ڈورو//عید الفطر کے موقعے پر جہاں ہر سو چہل پہل نظر آرہی ہے اور لوگ اپنے لخت جگروں کیلئے نئے نئے ملبوسات خریدنے میں مشغول ہیں ،وہی جیلوں میں نظر بند سیاسی کارکنوں اور نوجوانوں کے اہل خانہ عید کی ان گھڑیوں میںانکابے صبری کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوں ۔ڈورو دہرنہ کے40سالہ مشتاق احمد کھانڈے گذشتہ09مہینوں سے پی ایس اے کے تحت جیل میں نظر بند ہے ،پیشہ سے دکاندار مشتاق احمد کے گھر میں اہلیہ تین کم سن لڑکیاں اور بزرگ ماں باپ ہےں ،مشتاق احمد کی بڑی بیٹی فالکاجو چوتھی جماعت میں زیر تعلیم ہے اپنے ابو کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے تاکہ اُس کا ابو بھی اسکے لئے نئے کپڑے خریدے اور دییگر بچوں کی طرح وہ بھی عید کی خوشیاں منائے ۔ کشمیر عظمی سے بات کر تے ہوئے فالکا کہتی ہے کہ میرا ابو جموں گیا ہے اور وہ وہاں سے ڈھیر سارے کھلونوں کے ساتھ ساتھ خوبصورت فینسی ڈریس لائے گا ،مشتاق احمدکے والد غلام محمد کھانڈے کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا جرم بے گناہی کی پاداش میں گرفتار ہوا ہے وہ کہتے ہیں کہ 11اکتوبر 2016کو مشتاق اننت ناگ کی جانب جارہا تھا کہ دیلگام کے نزدیک سول کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے اُس سے گرفتار کیا جس کے بعد 15اکتوبرکو تھانہ ڈورو میں اُس کے خلاف کیس زیرنمبر123/16u/s147,148,149,353,332آرپی سی کے تحت مقدمات درج کئے گئے اورسیفٹی ایکٹ عائد کر کے کورٹ بلوال جیل جموں منتقل کیا گیا اس دوران قریباََ08مہینے جیل میں گذارنے کے بعدسیفٹی ایکٹ معیاد پوری ہو ئی اور28مئی کو واپس ڈورو تھانہ پہنچایا گیا جس کے بعد اُنکی رہائی کے حوالے سے ہمارے گھر میں خوشیوں کا سیلاب اُمڈ آیا تاہم ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ خو شیاں وقتی ہےں کیونکہ اُن پر ایک اور سیفٹی ایکٹ عائد کیا جارہا ہے ،قریباََ ایک ہفتہ تھانہ میں گذارنے کے بعد اُنہیں مٹن جیل خانہ منتقل کیا گیا اور 08جون کو اُن پر ایک اورسیفٹی ایکٹ عائد کر کے دوبارہ کھٹوعہ جیل خانہ منتقل کیا گیا اور اسطرح ہم لوگوں پر ایک اور مصیبت آن پڑی ،غلام محمد کہتے ہیں کہ اُن کی رہائی کے لئے اُنہوں نے ہر ایک چوکھٹ پر دستک دی تاہم مایوسی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں لگا ،اُنہوں نے کہا کہ کھٹوعہ میں سخت گرمی کے سبب اُنکے لخت جگر کے صحت پر بُرا اثر پڑا ہے ،اور مالی کمزوری و ضعیف العمری کے سبب وہ لوگ بیٹے سے ملنے کیلئے نہیں جاسکتے ہیں لہذا خالصتاََ انسانی بنیاد پر اُنکی رہائی عمل میں لائی جائے یا وادی میں قائم جیل میںمنتقل کیا جائے ،مشتاق احمد کی تین کمسن لڑکیاں ہے جن میں 06مہینے کی ہاتیکا بھی شامل ہیں جو ماں کی گود میں کھیل رہی ہے اور حال ہی میں ایک آپریشن سے گذری ہے ،ہاتیکا نے اب تک اپنے ابو کو نہیں دیکھا ہے کیو نکہ جب اُنکا جنم ہوا ہے اُس وقت اُنکا ابوجیل میں نظر بند تھا ،مشتاق کی ماں آمنہ ہر وقت خون کے آنسو رو رہی ہے اور بیٹے کا انتظار بے صبری سے کر رہی ہے ،وہ کہتی ہے کہ اُن کے نظر بند سے اہل خانہ زہنی و نفسیاتی بیماری کا شکار ہو ئے ہیں اور معصوم بچوںکے سبب میرا جگرہر وقت چھلنی ہو جاتا ہے کیونکہ انکی زبان پر ایک ہی لفظ ہو تا ہے وہ ہے ابو کب گھر آئے گئے ۔