آتشزدگیاں:متاثرین کی داد رسی کریں

حال ہی میں آتشزدگی کے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہوئے ہیں جن میں اب تک درجنوں رہائشی مکانات جل کر خاکستر ہوگئے جس کے نتیجہ میں متعدد خاندان ابتدائی سردی کے موسم میں بے خانما ہو گئے ہیں۔ آگ لگنے کے یہ واقعات سری نگر شہر اورجموںو کشمیر کے کم وبیش سبھی حصوں سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ بے گھر ہونا کسی بھی خاندان کیلئے ہمیشہ ایک سنگین مسئلہ ہوتا ہے اور وہ بھی سردیوں میں۔ ان بے گھر خاندانوں کو پھر اپنے رشتہ داروں یا پڑوسیوں کے گھروں میںپناہ لینا پڑتی ہے جب تک کہ وہ اپنے انتظامات خود نہ کر لیں۔ زیادہ تر، انہیں سخت حالات میں دوسروں کے گھروں میں رہنا پڑتا ہے۔ پھر بحالی وبازآبادکاری بھی ان کے لئے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔آتشزدگیوں کے ان واقعات میں نہ صرف ان کے آشیانے راکھ ہوجاتے ہیں بلکہ بیشتر خاندان آگ کی ان تباہ کن وارداتوںمیں کچھ بھی نہیں بچا پاتے ہیں۔ وہ زندہ رہنے اور اپنے مکانات کی تعمیر نو اور اپنی بحالی کے لئے دوسروں کی مالی امداد پر منحصررہتے ہیں۔بے گھر ہونے کے بعد متاثرہ افراد حکومت سے ان کی بروقت امداد کی توقع رکھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ امداد ناکافی ہے۔ اس امداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آتشزدگی متاثرین اپنے آپ کو صحیح طریقے سے دوبارہ بحال کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔معاشرے کو بھی متاثرہ خاندانوں کی مدد کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے جنہیں ایسی مدد کی ضرورت ہے اور وہ مدد چاہتے بھی ہیں۔ رشتہ دار ہوں، پڑوسی ہوں یا دیگر لوگ ،سبھی کو آگے آنا چاہئے اورجس طرح سے ممکن ہو،ناگہانی آفات کے ستائے لوگوں کی مدد کرنی چاہئے ۔ معاشرہ قطعی متاثرین کے دکھوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا،ورنہ ہم انسان کہلانے کے مستحق ہی نہیں رہتے ہیں کیونکہ اخوت اور ہمدردی کا جذبہ ہی ہمیں حیوانوں سے الگ کردیتا ہے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر آج وہ مصائب میں مبتلا ہیں تو کون جانتا ہے کہ مستقبل میں اور کس کو اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔کل ہم بھی ہوسکتے ہیں۔اگر آج ہم متاثرین کی دلجوئی میں کنجوسی نہ کریں تو کل ہم اپنے آپ کو تنہا نہیں پائیں گے۔یہ اس صورتحال کا ایک پہلو ہے ۔دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ہم ناگہانی آفات کو روک نہیں سکتے ہیں اور نہ ہی یہ پوچھ کر آتی ہیں تاہم جتنا ممکن ہوسکے ،ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی بساط کے مطابق ایسے واقعات کو روکنے کی کوشش کریں ۔ اس ضمن میں حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں۔کسی گھر میں آگ لگنے سے نہ صرف وہاں رہنے والے خاندان متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان کے آس پاس کے وہ لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں جن کے گھروں میں بھی آگ لگ جاتی ہے اور نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے ایسی تمام چیزوں کو احتیاط سے سنبھالنا چاہئے جو آگ کا باعث بنتی ہیں۔ آگ لگنے کی زیادہ تر وجہ بجلی کا شارٹ سرکٹ ہے۔خاندانوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے گھر شارٹ سرکٹ سے محفوظ ہوں اور کمزور نہ ہوں۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو اس کا ازالہ کیا جائے۔ آگ لگنے کی دوسری وجوہات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ اس طرح کے حادثات کو روکنے کے لئے کوششیں کی جائیں۔فائر اینڈ ایمرجنسی سروسز محکمے کو بھی زیادہ افرادی قوت اور زیادہ فائر اسٹیشنوں کے ساتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ فائر فائٹرز کو ایسے حالات سے نمٹنے کے لئے خاص طور پر سردیوں میں تیاری کی حالت میں ہونا چاہئے اور ان کے پاس ٹینکوں میں پانی ذخیرہ کرنے کے علاوہ تمام ضروری سامان ہونا چاہئے تاکہ آگ کو بروقت بجھایا جا سکے۔انہیں موقع پر اپنا کام کرنے دیا جائے۔ ان کے کام میں غیر ضروری مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ اس وقت، فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ حال ہی میں آگ سے متاثرہ افراد کی مدد کی جائے ، سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطحوں پر۔ اس میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔حالیہ واقعات نے آگ بجھانے کے فوری آپریشن شروع کرنے کیلئے فائر اینڈ ایمرجنسی سروسز ڈیپارٹمنٹ کی مکمل تیاریوں کو مزید اہم بنادیا ہے او ر یہ ضرورت بھی اب شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ فائر سروس محکمہ نہ صرف ہمہ وقت لوگوں کو انتہائی قریب ترین علاقہ میں میسر ہو بلکہ افرادی قوت کی بھی قلت نہ ہو تاکہ بوقت ضرورت مذکورہ محکمہ بھرپور افرادی قوت کے ساتھ مقامی آبادی کے ساتھ مل کر آگ بجھانے کی کارروائی بروقت شروع کرسکے اور ساتھ ہی ریسکیو آپریشن میں بھی تاخیر نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ آگ جیسی ناگہانی آفت کسی سے پوچھ کر در پر دستک نہیں دیتی بلکہ ایسی آفات اچانک نازل ہوجاتی ہیں اور اچانک نازل ہونے والی آفات سے نمٹنے کیلئے کس سطح کی تیاریاں ہونی چاہئیں ،وہ سمجھ سے بالاتر نہیں ہیں تاہم افسوس کا مقام ہے کہ یہاں ناگہانی آفات سے نمٹنے کے ذمہ دار محکمے ہی خود انتہائی غیر ذمہ داری کا شکار ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔وہ کسی بھی وقت ایسی آفات سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں اور پھر خدا خدا کرکے اپنے سٹیشنوں سے نکل ہی جاتے ہیں تو اُس وقت تک بہت دیر ہوئی ہوتی ہے ۔حالات کا تقاضا ہے کہ فائر سروس عملہ ناقص طورلیس نہیں ہوناچاہئے جس کی وجہ سے ان کے فائر فائٹنگ آپریشن میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ اعلیٰ حکام کومحکمہ سے جڑے عملہ میں پھرتی لانے کیلئے توجہ دینے اور ضروری کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔حکام کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مزیدکتنے فائر سٹیشن قائم کرنے اور مزید لوگوں کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جموںوکشمیر میں ایسی جگہیں ہیں جن کے آس پاس فائر سٹیشن نہیں ہیں اور آگ لگنے کی صورت میں جان و مال کے نقصان کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔مزید فائر سٹیشن قائم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے اور اس محکمہ میں عملہ بھی وافر تعداد میں دستیاب ہونا چاہئے۔ لوگوں کو بھی آگ لگنے کے واقعات کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ لاپرواہی بعض اوقات جانوں کے ضیاع اور املاک کے نقصان کا باعث بنتی ہے۔چونکہ موسم سرما دستک دے چکا ہے اور سردی سے بچنے کیلئے گرمی دینے والے آلات کا استعمال شروع ہوچکا ہے تو محکمہ کو بھی خواب غفلت میں بیدار رہنے کی بجائے خود کو تیار رہنا چاہئے کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سردیوں میں آتشزدگیوںکے واقعات بڑھ جاتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ جب کانگڑیوں، بخاریوں یا دیگر حرارتی آلات کااستعمال بڑھ جائے تو آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ کا احتمال رہتا ہے، اس لئے لازم ہے کہ متعلقہ محکمہ بھی تیار رہے اوربوقت ضرور ت متاثرہ مقام تک پہنچنے میں تاخیر نہ ہو تاکہ نقصانات کو کم سے کم کیاجاسکے۔