اتحادو اتفاق اورباہمی یگانگت ،وقت کی اہم ضرورت

بلا شبہ اسلام دین فطرت ہے اور انسانی زندگی کی تمام تر ضروریات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ہمارا خالق و مالک بخوبی جانتا ہے کہ ہماری دنیاوی و اخروی فوز و فلاح کن امور کی بجا آوری میں پنہاں ہے۔ چنانچہ ہمارے خالق و مالک نے نبی ٔ رحمتؐ کو بحیثیت ختمی مرتبت مبعوث فرما کر ہمارے لئے دین کا اکمال و اتمام فرما دیا اور قرآن و سنت یعنی حدیث مصطفیٰ ؐ کی صورت میں نسخہ کیمیا عطا فرما دیا تاکہ بنی نوع انسان اس سے فیض یاب ہو کر امامت و قیادت کا فریضہ بجا لائے اور اپنے معبود کے احکام اور اُس کے محبوبؐؐ کے اسوئہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر دونوں جہانوں کی کامیابیوں سے ہم کنار ہوجائے۔ظاہر ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ نے امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی، فکری و نظریاتی ہم آہنگی اور نظم و ضبط پر بے انتہا زوردیا ہے، کسی صورت میں انتشار و افتراق کو پسند نہیںفرمایا اور نہ ہی اس کی اجازت دے دیا ہے ۔ اسی لئے قرآن و سنت میں انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کے اسلوب و آداب شرح و بسط کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں تاکہ اہل ایمان کے درمیان کسی قسم کا اختلاف رونما نہ ہونے پائے۔ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اگر اللہ کے ساتھ تعلق استوار رکھنا چاہتے ہو تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ؐکو مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔لیکن آج ہم امت مسلمہ کی زبوں حالی اور کسمپرسی پر نگاہ دوڑائیں اور اُس کی ذلت و رسوائی کے اسباب و عوامل پر غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اُمت اپنے اصل منہج سے دور ہو گئی ہے۔ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ جب تک اہل سلام فکری و نظریاتی بنیادوں پر استوار رہے، دنیاوی ترقی و عروج اُن کا مقدر ٹھہرے، لیکن جب اسلام کی نظریاتی اساس سے رو گردانی کی گئی اور من چاہے افکار و نظریات پر مبنی فرقہ وارانہ سوچ کو پروان چڑھایا گیا تو وحدت ِاُمت پارہ پارہ ہوتی چلی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین اسلام جو ایک اللہ اور ایک رسول اللہؐ کے فرامین پر مبنی ایک امت کا تصور لئے ہوئے تھا ،بٹواروں کا شکار ہوتا چلا گیا اور مختلف اسلام مخالف قوتوں کی رختہ اندازیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے۔ حالانکہ دین ابتداء سے ایک تھا ،آج بھی ایک ہے اور قیامت تک ایک ہی رہے گا۔تاہم آج ہم جس ماحول سے گزر رہے ہیں، انتہائی پرآشوب دور ہے۔ آج ہر طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں اور ہم خواب غفلت کا شکار تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کہیں ہمیں علاقائی سطح پر محدودکیا جا رہا ہے تو کہیں نسلی لسانی عصبیتوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،جس کے نتیجہ میں امت کا تصور مدھم پڑ رہا ہے۔اب فیصلہ خود مسلمانوںکوکرنا ہے کہ آیاوہ اسی طرح نسلی لسانی علاقائی عصبیتوں اور مذہبی فرقہ واریت کا شکار رہ کر تباہی و بربادی کی جانب عزم سفر ہو کر مکمل خاتمہ چاہتے ہیں یا خالص قرآن و سنت کے پاکیزہ دامن سے وابستہ ہو کر ان تمام لعنتوں سے اپنے دامن جھٹک کر دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی چاہتے ہیں۔ یاد رکھیے آج بھی اسلام اور اہل اسلام تمام مخالف طاقتوں کا ہدفِ اول ہے ، وہ ہمیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کر کے کمزور کررہے ہیںتاکہ وہ من مانی پالیسیوں کے ذریعے ہم پر براجمان رہ سکیں۔چنانچہ آج اسلام جس تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ اسی لئے اسلام مخالف قوتوںکی پوری توجہ امت ِ مُسلمہ کی طرف ہے اور انہوں نے مسلم معاشروں کے اندر فرقہ وارانہ اور علاقائی تعصبات کے علاوہ دیگر فتنے بھی پیدا کردیئے ہیں۔ اللہ کا کرم ہے کہ وادیٔ کشمیرکے مسلم معاشرے میں ایسی کوئی تشویش ناک صورت حال نہیں ہے ،تاہم ضرورت ہے کہ ہم ہر طرح کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خالص قرآن و سنت کی بنیاد پر اتحاد و یکجہتی اختیار کریں اور ایک دوسرے کا عزت واحترام کو بڑھاوا دیں۔ یاد رکھیئے ! نبی ٔ رحمت ؐ نے ایک کلمہ گو مسلمان کی عزت و حرمت بیت اللہ سے بھی زیادہ قرار دی ہے ۔ ہمارے لئے تمام ترفتنوں اور آفات سے محفوط و مامون رہنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ خالص کتاب و سنت سے والہانہ وابستگی، اتحاد ِتنظیم اور باہمی اخوت و محبت ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ اللہ ا و رسول اللہ ؐ کے ماننے والے،اسلام مخالفوںکی حربوں کو سمجھیں اور اپنے خالص دین سے تمسک اختیار کرتے ہوئے باہمی یگانگت ،اتحاد و اتفا ق کے ذریعے ان حربوں کوناکام بنا دیں، بالخصوص علماء پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر معاملے میںتحمل و برداشت اور رواداری اختیارکریںاور عوام کا شعور بیدار کریں۔