ڈاکٹرامتیازعبدالقادر
۲۶ جولائی ۱۹۸۰ء کی صبح اردودنیا کے لئے غم کی ’نوید‘لے کرطلوع ہوئی۔اس صبح بقول کسے وہ ہاتھ تہہ خاک ہوئے جواٹھائیس برس اپنے پڑھنے والوںکونت نئے جہانوںکی سیرکراتے رہے۔وہ ہاتھ جن کی جنبش میںترنم تھااورخاموشی میںشاعری۔جن کی انگلیوںسے تخلیق کی گنگابہاکرتی تھی۔جس نے تین دہائیوںتک لوح وقلم کی پرورش کی لیکن اس کے باوجود اردودنیاایسی احسان فراموش نکلی کہ آج بھی اردوکے ’نقاد‘سوال کرتے ہیںکہ ’ابن صفیؔ کون ہیں ؟ انتظارحسینؔ کے بقول’ادھرمقبولیت کایہ عالم کہ ابن صفیؔ کے جاسوسی ناول دھڑادھڑبِک رہے ہیںاوراُدھریہ مٹھی بھرناخدااتنے زورآورہیںکہ اتنے مقبول ومشہورمصنف کوادب میںگھسنے نہیںدے رہے۔‘
کتابوںکی بِکری کے لحاظ سے دیکھاجائے تودنیاکی تاریخ میںجاسوسی ناولوںکی مصنفہ اگاتھاکر سٹی ؔ(۱۸۹۰۔۱۹۷۶ء)ؔ اول نمبرپرہیںجن کی اسّی(۸۰) ناولوںکی اب تک چارارب سے زیادہ جلدیںفروخت ہوچکی ہیں۔اگاتھاکرسٹیؔ نے ایک بارابن صفی ؔ کے بارے میں کہا تھا ’’مجھے اردونہیںآتی لیکن برصغیرکے جاسوسی لٹریچرسے تھوڑی بہت واقفیت رکھتی ہوں۔صرف ایک اوریجنل رائٹرابن صفیؔ ہے اورسب اس کے نقّال ہیں۔کسی نے بھی اس سے ہٹ کر کوئی نئی راہ نہیںنکالی۔‘‘اگاتھاکرسٹی(انگلینڈ)ؔجاسوسی کہانیاںلکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ہیں ۔ دنیا بھر میںشیکسپئرؔ کے بعدیہ وہ واحدمصنفہ ہیںجن کی کتابیںسب سے زیادہ فروخت ہوئیں۔
برصغیرپاک وہندکی اردودنیامیںیہ رجحان لاعلاج مرض کی صورت اختیارکرگیاہے کہ ایسی شخصیات ،جن کی فکرکی دھارا’مخالف‘ سمت’ بہہ‘ رہی ہو،جو روایت شکنی کے مرتکب ہوںبالخصوص جن کے ادب میںتعمیرِسیرت واخلاقی اقدار کی پاسداری ہو،جوخاشامدی کے ’بھوکے‘نہ ہوں،جھوٹی شان،بے جا ’تقدس‘اورمراعات وحقیرمفادات کے قائل نہ ہوں،کے کارناموںکوفراموش کرتے ہوئے ایک شخص کی حیات میںہی اس کی خدمات کااعتراف نہ کیاجائے اور اس کے کام کوملّی وملکی سرمایہ سمجھتے ہوئے اس سے بھرپوراستفادہ کی روایت کومستحکم کرنے کی کوشش نہ کی جائے ۔ بقول عارف اقبال’یہاںکی قومیںکسی اہم شخص کی موت کاانتظارکرتی ہیں۔انتقال کے بعدیاتواس سے ہمیشہ کے لئے پیچھاچھڑالیتی ہیںیادوسری صورت میںایک عرصہ کے بعداُس کابُت بناتی ہے ،پھراس بُت کوپوجنے کاسلسلہ جاری ہوتاہے۔ ‘ابن صفی کاشماربھی اُن مظلوم اردوادیبوںمیںہوتاہے،جن کی خدمات کویکسرفراموش کیاگیاحالانکہ انہوںنے اپنے ناولوںمیںزندگی کے جتنے اہم پہلوئوںپرقلم اٹھایا،شایدہی کسی اورادیب نے اٹھایاہوگا۔ان کے قلم کی ایسی شہرت تھی کہ ایک زمانے میںعباس حسینی،ابن صفیؔ کے ناول کاایک لاکھ سے زائدکاایڈیشن چھاپتے تھے۔
ابن صفی ۲۶جولائی ۱۹۲۸ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ ایک علی و ادبی گھرانے سے تعلق تھا چنانچہ قدرتی طور پر مطالعے سے رغبت اور تصنیف و تالیف کی طرف توجہ رہی۔اتفاق یہ ہے کہ ۲۶ جولائی ۱۹۸۰ء کووہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔اردو ادب کا یہ درخشاں ستارہ کراچی کے علاقے پاپوش نگر کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہا ہے۔ان کااصل نام اسرار احمدتھا۔ قلمی نام’ ابن صفیؔ‘سے ادب کی دنیامیںمشہورہوئے۔ابن صفیؔ نے اردو جاسوسی ادب میں جو مقام حاصل کیا، اس کی محض تمنا ہی کی جا سکتی ہے۔ابن صفیؔ نے لکھنے کا سلسلہ اسکول کے زمانے سے ہی شروع کردیا تھا۔ ساتویں جماعت میں انہوں نے ایک افسانہ ‘ناکام آرزو’ لکھا۔ جس کے بعد کالج کے زمانے میں طنزیہ کالم لکھے اور شاعری بھی کی۔لیکن اردو ادب میں معیاری جاسوسی تحریروں کی عدم موجودگی نے انھیں جاسوسی ناول لکھنے کی طرف مائل کیا۔۱۹۵۲ء میں انہوں نے ‘دلیر مجرم’ کے نام سے پہلا جاسوسی ناول لکھا جبکہ اپنی زندگی میںابن صفیؔ نے ۲۵۰سے زائد جاسوسی ناول لکھے۔انھوں نے ۲۸برس تک اپنی تخیلاتی دنیا سے لوگوں کو مسحور کیے رکھا۔ابن صفی کی تحریر کسی مخصوص طبقے کے لیے نہ تھی بلکہ انہیں زندگی کے ہر شعبے اور ہر طبقہ فکر سے یکساں مقبولیت ملی۔یہی وجہ ہے کہ محققین ابن صفیؔ کے تخلیق کردہ ادب کو ایک نئی صنف قرار دیتے ہیں۔
ابن صفیؔ نے جب اردو جاسوسی ناول نگاری کا آغاز کیا تو اْس وقت انگریزی ناولز کے تراجم کا رجحان تھا۔آج یہ صورتحال ہے کہ ابن صفیؔ کے ناولوں کے ہندی اور انگریزی زبان میں ترجمے ہو رہے ہیں اور یکساں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ابن صفی ؔ’علی عمران‘، ’کرنل فریدی‘ اور’ کیپٹن حمید‘ جیسے لازوال کرداروں کے خالق ہیں۔
ابن صفی ؔایک ایسا نام ہے جس نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ ان کے ماحول میں ہونے والے واقعات، جرائم اور ان کی تحقیقات میں پیش رفت کو اس طور سے پیش کیا کہ نوجوانوں کے اندر مایوسی کے بجائے امنگ پیدا ہو سکے۔ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی حالات کو بدلنے کی تدبیر ہو سکے۔ وہ تمام کردار جو انہوں نے پیش کیے جیتے جاگتے سماج میں سانس لیتے نظر آتے ہیں۔عارف اقبال لکھتے ہیں:’’انہوںنے ہندوستان کی سرزمین کی مٹی سے ایسے کردارتخلیق کئے جوچلتے پھرتے دکھائی دیتے ہوں۔نیزان پروہم اوربناوٹ کے بجائے اصل کاگمان ہوتاہے۔۔۔‘‘(’جونک کی بستی‘،اداریہ ۔ص:۳)
ابن صفیؔایک دفعہ اپنے کچھ احباب کی محفل میں ادب اور اسکے اشکالات پر شد و مد سے بحث کررہے تھے ۔ چنداحباب اس بات پرمُصرتھے کہ فحش نگاری کے بغیر ادبی نگارش مقبولیت حاصل نہیں کر سکتی ہے۔ یہ بات اپنے طور پر خود ادیب کا مقام منوانے کے لئے بھی اہم ہے کہ مقبول عام ادیب اور معیاری ادیب میں کیا بنیادی فرق ہو گا۔چنانچہ اسی چیلنج کو مد نظر رکھتے ہوئے ابن صفیؔ نے جاسوسی ناول نگاری کا بیڑہ اٹھایا اور اردو جاسوسی ناولز اور جاسوسی میگزین کو انگریزی جاسوسی ادب کے برابر لا کھڑا کیا۔ابن صفی ؔنے اپنے ناولز میں اپنی دانش سے نوجوانوں میں ایک نیا جذبہ بیدار کیا یا یوں کہیے کہ وہ خواب دیکھتے اور دکھاتے تھے۔ اس معاشرے میں جہاں تعفن پھل پھول رہا تھا، اس سماج میں جہاں جبر تھا، جہاں نا انصافی تھی،ِ جہاں حق اور انصاف کی راہ پر چلنا از حد دشوار تھا۔ وہ نوجوانوں کو فرشتوں کی آمد کا منتظر رہنے اور معجزوں کے انتظار میں سوکھتے رہنے کے بجائے خود حالات کو بدلنے کی منظم جدوجہد پر ابھارتے تھے۔ سارجنٹ حمیدؔ جیسامتحرک کردار ، عمرانؔ ہویا فولادی عزم کے مالک کرنل فریدی ؔان سب نے بلند ہمتی، ذہانت اور جدید اسلحہ و ساز و سامان کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
ابن صفیؔاپنی باون سالہ زندگی میں بے حد متحرک رہے ہیں۔ ایک کلاسیکی اسلوب بیان شاعر، افسانہ نگار، کالم نگار اور مزاح نگار بھی تھے مگر شہرت دوام جاسوسی ادب کی وجہ سے ملی۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرنے والوں میں متعدد ملکی اورغیر ملکی شخصیات مثلا خواجہ ناظم الدین، ڈاکٹر ابو الخیر کشفی، کرسٹینا اوسٹر ییلڈ اور پروفیسر فن تھیسن شامل ہیں۔(ابن صفی۔شخصیت اورفن از راشداشرف)
ناول نگاری کو جو جہت ابن صفی ؔنے دی وہ اب تک منفرد ہے۔ سماج کے حالات پر ان کی جو گہری نظر تھی۔ اسی بنیاد پر ان کے جاسوسی ناولز مقبولیت کی جس سطح تک پہنچے وہ ہر کسی ادیب کو نہیں مل پاتی ہے۔یعقوب جمیل لکھتے ہیں:’’اردوکے ٹھیکیداراس بات کوتسلیم کریںیانہ کریںلیکن یہ حقیقت ہے کہ ابن صفی کے ناول محض وقت گزاری کے لئے نہیںپڑھے جاتے ۔ان میںکوئی بات توایسی ہے جولوگوںکواپنی طرف کھینچتی ہے اوروہ بات ہے اپنے اردگردبکھرے ہوئے ملکی اور سماجی مسائل۔ان کے ناولوںکوپڑھتے وقت جب زندگی کے مختلف پہلواورسماجی مسائل سامنے آتے ہیںتولوگ سوچنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔ان کی تحریروںمیںکہیںانسانی زندگی کے روابط نظرآتے ہیں ، تو کہیںانسانی قدریںٹوٹتی بکھرتی دکھائی دیتی ہیں۔محبت،نفرت،میل جول لڑائی جھگڑے اوران جزبوںسے ابھرتاہواانسانی قربانی کاجزبہ گویااپنے اردگرد کے سماج میںبکھری ہوئی ہرچیزہمیںصاف دکھائی دیتی ہے۔کہیںایک شخص کی شیطانی خواہشات پورے ملک کی تباہی کاسبب بنتی نظرآتی ہیں تو کہیں ایک ملک اپنی برتری منوانے کے لئے اپنے پڑوسی ملک کوجہنم کی آگ میںجھونکنے کے لئے تیارنظرآتاہے۔انسانی زندگی کے یہی وہ مسائل ہیںجنہوںنے ابن صفیؔ مرحوم کے ہرناول کوزندہ جاویدبنارکھاہے۔‘‘
ابن صفیؔ کے ناولوں میں تجسس اور اسرار کے ساتھ ساتھ مزاح کی حلاوت بھی ملتی ہے ،ملاحظہ ہو:
’اوہ!‘ یک بیک ظفروچونک کربولا۔’’تم مجھے کہاںلے جارہے ہو۔؟‘‘
’’رانا پیلس!‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’تمہیںچائے پلاکردوچارغزلیںسنائوںگا۔پچھلی رات بھی ایک تازہ غزل ہوئی ہے۔پیٹ میںدردہورہاہے۔جب تک کوئی سنے گانہیں، بدہضمی میںمبتلارہوںگا۔آج کل سامعین کہاںملتے ہیں۔مجبورََاریوالورکے زورپرمہیاکرتاہوں،غزل توالگ رہی تمہیںدَوہے بھی سننے پڑیںگے!‘‘(زہریلی تصویر،ص:۲۳۵)
بقول محمدعثمان احمد’سچ تویہ ہے کہ ہماری ادبی تنقیدابن صفی کی تحریروںسے مکالمہ کرنے کی صلاحیت نہیںرکھتی۔‘
’’اچھابوجھیے توکیاہے؟۔‘‘عمران نے ایک ہاتھ اپنی پیشانی پررسیدکرکے دوسراگال پررسیدکیا۔
’’کیامطلب؟‘‘
’’اتنی معمولی سی پہیلی نہیںبوجھ سکتیں؟‘‘
’’یہ پہیلی ہے کوئی! ‘‘ وہ ہنس کربولی۔’’ایک ہاتھ ہتھیلی پرمارااوردوسراگال پر۔‘‘
’’سمبولک پوئٹری کی طرح۔‘‘
’’خداکی پناہ۔تولٹریچرمیں بھی دخل ہے ،جناب کو!‘‘
’’میلارمے کوپڑھ پڑھ کراس حال کوپہنچاہوں۔اردومیںمیراجیؔ سے سرِجوئے بارملاقات ہوئی تھی۔‘‘
’’میراجی آج تک میری سمجھ میںنہیںآیا۔‘‘
’’عورتوںکی سمجھ میںنہ آئے توبہترہے ورنہ پھنکنیاںاوردستِ پناہ سنبھال کردوڑپڑیںگی،اس کی قبرکی طرف۔‘‘(گیت اورخون،ص ۵۱۔۵۰)
اوسلویونیورسٹی ناروے کے پروفیسرفین تھیسؔ کاکہناہے کہ ابن صفیؔ کے ناولوںمیںدوچیزیںبہت اہم ہیںجواگاتھاکرسٹیؔ کے ناولوں میںموجود نہیں ہیں۔ان کے ناولوںکی زبان رواںہے اورانہوںنے مزاح اورسسپنس کویکجاکردیاہے۔منظرنگاری ناول کاجزوِلاینفک ہے۔ابن صفیؔ نے روایت شکنی کرکے قاری کوثقیل ودقیق الفاظ کے پیچوںمیںالجھانے سے گریزکیا۔انہوںنے عام وسہل اورکم الفاظ استعمال کرکے عمدہ منظرکشی کی ہے، ملاحظہ ہو:’’ہواتیزاورخنک تھی۔۔۔لیکن ریت کاایک ذرہ بھی اپنی جگہ سے جنبش نہیںکررہاتھا۔ایسامعلوم ہورہاتھاجیسے ہوازمین کی سطح سے ٹکرائے بغیر چل رہی ہو۔‘‘ (’عمران کا اغوا‘‘)
ابن صفیؔ کی مکالمہ نگاری عموماًچھوٹے چھوٹے فقروںاورجملوںپرمبنی ہوتی ہے۔ان کی مکالمہ نگاری کے بارے میںڈاکٹرخالدجاویدرقمطرازہیں:
’’مکالمے کے تووہ بادشاہ ہیں۔میرے ناقص خیال میںابن صفی جس قسم کاچست مکالمہ لکھتے ہیں،وہ منٹوؔکے علاوہ اورکہیںنظرنہیںآتا۔بے حدچست مکالمے اوربرجستگی ان کی تحریروںکی ایسی خوبی ہے جسے کوئی بھی محسوس کرسکتاہے۔‘‘ناول’زہریلی تصویر‘کاایک مکالمہ ملاحظہ ہو:
’’جھاڑیوںکی پشت پرپہنچ کرعمران نے اُسے کسی وزنی بھوج کی طرح زمین پرپٹخ دیا۔
’’درندے مردود!‘‘وہ روہانسی آوازمیںبولی
’’میںعورتوںکی بات کابرانہیںمانتا!‘‘عمران نے ٹھنڈی سانس لی
’’تم کون ہو؟‘‘
’’یہی سوال میںتم سے بھی کرسکتاہوں!‘‘
’’میںکیوںبتائوں؟‘‘
’’یہی جواب میرابھی ہوسکتاہے۔چیونگم پیش کروں!‘‘(’جونک کی واپسی‘ ،ص: ۱۷۴)
ابن صفی ؔکاشماران ادیبوںمیںہوتاہے جنہوںنے اُس زمانے میں مشرق کوجنسی بے راہ روی سے محفوظ رکھنے میںاہم کردارادکیاہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ اوباش،فحش ،عریانیت سے بھرپورلٹریچرپڑھنے میںمصروف دکھائی دیتے تھے۔بقول عارف اقبال:’’ابن صفی ؔرجحان سازادیب تھے۔انھوںنے معاشرے کوجنسی لٹریچرکے سیلاب سے بچانے کی کوشش کی تھی۔لہٰذاان کی تحریروںنے معاشرے میں اباحیت،جنسی کج روی اورفحش افکارکے خلاف جنگ کاعلان کردیا۔فکری اعتبارسے ان کے ناولوںنے اپنے قاری کومعاشرتی برائیوںکے خلاف صف آراء ہونے میںاہم کرداراداکیا۔‘‘(بحوالہ مضمون ’ابن صفی کاتاریخ سازکارنامہ‘)
پروفیسرمحمدابوالخیرکشفی نے ابن صفیؔ کی مدح سرائی ان الفاظ میںکی ہے،لکھتے ہیں:’’میںنے کبھی ابن صفی کے ناولوںکوکتابوںکے درمیان چھپاکرنہیںرکھا۔ہمارے انٹلکچُول اسے ایک ’سَب اسٹینڈارڈ‘موادگردانتے ہیں لیکن ان میںسے کوئی ابن صفیؔ کی تخلیقی ذہن کامقابلہ نہیںکرسکتا۔کوئی مجھ سے پوچھتاہے کہ آپ ابنِ صفی کے ناول کیوںپڑھتے ہیں؟تومیںجواب دیتاہوںکیونکہ ابن صفیؔ ہمارے کئی ناول نگاروںسے بہترزبان لکھتے ہیں۔جب محمدحسن عسکریؔ نے یہ شکایت کی کہ اردونثرکافن زوال پذیرہے اورکوئی اچھی زبان نہیںلکھ رہاہے تومیںنے انہیںابن صفیؔ کی جاسوسی دنیاکاایک ناول پڑھنے کودیا۔اس کے بعدوہ ہرماہ پوچھتے’کشفی صاحب،ابن صفیؔ کانیاناول آگیا؟‘(اردوادب میںابن صفیؔکامقام)جومعاشرہ ،انجمنیں،ادارے ابن صفیؔ جیسی عظیم ہستیوںاورلکھاریوںکوعزت نہیںدیتی،وہ ریاست اورمعاشرہ درحقیقت اخلاقی اعتبارسے ’بنجر‘ ہیں۔