ابتدائی صدیوں میں مسلمانوں کی تعلیمی پالیسی

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے علم کے بارے میں یہ تصور رائج کیا کہ دنیا کی تمام مخلوقات میں انسان کو صرف اسلئے برتری حاصل ہے کہ اسے علم سے نوازا گیا ہے۔اس لئے کسی قوم میں کسی پیغمبر کا مبعوث ہونا تعلیم کے سوا کسی اور غرض کیلئے نہیں ہوتا۔نبی ﷺ نے فرمایا کہ "اِنما بعشت معلما" یعنی"میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔
اگرچہ اسلام سے قبل دنیا کے بعض خطوں میں علوم وفنون کے چرچے تھے۔مصر ، یونان، چین، روم، ہندوستان، اور ایران میں تعلیمی ادارے قائم تھے مگر سب جگہ ایک بات قدر مشترک نظر آتی ہے کہ تعلیم و تعلم کی تمام سرگرمیاں ایک مخصوص گروہ یا طبقہ تک محدود تھیں۔ علوم تک رسائی نہیں تھی ۔ یونان میں  ارسطوجیسافلسفی اپنی بالیدگی فکر کے باوجود عورتوں اور غلاموں کو علم کی مسند پر قدم رکھنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ ہندوستان میں مشہور ماہر قانوں منونے شووروں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ بلکہ اگر کوئی شودر مقدس کتاب "وید" کے الفاظ سننے کی کوشش کرے تو اس کیلئے اس نے یہ سزا تجویز کی تھی کہ اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے۔ یہ تو دور قدیم کی بات تھی۔ بعض ممالک میں تو انیسویں صدی عیسوی تک صورت حال بہتر نہ ہوسکی تھی۔ امریکہ کی ریاست جنوب کیرولینا نے1834میں یہ قانون پاس کیا ہے کہ اگر کوئی شخص غلاموں کو تعلیم دیتے ہوئے یا اس تعاون کرتے ہوئے پکڑا گیا اگر وہ شخص سفید نام سے ہے تو اس کو ایک ڈالر جرمانہ اور چھ ماہ کی قید سزا دی جائے گی اور اگر وہ کالا ہے تو اس کو پچاس کوڑوںکی سزا دی جائے گی۔ الغرض ہر جگہ ایک طبقہ نے علم پر اجارہ داری قائم کررکھی تھی اور وہ علوم کو اس میں شریک کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔
اس کے بر عکس اسلامی تہذیب و تمدن کے مزاج کا اظہار اگر ایک لفظ میں کرنا ہو تو اس کے لئے علم سے زیادہ جامع کوئی دوسرا لفظ ہوسکتا۔
نبیﷺ کا سب سے بڑا منصب خداتعالیٰ کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانا اور انھیں کھول کھول کر آسان لفظوں میں بیان کرنا قرار دیا۔ ارشاد خداوندی "اقرا" نے علم و حکمت کے دروازوں کو کھول دیا اور نبیﷺ نے فرمایا’’ہم نے آپ کے اوپر ذکر اُتارا ۔تاکہ آپ لوگوں کو وہ تعلیمات کھول کھول کر بیان کریں جو ان کی طرف اتاری گئی ہے"۔ 
وحی الٰہی کے آغاز سے تعلیم و تعلم کا سلسلہ شرُوع ہوچکا تھا۔ اولین اسلام لانیوالوں میں سے ایک صحابی حضرت ارقمؓ تھے۔ ان کے ہاں تعلیم گاہ قائم ہوئی۔ آپ تیں سال یعنی6نبوی کے آخر تک یہاں اشاعت اسلام اور نو مسلموں کی تربیت کا کام انجام دیتے رہے۔ آپﷺ کے حکم سے تعلیم یافتہ صحابہ دارِ ارقم کے ساتھ ساتھ لوگوں کے گھروں میں جاکر ان کو تعلیم دیا کرتے تھے۔
بیت عقبہ ثانیہ۔ جو ہجرت مدینہ سے دو سال پہلے منعقد ہوئی تھی ،کے بعد آپﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ اور سعد بن العاصؓ کو مدینہ منورہ روانہ کیا کہ وہاں جا کر لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیں اور نماز پڑھنا سکھا ئیں ۔انہوں نے وہاں جاکر لوگوں کو تحریر و کتابت بھی سکھانا شروع کردی۔یہ مدینہ منورہ میں قائم ہونے والاپہلا مدرسہ تھا۔ہجرت کے بعد جب مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی گئی تو تمام داخلی اور خارجی خطرات اور ہنگاموں کے باوجود نبیﷺ نے تعلیم کی طرف اولین توجہ مبذول فرمائی۔ آپﷺ نے مسجد کے کنارے ایک مخصوص جگہ لی۔ جسے صفہ کہتے  تھے۔ یہ کھلی اقامتی درسگاہ تھی جس میں ہر چھوٹا بڑا شخص تعلیم و تربیت حاصل کرتا تھا ۔انھیں اصحاب صُفہ کہتے تھے۔ اس اعتبار سے اگر مسجد نبوی کی اس درسگاہ کو اقامتی اور کھلی درسگاہوں کا پیش خیمہ کہا جاتے تو بے جانہ ہوگا۔
اس تاریخی درسگاہ ہر طبقہ کے افراد شریک ہوتے تھے۔ انصار، مہاجرین،مقامی، بیرونی،ایمان و اشراف، روسائے قبائل، عالم، جاہل ، بدوی، شہری، بوڑھے، جوان، سب ایک ساتھ بیٹھے تھے اور رسول اللہؐ سب کے ذہین و مزاج، زبان ولب ولہجہ کی رعیایت فرماتے ہوئے تعلیم دیتے تھے۔ درسگاہ کے ان طلباء میں اصحاب صُفہ کو نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ وہ دن رات حاضر باش رہتے تھے۔ تعلیم و تعلم ، ذکرواذکار، تلاوت قرآن او ر باہمی مذاکرہ و مرطبہ کے علاوہ ان کی کوئی اور مصروفیات نہیں ہوتی تھی۔
صفہ میں نہ صرف مقیم طلبہ کی تعلیم کا انتظام تھابلکہ ایسے بھی بہت سے لوگ آتے تھے جن کے مدینے میں گھر تھے اور وہ صرف  درس کیلئے وہاں حاضر ہوا کرتے تھے۔ مختلف حالات کے تحت رکھنے والوں کی تعداد عام طور پر سترکے قریب رہتی تھی۔ کبھی کبھی یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ جایا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ اکیلئے حضرت سعد بن عبادہؓ بعض اوقات اسی اسی لوگوں کی دعوت کرتے تھے۔
نبی کریمﷺ نے فروغ علم کے لئے جو اقدامات فرمائے، ان میں اہم واقعہ قیدیوں کا ہے جو کفرواسلام کے پہلے معرکہ یعنی جنگ بدر میں مسلمانوں کی قید میں آئے۔ستر(70) کفار مکہ اس جنگ میں گرفتار ہوکر مدینہ لائے گئے۔ آپﷺ نے ان لوگوں میں سے جو مال دار نہ تھے، ان کی رہائی کے لئے فدیہ مقرر کیا کہ وہ مدینے کے دس دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں۔ اس واقعہ سے آپﷺ کی تعلیم و تعلم سے گہری دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 
آپﷺنے تعلیم کا مادی سطح سے بلند تصور پیش کیا۔ آپﷺ نے اہل ایمان کے دلوں میں یہ بات   جاگزیں کردی کہ تدریس اور تعلیم کا کام عبادت کی طرح محترم اور مقدس ہے۔ یہ کار خیر ہے جس کا اجر آخرت میں ملے گا۔ آپﷺ نے فرمایا "بہتر صدقہ (نیکی کا کام) یہ ہے کہ مسلمان علم حاصل کرے اور پھر اپنے مسلمان بھائی کو اس کی تعلیم دے"۔
نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو اس بات کی بھی ترغیب دلائی کہ وہ مختلف زبانیں سیکھیں۔ آپ نے کاتب وحی حضرت ریدبن ثارب انصاریؓسے فرمایاکہ میرے پاس بادشاہوں کے خطوط آتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا ہوں کہ کوئی غیر اس کو پڑھے۔ کیا تم عبرانی یا سریانی زبانیں سیکھ سکتے ہو؟۔ انہوں نے حامی بھرلی اور زیدبن ثابت ؓنے یہ زبان صرف17 دن میں سیکھ لیں۔ زید بن ثابتؓ نے کسریٰ کے ایلچی سے فارسی زبان،نبی کریمﷺ کے ایک خادم سے رومی زبان، آپﷺ کے خادم سے حبشی زبان سیکھی اور آپﷺ کی ایک خادمہ سے قبطی زبان سیکھی۔ اس کے علاوہ عبداللہ ابن زبیرؓکئی زبانوں کے ماہر تھے۔
خالص دینی علوم کے علاوہ آپﷺ نے اپنے زمانے کے رائج وقت مفید علوم سیکھنے کی نہ صرف ترغیب دی بلکہ خود بھی اس کا اہتمام فرمایا۔ چناچہ آپﷺ کا حکم تھا کہ نشانہ بازی، تیرا کی، صاحب علم میراث، طب فلکیات، علم انساب، اور علم تجوید کی تعلیم ضروری دی جائے۔
مدینہ منورہ میں صفہ واحد درسگاہ نہ تھی بلکہ وہاں کم از کم نو مسجدیں عہد نبوی میں موجود تھیں۔ ہر مسجد محلے والوں کے لئے درسگاہ کا کام بھی دیتی تھی۔ خصوصاًبچے وہاں پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ اکثر مسجد قبا تشریف لے جاتے اور وہاں کی مسجد کے مدرسے کی ذاتی طور سے نگرانی فرماتے۔
ہجرت مدینہ کے بعد سے ہی سپاہی معاہدات، سرکاری خطہ و کتابت، مصر فوجی مہم میں جانے والے رضاکاروں کے ناموں کی فہرستیں مختلف مقامات مثلاً مکہ، نجد، خیبر، اوطالس وغیرہ میں خبررساں کو عموماً تجریری طور سے آں حضرت ؐکو اپنے مقام کے حالات سے اطلاع دیا کرتے تھے۔ نیز مردم شماری اور اس طرح کی بہت سی چیزیں اس میں معاون ہوئیں اور خواندگی روز بروز بڑھتی گئی۔
خدا کے رسولﷺ نے مدینہ منورہ سے دیکر مقامات پر تربیت یافتہ معلم بھیجے اور کچھ صوبوں کے گورنروں کے فرائض منصبی میں یہ امر صراصت کے ساتھ شامل کردیا کہ وہ اپنے ماتحت علاقوں کی تعلیمی ضرورتوں کا مناسب انتظام کریں۔ یمن کے گورنر حضرت عمر و بن حزفہؓ کے نام حو طویل تقریرنامہ آپﷺ نے لکھا تھا وہ تاریخ میں محفوظ ہے۔ اس میں آپﷺ نے انہیں ہدایت دی تھی کہ لوگوں کے لئے قرآن، حدیث، فقہ اور علوم اسلامیہ کی تعلیم کا بندوبست کریں۔ نبیﷺ نے جس طرح بچوں اور بالغوں کی تعلیم پر زور دیا اسی طرح عورتوں کی بہتر تعلیم و تربیت کی بھی ترغیب دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص کی تین بیٹیاں یا بہنیں ہوں یا دو بٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور اس نے ان کی بہتریں تعلیم و تربیت کی اور ان کے مستقبل کے بارے میں خدا سے ڈرتا رہا تو اس کے لئے جنت ہے۔
خود آپﷺ نے عورتوں کی تعلیم کیلئے ہفتے میں ایک دن مقرر کیا تھا۔ اس دن آپ عورتوں کے خصوصی مجمع میں تشریف لے جاتے۔ انہیں دین کی باتیں بتاتے اور ان کے سوالات کے جوابات دیتے تھے۔
عہد نبوی میں جس نظام تعلیم کی بنیاد ڈالی گئی وہ خلافت راشدہ میں اپنے پورے کمال کو پہنچا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا مختصر زمانہ خلافت زیادہ مرتدین کے قلع قمع میں گزرا۔ زمانہ کار سنبھالتے ہی انہیں دو بڑے فتنوں سے سابقہ پیش آیا۔ ایک طرف جھوٹے مدعیان نبوت کھڑے ہوگئے۔ تو دوسری طرف مسلمان قبائل نے مرکزی حکومت کو زکواۃ ادا کرنے سے انکار کردیا۔ ابوبکرصدیق ؓنے ان دونوں کی طرف توجہ دی اور ساتھ ساتھ نبی کریمؐ کا جاری کردہ نظام تعلیم و تدریس بحسن و خوبی جاری رہا۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کے درس میں خواتین خاص طور پر بچیاں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔خلفائے   راشدین میں خاص طور پر عمر فاروق ؓ نے تعلیم و تدریس پر توجہ فرمائی۔ آپ نے شام، کوفہ، بصرہ اور دیگر شہروں میں علمائے کو تعلیم کیلئے روانہ کیا نیز بچوں کی ابتدائی تعلیم کیلئے مکاتب جاری کئے۔ آپ ؓ نے عبداللہ بن خراعیؓ کو مامور کیا کہ وہ مسجد نبوی میں بچوں کو جمع کرکے انہیں تعلیم دیں۔ آپ نے تعلیم کیلئے اوقات مقر ر کئے کہ صبح فجر کی نماز کے تھوڑی دیر بعد سے دن چڑھنے تک اور ظہر کی نماز سے عصر تک تعلیم ۔ باقی وقت آرام کریں نصاب تعلیم میں بھی آپ نے اصلاح فرمائی۔ اگرچہ طلبہ مکمل قرآن مجید پڑھتے تھے مگر بعض کمزور ذہن کے طلبہ تکمیل نہ کر پاتے تھے۔اسلئے آپ نے قرآن کا لازمی نصاب مقرر فرمادیا جس کا یاد کرنا ہر طالب علم کیلئے ضروری تھا۔ سورۃبقرہ، سورۃ نساء ، سورۃ نور کا سیکھناہر شخص کیلئے لازمی تھا۔ 
آپؓ نے عام طور پر تمام اضلاع میں احکام بھیجے کہ بچوں کو شعوری اور کتابت کی تعلیم دی جائے۔ اس کے علاوہ ادب اور عربیت کی تعلیم بھی لازمی کردی تاکہ لوگ صحت الفاظ اور صحت اعراب کے ساتھ قرآن مجید پڑھ سکیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓنے جو ہدایت نامہ مختلف علاقوں میں جاری کیا، اس کے الفاظ یہ تھے’’اپنے بچوں کو تراکی، شہواری، منقولات اور پاکیزہ شاعی کی تعلیم دو‘‘۔ شام کی فتح کے بعد حضرت عبادہ بن صامتؓ نے معلم قرآن کی حیثیت سے حمص میں قیام فرمایا اور معاذبن جبل ؓ نے دمش میں اقامت اختیار کی۔ انہوں نے قران مجید کی تعلیم کیلئے مکاتب قائم کئے۔ لوگ جوں درجوق علم کی تحصیل کیلئے ان کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ 
اس عہد میں کتاب و سنت کے علاوہ علم فقہ کی اشاعت ہوئی۔ مثلاً عبدالرحمنٰ بن قاسم ؓشام میں، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کوفہ میں تعلیم دیتے تھے۔ حضرت علیؓ اور فقہائے صحابہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓجیسے دیگر صحابہ کی موجودگی سے کوفہ، مدینہ منورہ کے بعد نہایت اہم علمی مرکز بن گئے۔ 
حضرت عثمان ابن عفانؓ کے عہد خلافت کا سب سے بڑا اہم کارنامہ قرآن مجید کے رسم الخط کا تعین ہے۔ اس کام کیلئے انھوں نے تدوین قرآن کیلئے ایک کمیٹی بنائی جس کے سربراہ حضرت زید ؓنے قریش کے لہجے میں اس کو مدون کیا ۔ حضرت عثمانؓ نے اس کے پانچ نسخے تیا ر کرائے۔ ایک نسخہ اپنے پاس رکھا اور ایک نسخہ بصرہ، کوفہ، دمشق اور فسطاطہ بھیجا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے قرآن مجید اس سرکاری نسخہ کے رسم الخط کے مطابق بنالیں۔ قرآن مجید کی اشاعت علم کرکے حضرت عثمانؓ نے فروغ تعلیم کی تحریک اور ان کے معلموں پر خاص توجہ کی اور عمرؓ کی طرح واعظوں، معلموں، موذن اور اماموں کے وظائف مقرا کئے۔
حضرت علی بن طالبؓ کے زمانے میںپرامن ماحول قائم نہیں رہ سکا۔ باہمی خانہ جنگی شروع ہوگئی البتہ علمی تحریک بدستور سرگرمی سے جاری رہی۔ نو مسلم عجمیوں کی تعلیم کے دوران محسوس ہوا کہ عربی زبان کا سیکھنا ان کیلئے دشوار ہے کچھ قوائد زبان معلوم ہونے چاہئیں،اس طرح علم نحو کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا۔سب سے پہلے ابوالاسود الدوئی نے حضرت علی ؓسے نحو کے اساسی نکات سیکھے۔ اس نقطہ آغازکے بعد میں علم نحو مرتب ہوا۔ جس کے جاننے کے بعد غیر عربوں کیلئے عربی زبان سیکھنا اور قرآن مجید کا پڑھنا آسان ہوگیا۔ اس دور کی تعلیمی خصوصیات حسب ذیل تھیں۔
۱۔ نصاب تعلیم بنیادی طور پر قرآن مجید، حدیث اور فقہ پر مشتمل تھا۔
۲۔ تعلیم کتابی نہ تھی۔ یعنی قرآن مجید کے سوا حدیث اور فقہ بالکل زبانی پڑھائے جاتے تھے ۔
۳۔ تعلیم کیلئے سفر کرنا ضروری تھا۔ ایک ایک حدیث کی سماعت کیلئے لوگ خراساں سے لے کر دمشق اور حجاز تک کا سفر پاپیادہ کرتے تھے۔
۴۔ مسجدیں اور علماء کے مکانات تعلیم گاہوں کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔
عہد نبوامیہ میں ابتدائی تعلیم کانظام پوری طرح مستحکم ہو چکا تھا۔ ابتدائی تعلیم کے لئے ہر جگہ مکاتب قائم ہوگئے تھے۔مسجد کے ایک ستون کا سہارا لے کر استاد ایک گدی پر بیٹھ جاتا اور طلبہ اس کے سامنے حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے۔ صبح چاشت سے لے کر اول وقت تک درس جاری رہتا تھا۔ درس شروع ہونے سے پہلے دعا مانگی جاتی پھر بسمہ اللہ الرحمنٰ الرحیم پڑھ کر درس کا آغاز ہوتا۔ طلبہ استاد کو سلام کرکے اپنی اپنی جگہ بیٹھے جاتے اور باری باری استاد کے سامنے آتے۔ دو زانوں ہو کر ادب سے بیٹھتے اور نیا سبق لیتے۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے ملک کی بڑی بڑی مسجدیں مدارس اور جامعات کا کام دیتی تھیں۔ مکہ معظمہ میں عبد اللہ بن عباسؓ کا حلقہ درس بہت وسیع تھاجس میں قرآن ، حدیث، فقہ، فرائض اور عربی زبان کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مدینہ منورہ میں ربیقہ الرائے کا حلقہ درس مشہور تھا۔ امام ملک ؒاور مام اوزاعیؒ اسی حلقے کے تعلیم یافتہ تھے۔ حجاز کے بعد دوسرا مرکز عراق تھا۔ کوفہ میں عبدالرحمنٰ بن ابی لیلیٰ اور امام شعبی کے حلقہ درو س قائم تھے۔ بصرہ میں امام حسن بصری کا حلقہ درس امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔ حضرت سعید بن المیب حدیث و تفسیر کے علاوہ اپنے حلقہ درس میں، جو مسجد نبوی میں تھا، استعار پر بھی بحث کرتے تھے۔ اموی خلفاء   شپزادوإ لو عربہت صحیح تعلیم کیلئے بادیہ الشام بھیجا کرتے تھے۔شہروں اور قصبوں کے لوگ عام طور پر کسی بدر کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے اور اس سے درس لیتے تھے۔
ابتدائی عہد کے اموی شہزادوں کیلئے بادیہ ایک ایسی درسگاہ تھی جہاں وہ اپنے بچوں کو خاص عربی زبان سیکھنے اور شاعری میں مہارت حاصل کرنے کی غرض سے بھیجتے تھے۔ اس صحرائی علاقہ کے لوگ زبان کا صحیح استعمال کرنا سیکھتے تھے اور فصاحت و بلاغت میں کمال پیدا کرنا سیکھتے تھے۔
ولیدبن عبد الملک کے زمانے میں تعلیم کی طرف خاص توجہ دی گئی۔ طلباء اور حفاظ کو وظیفے دیے گئے۔ دیہاتوں کیلئے گشتی مسلم مقرر کئے گئے، مکتبوں کو مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مشہور معلم ابوالقاسم بلخی کوفہ کے ایک مکتب میں بچوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ ان کے مکتب میں تین ہزار طالب علم پڑھتے تھے۔ وہ گدھے پر سوار ہو کر ان کی نگرانی کرتے تھے۔ یہ مکتب مساجد سے الگ ہوتے تھے۔ ہر گائوں اور ہر بستی میں ایک مکتب قائم ہو چکا تھا۔ 
عہد نبویؓ کا سب سے بڑا کارنامہ عربی رسم الخط کی اصلاح اور اعراب کی اختراع ہے۔ اس دور میں نہ حروف پر نقطے ہوتے تھے اور نہ اعراب۔ اس وجہ سے بچوں خصوصاً غیر عرب بچوں کو قرآن مجید پڑھنے میں دشواری ہوتی تھی۔ سب سے پہلے ابوالا سود الدولی نے اس مشکل کی جانب توجہ کی اور اصلاح خطہ کا کام شروع کیا اور اس کی تکمیل مشہور نحوی اور لغوی خلیل بن احمد فراہم کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ اشاعت علم کے سلسلے میں عہد نبوامیہ میں سب سے زیادہ کوشش حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کی تھی۔ وہ خود بھی بہت بڑے محدث تھے اور فقیہ بھی تھے۔ انہوں نے اسلامی ریاست کے مختلف صوبوں کے گورنروں کو لکھا کہ اشاعت علم کی جانب پوری توجہ دیں۔ قاضی ابوبکر بن حزم گورنر مدینہ کو لکھا’’ علم کو پھیلاو اس کیلئے مجالس قائم کرو، تاکہ جو لوگ علم سے بے بہرہ ہیں وہ صاحب علم بن جائیں۔ علم اس وقت قسا ہوجاتا ہے جب وہ راز کی شکل اختیار کرلے ۔عمر بن عبدالعزیز کو اساتذہ کی طرف خاص نگاہ تھی۔حمس کے گورنر کو لکھاکہ ان لوگوں پر نظر رکھوں جنہوںنے خود کو فقہ کی تعلیم کیلئے وقف کردیا ہے۔ جو مساجد میں مقیم ہوگئے ہیں جنہوں نے دنیا کی طلب کو ترک کردیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کیلئے سو سود ینار وظیفہ مقرر کردیا تاکہ ان کی ضروریات کی تکمیل ہو سکے۔ جیسے ہی تم کو میرا یہ خط ملے فوراً بیت المال سے ان لوگوں کو رقم ادا کرو‘‘۔ 
عہد نبوامیہ میں تدوین احادیث کے علاوہ ، علم مفازی بھی مدون ہوا۔ اس فن کی طرف سب سے پہلے امام محمد بن مسلم بن شہاب زہری نے توجہ دی۔ حضرت عاصم بن قتادہ انصاری دمشق کی جامع مسجد میں علم مفاذی کی تعلیم دینے پر معمور تھے۔
اموی دور کے تعلیمی نظام میں حسب ذیل تعلیمی خصوصیتوں کا اضافہ ہوا۔
۱۔ علوم و منون کی ترویج کیلئے تالیف و تصنیف اور ترجمہ کا سلسلہ قائم ہوا۔
۲۔ اساتذہ اور طلبہ کے وظائف مقرر کئے گئے۔
۳۔ مساجد میں تعلیم کیلئے درس کے مستقل حلقے قائم ہوئے۔
۴ ۔ بعض اسلامی ملکوں میں اہل علم کو اپنے تعلیمی فرائض کی ادائیگی کیلئے جہاد کی خدمت سے مستثنیٰ کردیا گیا۔
۵۔ زبانی تعلیم کے علاوہ املا کا طریقہ جاری ہوا۔ یعنی استاد جو کچھ درس دیتا شاگرد اسے لکھ لیتے تھے۔
۶۔ کتابوں کی قراء ت کی سند و اجازت کا رواج ہوا۔ 
عہد بنو عباس میں تعلیم مسجدوں کے صحتوں، خانقاہوں علما کے مکانوں اور امراء کی حویلیوں میں جاری رہی۔ مدینہ منورہ کے علاوہ کوفہ، بصرہ اور فسطاط مشہور علمی مراکز تھے۔ اس عہد کی دو درس گاہیں خاص طور پرمشہورتھیں۔ ایک کوفہ میں امام اعظم ابوحنیفہؒ کی درس گاہ اور دوسری مدینہ منورہ میں امام مالکؒ کی درسگاہ۔ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے حلقہ تعلیم میں افغانستان سے لے کر دمشق اور شام تک کے طلبہ شریک ہوتے تھے۔ امام مالکؒ کے درس میں شرکت کیلئے ایک طرف بخارا اور سمرقند تک تو دوسری طرف تونس،قیروان، قر طبہ اور سرقسط تک کے طلبہ آیا کرتے تھے۔
عباسی خلیفہ منصور کے عہد سے تصنیف و تالیف کا آغاز ہوا۔ اس دور میں صرف شرعی و لسانی علوم ہی کے ساتھ اعتناء نہیں کیا گیا بلکہ حکومت کی سرپرستی میں بیرونی علوم کو بھی عربی میں منتقل کیا گیا اور سر پانی اور فارسی زبانوں سے عربی زبان میں کتابیں ترجمہ کی گئیں۔ 
وزراء اور خلفا اپنے بچوں کو تعلیم کا انتظام اپنے مکانات اور محلات میں کرتے تھے اور اس کیلئے سرکردہ علماء  کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ یہ علما، بڑی تنخواہیں پاتے تھے۔
 عہد عباسی میں درس و تدریس کے ساتھ تحقیق کا کام جاری تھا۔مامون الرشید نے مشہور لغوی الفراد سے جب ایک کتاب لکھوانے کا ارادہ کیاتو اس کیلئے محل میں آرام و آسائش کا تمام سامان مہیاکیا۔ سارا کتب خانہ اس کی تحویل میں دے دیا۔ کھانا کھلانے اور خدمت گزاری کیلئے ملازم رکھے اور چند منشی مقرر کئے جو ضروری چیزیں لکھنے میں اس کی مدد کرسکیں ۔اس مدت کے دوران الفراد نے کتاب المعانی تصنیف کی جسے نہایت اہم کارنامہ قرار دیا گیا۔
بیت الحکم میں ترجمے کا کام عروج پر تھا۔ ابن الندیم کا بیان ہے کہ فارسی علم ابومہل الفضل بن نوبخت ہارون الرشید کے بیت الحکمتہ میں مترجم تھا۔اس نے پہلے ہی بہت سی فارسی کتابوں کو عزبی زبان میں منتقل کیا۔مامون الرشید نے بہت بڑی تعداد میں عیر ملکی تصانیف جمع کرکے بیت الحکمتہ میں داخل کی اور شرح و تالیف کے ساتھ ان کے ترجموں کیلئے بہترین مترجموں کو مقرر کیا جن میں ضین بن اسحاق اور حجان بن مطلم نمایاں ہیں۔
اس کے بعد410ء میں سلطان محمود غزنوی نے متھرا کی فتح سے واپس جاکر ایک عالیشان مدرسہ بنوایا جس کے ساتھ ایک کتب خانہ بھی تھاجس میں مختلف کتب خانوں کی عمدہ کتابوں کی نقلیں کراکے نہایت اہتمام سے جمع کی گئی تھیں۔ مدرسے کے مصارف کیلئے بہت سے دیہات اور مواضع وقف کئے گئے تھے۔ سلطان کے بھائی امیر نصر سبک تگن نے اپنی امارت ینشاپور کے زمانے میں ایک مدرسہ تعمیر کروایا۔نظام الملک طوسی نے پانچویں صدی ہضری کے نصف میں مدارس نظامیہ کی بنیاد رکھی۔ان مدارس نے عالم گیر شہرت حاصل کی۔ ان میں اساتذہ، اخراجات اور کتب خانے کا انتظام، قیام کے وقت ہی کردیا جاتا تھا۔
چھٹی صدی ہجری تک اسلامی دنیا کا کوئی کونہ علمی عمارتوں سے خالی نہ رہا۔ خراسان کے بڑے صوبہ مثلاً اینشا پور ہرات، بلخ اور ایران کے علاقے پہلے سے علم و فضل کے مرکز تھے۔ حھین نظامیہ کے اثر نے اور بھی مالامال کر دیا۔ المقریزن کا بیان ہے کہ مسجد عمر میں بہت سے حلقے تھے ایک حلقہ میں امام شافیؒ درس دیا کرتے تھے اور وہ حلقہ انہی کے نام سے منسوب تھا۔ 
مختصر یہ کہ مسلمانون کی درس وتدریس کا مختلف جگہوں اور اداروں کا انداز مختلف رہا ہے۔ ابتدائی تعلیم مکاتب میں دی جاتی تھی۔ اعلیٰ ضحیم کتابوں کی دکانوں علماء کے گھروں اور اوجی مجلسوں میں رائج تھی۔مسجدوں میں ثانوی اور اعلیٰ دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی تھی۔ عموماً ایک مسجد میں مختلف معیا ر کے کئی حلقے قائم ہوتے تھے اور طالب علم اپنی لیاقت کے مطابق کسی بھی حلقے میں شریک ہوسکتا تھا۔ عصر حاضر میں دنیا کے بیش تر ملکوں میں رائج تعلیم کے مختلف مدارج یعنی ابتدائی (Primary) ثانوی (Secondry) اعلیٰ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم(Higher Secondary) تحقیق (Research) یہ سب اسلامی عہد حکومت میں عباسی دور تک عملاً وجود میںآچکے تھے۔
������