آری کا روایتی فن | فتح کدل کی خاتون روایت کو زندہ رکھنے میں مگن

عظمیٰ نیوز سروس

سرینگر//سرینگر کے پائین علاقہ فتح کدل کی 45 سالہ خاتون شیریفہ شبیر کئی برسوں سے آری کے کام کے روایتی فن سے وابستہ ہے،یہاں تک کہ ایک بچے کی ماں ہونے باوجود، وہ ااس کام میں آگے بڑھ رہی ہے۔آری کام میں پیچیدہ دھاگے اور سوئی سے کام ہوتا ہے، جس میں اکثر پھولوں کی شکلیں ہوتی ہیں۔شریفہ نے کہا ’’میں پردے، تکیے، سجاوٹ کیلئے میز پوش اور بہت کچھ بناتی ہوں، کام کا بوجھ اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا پہلے ہوا کرتا تھا، لیکن مجھے یہ اطمینان بخش لگتا ہے۔ اس کام کے تئیں اپنی دلچسپی بیان کرتے ہوئے شریفہ نے کہا’’2019 میں لاک ڈاؤن کے دوران میں نے اپنے اس جذبے کے لیے زیادہ وقت وقف کیا ہے اور میں تب سے ثابت قدم ہوں‘‘۔انہوں نے کہا ’’آری کام کی اجرت وزن پر مبنی ہے۔

مثال کے طور پر، ہم پردے میں جتنا زیادہ دھاگہ استعمال کریں گے، قیمت اتنی ہی زیادہ ہوگی،اسی طرح تکیے کے کام کے لیے 25-30 روپے فی ٹکڑا لیتی ہوں‘‘۔انہوں نے کہا’’ مخمل سے بنے پردے کی ایک اور قسم بھی ہے، جسے عام طور پر ‘مخمل’ کہا جاتا ہے، جس کے لیے مجھے 1600 روپے فی کلو ملتے ہیں‘‘۔شریفہ نے کہا’’مجھے ایک پردے کو مکمل کرنے میں تقریباً 10 سے 12 دن لگتے ہیں، اور یہ کافی چیلنجنگ ہے، لیکن مجھے اپنے کام سے سچی محبت ہے اور میں روزانہ دو ٹکڑے بنا سکتی ہوں‘‘۔ آڑی کڑھائی ہندوستان میں کڑھائی کی قدیم ترین شکلوں میں سے ایک ہے۔

اس کی تاریخ 12 ویں صدی کی ہے جب مغل بادشاہ پھولوں کی شکلوں اور روایتی ڈیزائنوں کے سحر میں مبتلا تھے۔کشمیری آری مصنوعات اب عالمی سطح پر مشہور ہیں اور بین الاقوامی اور مقامی سطح پر ان کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ کشمیری آری پھرن، آری کام کی روایت کے تحت تیار کردہ مقبول لباسکی ایک مثال کے طور پر ہے۔