہی افرادی قوت کی کمی ہے ۔کمی اگر ہے تو صرف اتحاد و اتفاق کی۔افسوس کی بات ہے کہ جو قوم ایک خدا کو ماننے والی ہو،جس قوم کا کعبہ ایک ہو ،جس قوم کا قرآن ایک ہو اور جو قوم ایک نبیؐ کے اسوۂ حسنہ پر چلنے والی ہو، اُس میں نفاق کیسا اور کیونکر ہے؟قران مجید میں بھی اتحاد و اتفاق پر زور دیا گیا ہے۔ قران مجید میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:  ’’اور تم سب کے سب (مل کر) خدا کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پُھوٹ نہ ڈالو اور اپنے حالِ زار پر خُدا کے احسان کو یاد کرو، جب تم آپس میں (ایک دوسرے کے) دُشمن تھے تو خُدا نے تمہارے دِلوں میں (ایک دوسرے کی) اُلفت پیدا کردی تو تم اُس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور تم گویا سلگتی ہوئی آگ کی بھٹّی (دوزخ) کے لب پر کھڑے تھے اور گِرنے ہی والے تھے کہ خُدا نے تم کو اس سے بچا لیا، تو خُدا اپنے احکام یوں واضح کرکے بیان کرتا ہے تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔‘‘اتنا ہی نہیں ہمارےپیارے نبی ؐ نے بھی اُمت کے اتحاد و اتفاق پر زور دیا ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’تین چیزوں کے بارے میں کسی بھی مسلمان کا دل کینہ نہیں رکھتا، –یعنی قلبِ مسلم میں کینہ اور خیانت پیدا نہیں ہوتی ۔اللہ کے لئے خالص عمل، مسلم حکمرانوں کے لئے خیر خواہی اور ملتِ اسلامیہ کا التزام، بے شک دعا مسلمانوں کی جماعت کو شامل ہوتی ہے‘‘۔مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی دعائیں سب مسلمانوں کے لئے ہوتی ہیں جو انہیں شیطانی چالوں سے محفوظ بناتی ہیں اور گمراہ نہیں ہونے دیتیں۔( ترمذی)
املت مسلمہ میں اختلافات ہوسکتے ہیں بلکہ ہیں اور اختلافات کا ہونا کوئی کمزوری یا عیب نہیں ہے۔ اختلافات سے تحقیق کے راستے کھلتے ہیں لیکن افسوس تب ہوتا ہے جب یہ اختلافات باہمی نزاح کی وجہ بن جاتے ہیں۔ جب ان اختلافات کو بنیاد بنا کر ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کیچڑ اچھال رہا ہے۔ یہ اُمت نوے فی صد معاملات میں متفق ہے اور صرف چند معاملات میں اختلاف ہے ۔لیکن حیرت ہے کہ نوے فیصد معاملات کو چھوڑ کر یہ اُمت باقی ماندہ معاملات کی اُلجھ کر رہ گئی ہے اور اس سے نکلنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔اس اُمت میں برداشت کی کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ اختلاف رائے کا ہونا کوئی عیب نہیں ہے ،عیب اگر ہے تو وہ مخالف راے کے لئے عدمِ برداشت ہے ۔اس امت کو یہ درس دیا گیا تھا کہ غیروں کے لیے بھی اپنے اندر نرمی ،ہمدردی اور برداشت کی قوت موجود ہو۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کا مسلمان اس قدر شدت اختیار کر گیا ہے کہ اسے مخالف راے سننا بالکل برداشت نہیں ہے ،غیروں کی نظروں میں ہم سب مسلمان ہیں ،چاہے ہم کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوںلیکن غیر مسلموں کی نظروں میں صرف مسلمان ہیں،وہ اگر کوئی بھی اسلام مخالف قدم اٹھاتے ہیں تو مسلمان کے نام پر اُٹھاتے ہیں۔ وہ جب ہماری گنتی کرتے ہیں تو تمام مسلمانوں کو گنا جاتا ہے ۔بس مسلمان اگر مسلمان نہیں ہے تو صرف ایک دوسرے کی نظروں میں نہیں ہے ۔مسلمان کو مسلمان کا بھائی کہا گیا ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہو۔  جبکہ احادیث میں آیا ہے کہ کوئی بھی مسلمان تب تک کامل مسلمان نہیں ہو سکتا ،جب تک کہ وہ وہی چیز اپنے بھائی کےلیے پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہو۔مسلمان، مسلمان کا خیر خواہ ہونا چاہئے اور خیر خواہی کے اس جذبے کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ائمہ مساجد پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اُمت کو جوڑنے کا کام کریں۔ اختلافی مسائل کو چھوڑ کر بنیادی تعلیمات پر زور دیں، جن پر پوری اُمت متفق ہے۔ کسی معاملے پر ایک کااتفاق ہے اور کسی معاملے پر دوسرا متفق نہیں،تو ان معاملات کو علم و حکمت کے ساتھ درست کرنی کی ضرورت ہے۔عبادات تو مسلمان کرتے ہیں لیکن معاملات میں سدھار نہیں لارہے ہیں۔ نتیجتاًمسلمانوں میں جھوٹ،دھوکہ دہی،سودخوری، رشوت، اور بد دیانتی جیسی بیماریوں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ہمارے معاملات اور ہمارا اتحاد دیکھ کر غیروں کو ہماری حالت کا پتہ چلتا ہے، اغیار ہماری تعلیمات سے واقف نہیں ہیں، وہ ہمارے کردار ،معاملات اور ہمارے باہمی تعلقات کو دیکھ کر ہی ہماری صورت ِ حال کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔اس لیے جب ہم اپنی تعلیمات سے ہٹ کر اپنا کردار نبھاتے رہتے ہیں تو اس سے نہ صرف ہمارا ہی نقصان ہوتا رہتا ہے بلکہ دین اسلام کے تئیں بھی لوگ بد <ظن ہوجاتے ہیں ، وہ اسلام کے قریب آنے کے بجائے اس سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ہمارے خطیب حضرات خواہ وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، محض اختلافی مسائل پر بات کرتے ہیں اور اس حوالے سے اپنے نظریہ کو بالکل درست اور باقی نظریات کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں۔ کسی دوسرے انسان کے لیے یا مخالف نظریہ کے لیے کوئی گنجائش نہ رکھنا ہی دراصل شدیدنقصان کا سبب ہوتا ہے ،یہ اُمت اگر آج بھی اختلافات سے باہر نہیں آئے تو اس امت کے لیے کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں رہ جائے گا۔وقت کا تقاضا ہے کہ اُمت کے ذمہ داران کو اُمت کو جوڑنے کا کام کرنا چاہئے اور مخالف رائے سننے کے لئے اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرنا چاہیے۔ امت مسلمہ کے ہر فرد کو دوسرے کی فکر اور ہمدردی ہونی چاہیے۔ امت ایک جسم کی طرح ہے، جسم کے کسی بھی انگ میں اگر درد ہو گا تو باقی جسم اُس درد زدہ انگ سے کیسے لاتعلق ہوسکتا ہے۔ اگر سر میں درد ہوتا ہے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے، آنکھوں سے آنسوں بہتے ہیں، ہاتھ اور منہ دوائی لینے میں مدد کرتے ہیں اور دل بھی رنجیدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سے اگر پیر میں رخم لگتا ہے تو ہاتھ اُس پر پٹی باندھے ہیں یعنی ایک اعضاء دوسرے سے لاتعلق نہیں ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے اُمت میں ایک دوسرے کے تئیں محبت اور ہمدردی میں کمی واقع ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے تئیں بد گمانیاں بڑھتی جا رہی ہیں، جس سے اُمت میں پھوٹ اور انتشار پڑ گیا ہے۔ اسی انتشار کا نتیجہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں آج مسلمان ظلم اور بربریت کے شکار ہیں۔ مسلمان اگر ایک ہو جائیں گے تو دنیا کے بہت سارے مسائل بناہ کسی لڑائی جھگڑے کے ہی حل ہو جائیں گے۔ دنیا کے بہت سے حکمران مسلمانوں کا اتحاد دیکھ کر ہی ظلم اور بربریت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ امت مسلمہ کی طاقت ایک ہونے میں ہے، تب کوئی بات بن سکتی ہے بقولِ شاعر ؎
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبین 
ورنہ ان بکھرے ہوئے ستاروں سے کیا ہو گا 
امت کے ایک ایک فرد کو  اتحاد ِ امت کے لیے کام کرنا چاہئے ،نزاح اور انتشار کی باتوں کو دفن کر دینا چاہیے ۔ آج کل نفرت پھیلانے والی باتوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے  جبکہ علمی اختلافات کو علمی انداز میں سلجھایا جاسکتا ہے۔بد قسمتی سے آئے روز سوشل میڈیا پر ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کا سلسلہ جاری ہے۔شائد  ہر کسی کےذہن میں اس بات نے جگہ بنا لی ہے کہ اگر میری بات سے اتفاق نہیں کیا گیا تومیری کوئی عزت ہی نہیں رہے گی۔ہمارے کئی علما اور خطیب حضرات نے اپنی بات کو اپنی اَنا سے جوڑ دیا ہے۔لیکن ابھی بھی وقت ہے تمام مکتبہ فکر کے ذمہ داران کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اختلافی مسائل کو پسِ پشت ڈال کر اُمت میں اتحاد و اتفاق پر زور دینا چاہیے تاکہ غیر ہمارا تماشہ نہ بنائیں۔یہ وقت کی پکار ہے اور ہمیں اس پکار کو لبیک کہنا چاہئےاور اپنے دلوں کو کدورتوں سے صاف و پاک کر کے ہر مسلمان کواپنے دل میں جگہ دینی چاہیے اور اختلاف راے کو مثبت پہلو میں لینا چاہئے ۔ہمارے مقاصد جلیل القدر اور اعلیٰ ہونے چاہئے نہ کہ حقیر اور کمتر۔ہمیں ان چھوٹے چھوٹے اختلافات سے اوپر اٹھنا چاہیے اور اپنے اصل مقصد کی طرف راغب ہونا چاہئے ۔ورنہ ایسا نہ ہو کہ ہم کہ باز یچے ہوکر رہ جائیں۔کہیں ہم اپنی صلاحیتوں کو بھول تو نہیں چکے ہیں ،ہمیں پھر ایک بار تاریخ کے ورق پلٹنے چاہیے تاکہ ہمیں اپنی اصلیت کا پتہ چل جائے کیونکہ ہمیں بہت ساری منزلیں طے کرنی ہیں۔ بقولِ شاعر ؎
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے آگے آسمان اور بھی ہیں
(اویل نورآباد،رابطہ۔7006738436)