سہیل سالمؔ
ابھی فاروق نازکی ؔکے فراق میں ہماری آنکھیں پر نم ہی تھیں کہ ایک اور رنجدہ خبر موصول ہوئی ۔کشمیر کے شعری افق کا ایک اور روشن آفتاب ڈاکٹر شبیب رضویؔ ڈوب گیا(ا نا للہ ِ ونا الیہ راجعون) ۔13 فروری 2024 کی صبح کو میں گھر سے باہرکسی کام میں مصروف تھا کہ امداد ساقیؔ کا فون آیا اور کہا کہ ’’شبیب رضویؔ کا انتفال ہوگیا ہے‘‘۔ میں چونک گیا اور میں نے اس دُکھ دہ خبر کو اپنے کانوں میں اُتارنے کی بعد ایک لمبی آہ بھر لی۔میں نے ماضی میںچندیادگارلمحے شبیب صاحب کی صحبت میں گزارے ہیں۔شبیب رضویؔ کی طبیعت کئی سالوں سے اس قدر ناساز گار تھی کہ جسم کے تمام اعضاء شبیب صاحب سے روٹھ گئے تھے۔ ساقی ؔصاحب کی یہ خبر سن کر میں نے ا نا للٰہ ِونا الیہ راجعون پڑھ کر فون رکھ لیا۔ زندگی اور موت کا یہ اٹل کھیل ابتداء سے ہی جاری ہے اور اس کھیل کی طرف شبیب رضوی ؔنے اشارہ بھی کیا ہے۔ بقول شبیبؔ رضوی ؎
یہ کہانی ہے دل خراش مری
کیوں مرے دوش پر ہے لاش مری
میں کہاں گم ہوں اور کیسا ہوں
ہورہی ہے ابھی تلاش مری
ہستی و نیستی سے آگے ہے
جس جگہ پر ہے بود و باش مری
درمیانہ قد ،نورانی خا ل وخد،حسین چہرہ،آنکھوںپرشیشوں کا پہرہ،پاک پیشانی ،ادب کی کہانی،سر پر سفید سفید بال،شاعر باکمال،چھوٹے چھوٹے کان ،فہم و ادراک کا دبستان،چھوٹی ناک ،زبان بے باک ،ہونٹوںپر مسکان ،شعروشعری کی جان۔یہ ہیں لسانیات کا علمبردار ،نامور ترجمہ نگار،شاعری افق کا روشن ستارہ ،تہذیب وثقافت کا گہوارہ،کوہ ماراں کا غزل خواہ،اہل بیت کا ثنا خواہ،غزل کا طبیب ،عالی جناب ڈاکٹر شبیب ؔ۔ڈاکٹر شبیب رضوی کا اصلی نام سید محمد شبیب رضوی ہے۔شبیبؔ رضوی کاتعلق اترپردیش لکھنو سے ہیں ۔آپ 25 جون 1935 کو اترپریش میں تولد ہوئے۔عربی ،فارسی ،طبعی اور دینی تعلیم اپنے ہی علاقے میں حاصل کی ۔1963 میں انھوں نے اترپردیش چھوڑ کر کشمیر کی طرف سفر کیا اور گورنمنٹ طبیہ کالج سر ینگر میں مدرس کا پیشہ اختیار کیا ۔1993میں بحیثیت میڈیکل آفسر سبکدوش ہوئے ا ور اس کے بعد چار پانچ سال تک ایک مقامی طبیہ کالج میںا ستاد کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ شبیب رضویؔ نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز11 سال کی عمرمیں کیا ،جب ان کی پہلی غزل لکھنوسے شائع ہونے والے اخبار ’’دلگداز ‘‘ میں شائع ہوئی ۔اس کے بعد شبیب رضوی کی تخلیقات برصغیرکے مختلف جرائد ورسائل اور اخبارات میں چھپنے لگیں ،جن میں نیا دور، آج کل، شب خون، سر سبز، معاصر، تعمیر،سب رنگ، نگارش ،نگنیہ،انشا ،فنون،تحریک نو ،تریاق ، ابجد، صدا،کشمیر،حکیم الامت ،کسوٹی، جدید، بیسویں صدی ،شیرازہ اور جہات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔آپ شعری دنیا کی معززہستی اور معروف ادیب اور مترجم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔اس وقت تک شبیب رضویؔ ؔکی اردو میںسات کتابیں بہ عنوان مجموعہ سلام ،آتش چنار،حرف فروزاں،بچوں کے مشاعرے،لہو لہو غزل، کلام شیخ العالم اور نغمہ کہسار شائع ہو کر داد تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ ’’نغمہ کہسار ‘‘ میں شبیب رضوی ؔنے کشمیر کے ماضی ،حال اور مستقبل کی المناکی کو قبل ازوقت ہی بھانپ لیا ہے۔ کشمیر کی تاریخ اور تہذیب و تمدن کو خوبصورتی کے ساتھ منصہ شہود پر لایا ہے۔ کشمیر کے موسموں سے کبھی دوری اختیار نہیں کی بلکہ ہمیشہ کہساروں اور بیابانوں میں موسم بہار کا انتظار کرتے رہے ہیں۔شبیبؔ صاحب کے ہاں کشمیریت اور کشمیری تاریخ اپنے جوبن پر نظر آتی ہے۔ بقول شبیب رضویؔ
کیسی جنت ہے کہ تسبیح بھی زنار بھی ہے
کیسی جنت ہے کہ رسم رسن و دا ربھی ہے
یہ 9ستمبر2021 کی بات ہے کہ سہ ماہی کوہ ماراں کا پہلا شمارہ منظر عام پر آگیا اور اس کی رسم رونمائی شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی میں انجام دی گئی۔10 ستمبر کو یہ خبر وادی کے مختلف اخبارت میں شائع ہوئی۔شبیب صاحب نے یہ خبرپڑھتے ہی مجھے فون پر مبار ک باد پیش کیا اور میری اس ادنیٰ سی کوشش کوسراہا اور میری حوصلہ افزائی بھی کی ۔ یہ شبیب صاحب کی محبت اور شفقت تھی جو میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ 27 نومبر 2021کو میں اُن سے ملنے کے لئےاُنکے دولت خانہ (اندرون کاٹھی دروازہ رعناواری)پہنچ گیا۔شبیب صاحب کے بیٹے نے خندہ پیشانی سے استقبال کیا اور مجھے شبیب صاحب کے کمرے میں لے گئے اور ہاں شبیب صاحب ’’جہان حمد و نعت ‘‘ جو کہ جوہر قدوسی کی نگرانی میں شائع ہو رہا ہے ،کا مطالعہ کر رہے تھے ۔تھوڑی دیر کے بعد چائے سامنے آگئی اور چائے کے کش لینے کے ساتھ ساتھ شبیب صاحب کی ادبی زندگی اور کشمیر کے معاصر ادبی صورت حال سے بھی روشناس ہو تا گیا۔میں نے کوہ ماراں کا پہلا شماہ ان کی خدمت میں پیش کیا۔شبیب صاحب خوش ہوئے ا ور کہا ،ارے سہیل صاحب آپ نے توہمارے گھر کا نام رسالہ کے لئے منتخب کیا۔شبیب رضوی کوہ ماراں کے دامن میں رہائش پذیر ہیں۔ شبیب رضوی نے کہا کلچرل اکیڈیمی والے کلام سید رضاؔکو شائع کرنے والے ہیں ،اسی کے لئے میں آج کل سید رضاکی حیات و خدمات پر مضمون تحریر کر رہا ہوں اور شاید یہ شبیب رضویؔ کی ادبی زندگی کا آخری کام بھی ثابت ہوا۔شبیب رضوی کشمیر میں لکھنے والی شاعری سے مطمئن توتھے ہی لیکن مجھے با ربار اصرار کرتے تھے کہ نئی نسل کو لکھنے سے زیادہ مطالعہ کی اشد ضرورت ہے۔رسالہ کا نام کوہِ ماراں دیکھ کر انھوں نے مجھ تحفتاً ایک نظم ’’قلعہ ہاری پربت ‘‘ دے دی۔یہ نظم پھر کوہ ماراں کے تیسرے شمارے کی زینت بن گئی۔ آپ بھی اس نظم کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں؎
مسافر اس کھنڈر میں یہ تماش روز ہوتا ہے
یہاں جب صبح ہوتی ہے تو پر اسرار ہوتی ہے
سنکتی ہے صبا تاراج و لپسپا خواب گاہوں میں
تو جیسے نقرئی پازیب کی جھنکار ہوتی ہے
آفتاب غروب کی دہلیز پر دستک دینے والاہی تھا ، میںنے شبیب صاحب سے جانے کی اجازت طلب کی ۔شبیب صاحب نے اپنے دو کتابیںنغمہ کہسار اورآبشار نور مجھے دستخط کے ساتھ تحفتاً پیش کی، پھر اس کے بعد میںنے گھر کی راہ لی۔اُن کا خلوص ،ان کی سادہ طبیعت اور خوش مزاجی نے مجھ میں گویا سرشاری کی کیفیت بھردی۔آخرکار شعری اُفق کا یہ ستارہ 13 فروری 2024کوڈوب گیااور اپنے چاہنے والوں کو یادوں کا ایک قیمتی خزانہ دے کر تاعمر ان کے دلوں میں گھر کر گیا۔اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
( رعناواری سرینگر۔رابطہ۔9103654553 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔