آتش زیر پا کشمیر کا بگڑتا ماحولیاتی توازن

ڈاکٹر عریف جامعی
کالج کے دنوں (۱۹۹۸ ء) میں راقم نے ایک جرمن سیاح خاتون سے پوچھا تھا کہ وہ کشمیر اور سوئٹزرلینڈ کا تقابل کس طرح کریں گی؟ انہوں کہا تھا کہ ان کے خیال میں کشمیر ہی زیادہ خوب صورت ہے۔ تب سے اڑھائی دہائیاں گزر چکی ہیں اور اس دوران یہاں کا ماحول کچھ سے کچھ ہوچکا ہے۔ کہاں گزرے دنوں کے صاف ستھرے جنگل، دلنشیں سیاحتی مقامات، پاک صاف ندی نالے، دل کو لبھانے والی جھیلیں، چناروں، بیدوں اور سفیدوں سے مزین سڑکوں کے کنارے، غرض ہر سو شفافیت کا ایسا احساس ہوتا تھا کہ کشمیر کے ’’فردوس بروئے زمیں است‘‘ ہونے کا خیال یقین میں بدل جاتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسی طرح کے فطری ماحول میں ہمارے رشیوں اور صوفیوں نے مراقبے اور مجاہدے کرکے روحانیت اور زہد کی روایات آگے بڑھائی ہوں گی۔ یہاں پر یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ مراقبہ اور مجاہدہ فقط مالا جپنے اور تسبیح پھیرنے کا نام نہیں ہے۔ چونکہ یہ تصور ہمارے اسلاف میں بالکل واضح تھا، اس لئے وہ خدا کی تسبیح و تحمید کے ساتھ ساتھ میوہ دار اور سایہ دار درخت لگانے کو کار ثواب جانتے تھے۔ بادشاہ جہانگیر نے’’تزک جہانگیری‘‘ میں اپنے دور میں کشمیر میں دو ہزار رشیوں کے موجود ہونے کی بات کی ہے جو خدمت خلق کے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ درخت لگاتے رہتے تھے۔ اس طرح ہمیں شیخ نورالدینؒ  کے اَن پوشہ تیلہ ِییلہِ وَن پوشہِ‘‘ کو اسی خدمت اور تربیت کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔
ظاہر ہے کہ جہاں شہر کاری (اربنائزیشن) اور صنعت کاری (انڈسٹریلائزیشن) سے باقی دنیا متاثر ہوئی، وہاں کشمیر جیسی چھوٹی وادی کا متاثر ہونا لازمی تھا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر کی زرعی زمین رہائشی مکانات اور تجارتی مراکز (دکانوں، صنعتی اکائیوں، وغیرہ) کی نذر ہونے لگیں۔ بات ضرورت تک محدود رہتی اور تعمیرات واضح بلدیاتی منصوبوں کے مطابق کھڑا کی جاتیں تو ماحول کے لئے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ لیکن بڑھتی آبادی نے از خود ترقی کے مواقع ڈھونڈتے ڈھونڈتے اور رہن سہن کے بدلتے خدوخال کو اپناتے ہوئے لہلہاتے کھیتوں کو پکی عمارتوں کے جنگلوں میں تبدیل کیا۔ ان تعمیرات کے زیر اثر ندی نالے اور تالاب اب آبادیوں کے لئے بد رو کا کام کرنے لگے۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ بڑے بڑے ندی نالے جو کشمیریوں کے لئے رگ ِجاں کا کام دیتے تھے، وہ ہماری دست برد اور یورش سے محفوظ رہے۔ پہاڑی نالوں سے لیکر میدانی ندیوں تک کو ہم نے نہ صرف اپنے گھروں سے نکلنے والے گندے پانی سے آلودہ کیا بلکہ گھروں سے نکلنے والی ہر طرح کی گندگی کو انہی کے کناروں پر جمع کیا۔ آج ہم کشمیر کے اکثر علاقوں میں صبح سویرے یہ تماشا دیکھ سکتے ہیں کہ گھروں سے نجی یا مسافر گاڑیوں میں لوگ پالتھین لفافوں میں کوڑا کرکٹ لیکر نکلتے ہیں اور اسے سڑک کے کناروں، میدانوں، باغات اور ندیوں کے کناروں پر پھینک آتے ہیں۔ یہ کوڑا کرکٹ پھر تعفن کا سبب بن کر بیماریوں کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے۔ زیادہ تر گندگی بالواسطہ یا بلاواسطہ آبی ذخائر میں پہنچ جاتی ہے اور پانی کی آلوگی کا سبب بنتی ہے۔ تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب مائیں بچوں کے استعمال شدہ ڈائپر تک ندی نالوں اور کھیتوں کھلیانوں میں پھینک آتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ شادیوں میں زائد (جھوٹا اور غیر استعمال شدہ) کھانا اور ڈسپوزل سامان بھی شادی کی تقریب ختم ہوتے ہی دریاؤں کے کناروں کے سپرد کیا جاتا ہے۔
ہم اس بات سے باخبر ہیں کہ کئی ایک سلگتے مسائل کا حل مذہب میں پنہاں ہے۔ اگرچہ تمام مذاہب میں صفائی ستھرائی کے بارے میں ایک مثبت رجحان پایا جاتا ہے، لیکن اسلام کا پورا تصور ہی پاکیزگی (تزکیہ) کے گرد گھومتا ہے۔ ظاہر ہے کہ روحانی پاکیزگی کا تصور بھی جسمانی پاکیزگی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں یہ بات ہمارے لئے چشم کشا ہے کہ قرآن و سنت پاکیزگی کے تصور سے بھرے پڑے ہیں۔ قرآن کا بیان ہے کہ ’’اللہ بہت زیادہ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور بہت زیادہ پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘(البقرہ، ۲۲۲) اسی طرح رسول اللہؐ نے فرمایا ہے: ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے۔‘‘ (مسلم) اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے منبر و محراب سے ہر طرح (جسمانی و روحانی) پاکیزگی پر تو خوب زور دیا جاتا ہے، لیکن ماحول کی صفائی ستھرائی پر کبھی بات نہیں کی جاتی۔
اس کے برعکس جس طرح ہمارے گھروں سے نکلنے والا گندہ پانی بلاواسطہ یا بالواسطہ ندی نالوں میں جاتا ہے، بالکل اسی طرح مساجد، خانقاہوں اور زیارتوں سے منسلک وضو خانوں سے نکلنے والا پانی بھی نالوں اور دریاؤں میں جاگرتا ہے۔ علاوہ ازیں مذہبی اجتماعات میں استعمال ہونے والی ڈسپوزل (پلاسٹک) بوتلیں اور پالتھین لفافے بھی ماحول کی آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی سیاحتوں کے دوران بھی ہمارے ندی، نالے، دریا، گلیشیر اور جنگلات تباہ ہوتے جارہے ہیں۔ اس بات کی سنگینی کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ راقم نے اپنی یونیورسٹی کے طالبعلمی کے زمانے (۲۰۰۳ ء) میں ایک کوہ پیمائی (ٹرکنگ) کے سفر کے دوران اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سونا مرگ میں نالۂ سندھ کے شمالی کنارے کی صفائی کا کام کیا، لیکن ہم تیس طالبعلم صبح دس بجے سے دوپہر ایک بجے تک صرف دو سو میٹر کی صفائی کرپائے تھے کہ ہماری ہمت جواب دے گئی۔ اس دوران ہم نے کوڑے (پالتھین بیگ، چپلیں، جوتے، کپڑے، ٹن ڈبے، وغیرہ) کا ایک انبار جمع کیا۔ یہاں پر اس بات کا واضح رہنا ضروری ہے کہ ماحول کی تباہی کا یہ ’’کار خیر‘‘ تمام مذاہب کے پیروکار (نہ کہ مذاہب) بڑی دیدہ دلیری سے انجام دیتے ہیں۔ اس لئے اس مسئلے کو کسی تعصب کے بغیر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
تاہم ہمارے ماحول کی تباہی کو فقط مذہب کے خانے میں ڈالنا دانشمندی ہے اور نہ ہی عدل و انصاف کا تقاضا، کیونکہ ہمارے ہوٹلوں اور ریستورانوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہاں سے خارج ہونے والا پانی اور ڈسپوزل سامان بھی کسی نہ کسی طرح آبی ذخائر کی نذر ہی ہوجاتا ہے۔ ریاستی، ملکی اور غیر ملکی سیاح جب مشہور سیاحتی مقامات جیسے پہلگام، گلمرگ، یوسمگرگ، سونا مرگ، دودھ پتھری وغیر کا رُخ کرتے ہیں تو یہ ان مقامات کے ماحول کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ سبھی قسم کے سیاح ماحول کو بگاڑنے کا سبب بن جاتے ہیں، اس میں مقامی سیاحوں کا حصہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس بات سے ہم سبھی واقف ہیں کہ یورپی سیاح ماحول کے بارے میں کافی حساس ہیں، اس لئے وہ ان مقامات پر گند پھیلانے میں سب سے کم حصہ ڈالتے ہیں۔ اس کا ثبوت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ کئی یورپیوں نے اپنی سیاحت کے دوران جھیل ڈل کو صاف کرنے کی ایک مہم شروع کرکے ہمارے لئے ماحول کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ تاہم مقامی طور پر ہم اس سلسلے میں بالکل بے حس نہیں ہیں۔ ہماری ایک سات سالہ ’’جنت‘‘ نامی بچی نے بھی ڈل کو صاف کرنے کی مہم چلائی۔ تاہم اکثر سیاحتی مقامات پر ہمارا رویہ بے ہنگم ہے، جس سے ماحول تباہ ہوتا جارہا ہے۔
جہاں تک ہمارے تعلیمی اداروں کا تعلق ہے تو ان میں پہلا درس ہی یہ دیا جاتا ہے کہ ’’صفائی سے انسان انسان ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب بھی صرف جسمانی صفائی نہیں ہے، بلکہ اس سے مجموئی صفائی ستھرائی مراد ہوتی ہے۔ تاہم ابتدائی مدارس سے لیکر دانش گاہوں تک میں صفائی ستھرائی کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ عام حالات میں بھی فضلہ ٹھکانے لگانے کا کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا۔ خاص مواقع، جب ان اداروں میں چھوٹی بڑی تقریبات منعقد ہوتی ہیں، پر تو پلاسٹک بوتلوں اور پالتھین کا خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان اشیاء سے راست طور پر ماحول بگڑنے کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ حیرت تب ہوتی ہے جب ماحولیات اور روحانیت پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس وقت بھی تقریب ختم ہوتے ہی ان اداروں کے اندر اور ان کے آس پاس گندگی کے ڈھیر جمع ہوجاتے ہیں۔
کچھ یہی معاملہ ہمارے اسپتالوں کا بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اسپتال صحت عامہ کو برقرار رکھنے کے ’’آستانے‘‘ (مقدس مقامات) ہوتے ہیں۔ صفائی کے معاملے میں یہاں پر مریض کے خدمتگار اور تیماردار سیاحوں کا کردار نبھاتے ہیں اور پورے اسپتال کے ماحول کو بگاڑ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس بھیڑ کا متحمل نہ تو اسپتال کی صفائی پر مامور عملہ ہوتا ہے اور نہ ہی یہاں کے کوڑے دان اور استنجاء خانے اس بار کو برداشت کرپاتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر اول تو اسپتال تعفن کا شکار ہوتے ہیں اور دوم اسپتال سے نکلنے والا فضلہ بھی صحیح طور پر ٹھکانے نہیں لگتا۔
ہمارے دکانداروں میں بھی ماحول کی صفائی کے تئیں کچھ خاص حساسیت نہیں پائی جاتی۔ دن بھر خرید و فروخت کے دوران جمع ہونے والے ڈبے اور پالتھین لفافے اکثر سڑکوں پر پھینکے جاتے ہیں۔ جب ہم کسی بھی بازار کا علی الصبح معائنہ کرتے ہیں تو پورا بازار گندہ اور تعفن زدہ ہوتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ صفائی عملہ بھی صفائی میں مصروف ہوتا ہے، لیکن گندگی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بازار مکمل صاف نہیں ہوپاتے۔ظاہر ہے کہ اس بگڑتے ماحول سے ہماری چھوٹی سی وادی کا ماحولیاتی توازن درہم برہم ہوچکا ہے۔ بے وقت کی بارشیں اور برف باری اور خشک موسم کے لمبے وقفے اسی کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے کئی ایک پانی کے منبعے (گلیشیر) خشک ہورہے ہیں۔ کئی ایک ندیوں اور نالوں کا اب نام اور نشان کے علاوہ کچھ (یعنی پانی) باقی نہیں ہے۔ جہلم اور اس کی معاون ندیوں کی عمومی سطح بھی بہت نیچے آچکی ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کا ہر طبقہ ماحول کے تئیں حساس ہوجائے اور ریاستی سطح پر ماحول کی صفائی کا بچاؤ کو ایک تحریک میں تبدیل کیا جائے۔ اس سلسلے میں جہاں حکومت کو اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے وہیں معاشرتی انجمنوں، تعلیمی اداروں اور مذہب سے منسلک شخصیات کو بھی بھرپور انداز میں اپنا کردار نبھانے کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں ہم اس بات پر فخر کرسکتے ہیں کہ ہم اس ’’جنت نظیر وادی ‘‘کے وارث بھی ہیں اور امین بھی۔
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج سوگام، لولاب میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔9858471965