’’آفتاب ‘‘کے بانی خواجہ صاحب! کچھ یادیں کچھ باتیں

معراج الدین مسکینؔ

زندگی کے طویل سفر میں بعض اوقات ایسے واقعات پیش آتے ہیں یا ایسے افراد سے وابستہ پڑتا ہے جو اپنی انفرادیت یا انوکھے پَن کی وجہ سے ذہنوں پر گہرا نقش چھوڑ جاتے ہیں ،مجھے بھی زندگی میں بچپن سے آج تک کئی لوگ ایسے ملے جن کے نام اور چہرے میرے ذہن میں اپنی دلچسپ ،انوکھی یا کڑوی باتوں کی وجہ سے محفوظ ہیں ،مگر جس کردار نے میری یادوں میں کچھ اَنمِٹ نقوش ثبت کئے ہیں وہ ایک بزرگ عاشق تھے ،جو وقت ِپیری میں بھی اپنی معشوق سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے اور مرتے دَم تک اُسی کے محبت و غم میں سرشار تھے۔
اس حقیقت سے شائد کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ کسی بھی زمانے میں کسی فرد کے لئے شہرت ِعام اور بقائے دوام کے دربار میں جگہ پانے کے لئے سخت محنت اور بے پناہ جدوجہد کے ساتھ ساتھ مختلف علوم و فنون کا ماہر اور متنوع میدانوں کا شہسوار ہونا ضروری ہوتا ہے ۔اس لحاظ سے بہت خوش بخت ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنی زمانۂ زندگی میں ایک عاشق کی طرح اپنے پیشے کو معشوق کا درجہ دیتے ہیں اور اس کے عشق میں سرشار رہ کر اپنے انفرادی عزم ،حوصلے اور ولولے کے ساتھ تمام نشیب و فراز کو پار کرلیتے ہیں اور دین داری ،خودداری اور بے باکی کے ساتھ اس کی نزاکت ،پاکیزگی و ندرت کی پاسداری ،حفاظت اور آبیاری کرکے آگے بڑھتے ہیں اور اُس منزل کو پالیتے ہیں، جس پر پہنچ کر وہ نہ صرف اپنا ایک خاص مقام حاصل کرلیتے ہیں بلکہ دوسروں کے لئے نقش ِ راہ بن جاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ سچ بولنا ،حق پر چلنا اور بے باکی کے ساتھ کا م کرنا ایک دینی فریضہ ہی نہیں بلکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی ہے کیونکہ دنیا میں ایسے لوگ بہت کم پائے جاتے ہیں جو حق اور سچ کی آواز بلند کرتے رہتے ہیں ،باطل اور جھوٹ کے سامنے نہیں جھُکتے اور اپنے اصول پسندانہ موقف پر ساری زندگی کوہِ گراں بن کر ایسے ڈٹے رہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت اُنہیں ہِلا نہیں سکتی ،دَبا نہیں سکتی اور ہیچ نہیں کرسکتی ہے۔یہ بھی ایک سچائی ہے کہ صحافت ایک روشن مشعل ہے اور صحافی وہ رہنما جو یہ مشعل ہاتھ میں تھامے ہوئے زمانے اور حالات کی بھول بھلیوںمیں راستہ تلاشنے والوں کی رہبری کے فرائض انجام دیتا ہے ۔اسی تناظر میں کئی سچے اور غیر جانبدار قلم کار ،صحافی ،ادیب اور نقاد ہی معاشرتی اقدار کی بقاء کے مضبوط ستون بھی رہے ہیں۔سرسید احمد خان کی بات کریں تو انہوں نے اپنے قلم اور کردار سے حقائق کو سامنے لانے کی ایک مثال قائم کی ہے۔مولانا حالی نے قوم کے سوچنے کا انداز ہی بدل ڈالا، محترم شبلی،محمد علی جوہر ،مولانا ابو الکلام آزاد اور اس قبیل کے دیگر ادیبوںنے تو کایا ہی پلٹ دی۔اس اعتبار سے وادی ٔ کشمیر کے خواجہ ثناء اللہ بٹ کی خدمات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو وہ بھی کافی حد تک اُنہی کی قبیل میں شمار کئے جاسکتے ہیںجنہوں نے صداقتوں کے عاشق بن کر حقائق کی تلاش کی ،سچائیوں سے محبت اور بُرائیوں سے نفرت رکھ کر انہیں محسوس کرکے الفاظ میں پرویا اور قلم کی دلیل سے منظر عام پر لانے میں کسی قسم کا پس و پیش نہیں کیا ۔خواجہ ثنا ء اللہ بٹ مرحوم بھی اپنے پچپن سالہ صحافتی زندگی ملت و معاشرہ کی فلاح و بہبود کے لئے وقف رکھ کر نتائج کی پرواہ کئے بغیر وقت کے بے درد سیاست دانوں ،بے رحم حکمرانوں ،خود غرض سماجی رہنمائوں اور نافہم مذہبی پیشوائوںکے خلاف اپنی قلمی جنگ جاری رکھی اور ثابت کردیا کہ نجی مصلحت اور مفاد کو ایک دن چھوڑنے والا اور خلوص کے ساتھ زمانے اور حالات سے لڑنے کی قوت رکھنے والا بلا خوف و کھٹکا اپنی آراء قلمبند کرنے اور انہیں عوام تک لانے میں کبھی پیچھے نہیں رہتا ہے ۔اس لئے میری نظر میں آفتاب کے بانی خواجہ ثناء اللہ بٹ انہی خوش بخت عاشقوں میں ایک ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں اپنے پیشے کو ایک معشوق سمجھ کر اپنی سمابی ،انقلابی اور نفسیاتی قلم کے علم و فن سے ایسی تلخ و شریں تحریریں ضبط کیں جو عموماً ملت و معاشرے کے ہر طبقے سے وابستہ افراد کی اندرونی کیفیات اور بیرونی خدوخال پر مظہر ہوتی تھی،جن کی رنگ ِفصاحت کو معاشرے میں جہاں کل کافی مقبولیت اور اعتباریت حاصل رہی وہیں آج بھی حاصل ہے ۔یہ بزرگ عاشق خواجہ مرحوم ہمیشہ حکیم الامت علامہ اقبال ؒ کواپنا مرشد سمجھتے تھے ،شائد اس لئے مرحوم نے اپنی صحافتی عاشقی میں وادی بھی میں اپنا نام پیدا کیا ،کبھی بھی اپن خودی کا سودا نہیں کیا، غریبی میں ہی نام کمایا اور اپنے مرشد ِمحترم المقام ؒ کے اس کلام کو ثابت کردکھایا کہ ؎
دیدار ِعشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
مجھے بھی خواجہ صاحب مرحوم کی صحبت میں چند سال زانوے ادب تہہ کرنے کا موقع نصیب ہوا ہے۔لگ بھگ تیرہ چودہ برس تک آفتاب میں کام کرنے کے دوران اُن کی ذات کو نزدیک سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقعہ ملا ،گرچہ وقت پیری میں اُن کے مزاج میں تندی و تیزی ضرور تھی لیکن اوصاف درویشانہ تھے ،چلنے پھرنے میں اگرچہ بہت سست رفتاری آئی تھی پھر بھی اُن کی زندگی ہمہ جہت تھی ،بیک وقت صحافی ،ادیب اور نقاد کا کردار اداکررہے تھے ،ایسی پُر اعتماد تحریریں قلم بند کرواتے تھے جن میں خیال یا بیان کی کوئی پستی نہیں ہوتی تھی بلکہ ہر تحریر میں جذبات ،احساسات ،جوش و شوق ،لطافت بیان و جدت اسلوب موثر شکل میں موجود ہوتا تھا ،جو کچھ بھی کہتے تھے فکر و شعور کی گہرائیوں میں اُتر کر کہتے تھے اور مجھ سے قلم بند کرواکر اپنی تحریروں سے انسانی احساسات و جذبات کی ترجمانی اس طرح کرتے تھے جن سے عوام کے سکھ دُکھ اور اُن کی بہترین خواہشوں اور تمنائوں کا اظہار ہو۔
خواجہ مرحوم کا فطری میلان ابتدا سے صحافت ،ادب اور مذہب کی جانب تھا ۔اُن کی تحریروں میں حسن بیاں،فسون کاری ،شگفتہ کلامی اور سحر کاری پائی جاتی ہے ۔ان کے مضامین ،ان کے اداریے اور اُن کے مزاحیہ کالم ’’خضر سوچتا ہے وُلر کے کنارے‘‘سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کو زبان و بیان پر کمال حاصل تھا ۔اُن کی صحافت گوناگوں خوبیوں سے آراستہ تھی ،کسی بھی اہم یا نازک موضوع پر اُن کے قلم میں تلخ و شریں جملوں کی ادائیگی کی کوئی کمی نہیں تھی ،نہایت مشتاق مترجم اور سُرخی طراز تھے گویا اپنی ذات میں انجمن تھے ۔اُن کی طویل صحافتی زندگی میں اُن کے ماتحتوں کو بھی ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے ۔انہوں نے کئی افراد کو ذمہ دارانہ صحافت کا فن بھی سکھایا اور اُن کے لئے بہتر زندگی کی راہ کھولی۔وقت پیری اور جسم ضعیفی میں اُن کی وضع قطع ،اُن کے سوچنے ،لکھنے اور بولنے کے انداز میں جو اعتماد و اعتدال اوربے باکی تھی وہ اُن کے ذہن کی سلامت روی ،شعور کی صحت مندی ،ضمیر کی بیداری اور مسلمہ خود داری کی واضح علامت تھی ۔انہوں نے صحافی کی حیثیت میں کامیاب زندگی گذاری اور مرتے دَم تک اپنے پیشے کو اپنی معشوق سمجھ کر اس کی عقیدت و محبت میں ورفتار رہ کرر ایک سچے عاشق ہونے کا ثبوت پیش کرتے رہے۔
خواجہ صاحب مرحوم بعض اوقات صحافت اور ادب کے موضوع پر جب بات کرتے تھے تو مختلف تاویلات ، تجربات اور اہم نکات بیان کرتے رہتے تھے ۔ایک بات جو مجھ سے بار بار کہتے تھے وہ یہ کہ ’’صحافی یا ادیب صرف صحافی یا ادیب نہیں ہوتا ،وہ بھی اسی معاشرے کا پروردہ ہوتا ہے جس سے ہم اور آپ پروردہ ہیں ،اس لئے یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی لکھنے والے کی تحریر اُس کی عمومی شخصیت میںتفاوت اور تضاد اتنا سنگین اور گھمبیر ہو کہ قاری کومعلوم ہوجائے اور لکھنے والے کا تاثر زائل ہوکر صحافت کی اعتباریت معدوم ہوجائے،لکھنے والے کو اس بات کا خیال رہنا چاہئے کہ صحافی کے ساتھ ساتھ اس کی صحافت کا اعتبار معاشرے کی صحت مند ارتقاء کے کے لئے بہت اہم ہے اور اپنے اس اعتبار کو قائم و دائم رکھنا حساس قلم کاروں کی اپنی ذمہ داری ہے۔‘‘
خواجہ صاحب کی شہرت اور ہر دل عزیزیسے متاثر ہوکر سیاست دان ،حکمران ،وزراء،افسران اور دانشور وا تاجر اُن سے ملنے کا اشتیاق رکھتے تھے لیکن وہ کسی کے ساتھ زیادہ مراسم قائم کرنے یا تعلقات بڑھانے کے مشتاق نہ رہے،بڑے بڑے سیاست دان ،وزیر ،امیر اور افسر بغیر اجازت اُن سے ملنے کی جسارت نہیں کرتے تھے ،گویا سچائی کا یہ پرستار نہ صرف اپنی مرضی کا مالک بن گیا تھا بلکہ مختلف معاملوں میں بالکل بے خوف بھی تھا اور گوشۂ نشینی کو ہی اپنا مسکن بنانے میں ملکہ حاصل کرلیا تھا ۔الغرض گونا گوں خوبیوں کے مالک ہونے کے باوصف اپنی تحریروں میں سچائیوں اور صداقتوں کے مظہر تھے،باشعور تھے مگر اپنی شہرت کا گھمنڈ نہ تھا ،باعزت تھے اور شرافت مثالی تھی ،پُر خلوص تھے مگر اپنے خلوص کے ساتھ تنہا رہے،جسم کے درودیوار میں لمبی عمر تک قید رہے اور بغیر کسی آہٹ کے 25؍ نومبر2009 آزاد بھی ہوگئے ۔اللہ نہیں مغفرت کرے۔
����������������������